کتابیات

نسیم انجم  ہفتہ 21 ستمبر 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

بک شیلف کی بے ترتیب کتابوں کو سلیقے سے رکھتے ہوئے کئی اہم کتابوں پر میری نگاہ پڑی، ویسے تو سچی بات یہ ہے کتابیں کسی نہ کسی حوالے سے اہم ہی ہوتی ہیں، تنقید کی ہوں یا شعروسخن کی، ادبی، معاشرتی و سیاسی یا مذہب کے حوالے سے ہوں، ان کا مطالعہ بہت سی ان معلومات کے در وا کرتا ہے، جن سے ہم ناواقف ہوتے ہیں اگر واقف ہوتے ہیں تو معمولی حد تک، اب تھوڑی بہت معلومات کی بنا پر آپ کسی بھی موضوع پر بات کرنا چاہیں تو سیر حاصل گفتگو ہرگز نہیں ہوسکے گی اور اگر اتفاق سے مذہبی و اسلامی واقعات زیر بحث آجائیں تب وہی حال ہوگا کہ نیم حکیم خطرہ جاں اور نیم ملا خطرہ ایماں۔ ہمارے ملک میں نیم ملا جگہ جگہ بلکہ قدم قدم پر نظر آئیں گے جو اسلام کی حقیقی روح سے بالکل بھی واقف نہیں، بلکہ اپنی جاہلانہ طرز ادا کی بنا پر بے شمار لوگوں کو گمراہ کرنے کا بھی سبب بنتے ہیں۔ بہرحال علم کوئی بھی ہو اسے حاصل کرنے کے بے شمار فوائد ہیں۔

کتابوں کی الٹ پلٹ میں ہمیں ادب کی بڑی شخصیت احمد ہمدانی کی کتاب مل گئی، ان کی زیادہ کتابیں تو ہمارے پاس نہیں ہیں سوائے دو شعری مجموعوں کے جو انھوں نے خلوص کے ساتھ دیے تھے۔ دوسری کتاب تلاش کے بعد بھی ہاتھ نہ آئی۔ احمد ہمدانی کا شعری مجموعہ’’پیاسی زمین‘‘ کے ابتدائی صفحات اور آخری صفحے میں ان کی شائع شدہ کتابوں کی فہرست دیکھی تو وہ بھی ہمیں نہیں ملی۔ اس ضمن میں ایک بات کہتے چلیں کہ بے شمار کتابیں ایسی شائع ہوتی ہیں جنھیں دیکھ کر پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ افسانوی مجموعہ ہے یا ناول، تنقید، ترجمہ یا سفر نامہ ہے چونکہ اس کے ٹائٹل پر پبلشر صنف کے بارے میں لکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، وہ لوگ تو ورق گردانی کرکے اس بات کا اندازہ لگا لیتے ہیں کہ شعروادب کی کس صنف پر کتاب لکھی گئی ہے، جن کا تھوڑا بہت تعلق بھی ادب سے ہوتا ہے لیکن ایک عام قاری جب اپنی پسندیدہ صنف کی کتاب خریدنا چاہتا ہے، تب اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مجبوراً اسے دکاندار کی مدد کی ضرورت پیش آتی ہے۔

بے حد مشہور کتابوں کی خریداری میں کسی قسم کا مسئلہ نہیں ہوتا لیکن مشہور کتابیں کتنی ہیں؟ جنھیں شہرت دوام حاصل ہے۔ دوسری کتب کے ساتھ دوسرے قسم کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ مصنفین ایک غلطی اور بھی کرتے ہیں کہ اپنے کوائف اور کتابوں کی تعداد، ان کے نام بھی درج کرنا ضروری خیال نہیں کرتے ہیں۔ بہرحال احمد ہمدانی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، اہل علم وادب ان کی تخلیقی صلاحیتوں، شعری کاوشوں اور تنقیدی بصیرت سے اچھی طرح واقف ہیں، ادبی لحاظ سے احمد ہمدانی کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے، آج کل لکھنے پڑھنے کا کام ذرا کم ہی کر رہے ہیں البتہ عبادت الٰہی میں مشغول ہیں۔ لوگوں سے ملتے جلتے بھی ہیں اور ادبی مباحث میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ احمد ہمدانی غزل کے شاعر ہیں۔ ’’سچا شاعر‘‘ کے عنوان سے احسن فاروقی کا بھی مضمون شامل ہے۔ احسن فاروقی فرماتے ہیں کہ احمد ہمدانی شاعری اور غزل گوئی کی ذمے داری کا احساس رکھتے ہیں اور اگر ان کی فکر اسی طرح ارتقاء کرتی رہی تو وہ ضرور ان شاعروں کے دائرے میں آجائیں گے جو محرم درون سے مہ خانہ ہیں، ان کے اشعار میں ایک ندرت بیان نظر آتی ہے جو ان کے منفرد مزاج سے تعلق رکھتی ہے۔

نثر کی ایک بہت اچھی کتاب میرے مطالعے میں رہی عنوان ہے ’’تیری آنکھوں کے ساتھ ۔۔۔۔ میں‘‘ مذکورہ کتاب کی مصنفہ عذرا اصفر ہیں جو افسانہ و ناول نگار بھی ہیں، یہ کتاب نہ افسانوں پر مشتمل ہے اور نہ ناول یا سفرنامے کے رنگ میں رنگی ہوئی، بلکہ یہ دلنشیں یادوں، لازوال محبت بھرے جذبات اور رفاقت کے کبھی نہ ختم ہونے والے دکھ سے مرصع ہے۔ عذرا اصفر نے اپنے محبوب شوہر سید اصفر مہدی کی یادوں کے چراغ روشن کیے اور ماضی کی انمٹ و حسین یادوں کو تازہ کیا ہے لیکن روٹھنے والی ہستی کے بارے میں لکھنا ایسا ہی ہے کہ جیسے اپنے دل کو لہو کرنا اور قبرستان کی ویرانی کو اپنے اندر سمیٹ لینا۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ’’تیری آنکھوں کے ساتھ ۔۔۔۔ میں‘‘ یہ کتاب خطوط پر مشتمل ہے۔ یورپ، امریکا، انڈونیشیا سے لکھے گئے وہ خطوط جو اب عذرا اصفر کی یادوں میں شامل ہوچکے ہیں۔

’’درد کا چاند‘‘ اجمل اعجاز کے ڈراموں کا تیسرا مجموعہ ہے، اس کتاب سے قبل اجمل اعجاز کی چار کتابیں شائع ہوچکی ہیں دو افسانوں کی کتابیں اور تین کتابیں ڈراموں پر مشتمل ہیں جب کہ ایک ’’اصلی خزانہ‘‘ کے عنوان سے بچوں کے ناول بھی 1991 میں لکھا جوکہ حیدر آباد سے اشاعت کے مرحلے سے گزرا ہے۔ بنیادی طور پر اجمل اعجاز افسانے کے آدمی ہیں لیکن ڈرامے بھی لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں، کتاب میں ایک مضمون نورالہدیٰ سید کا بھی شامل ہے وہ لکھتے ہیں ’’درد کا چاند‘‘ اجمل اعجاز کے یک بابی ڈراموں کا تیسرا مجموعہ ہے۔ یک بابی ڈراموں کی تعریف انھوں نے پروفیسر وقار عظیم کے حوالے سے اس طرح لکھی ہے ’’یک بابی ڈرامے کی اولین فنی خصوصیات اعلیٰ درجے کی وحدت اور کفایت ہیں‘‘۔ کتاب میں ایسے سات ڈرامے شامل ہیں اور ساتوں ہی ڈرامے ہمارے معاشرے کے المیے، ناانصافی، اقربا پروری کے بہترین عکاس ہیں۔ ’’درد کا چاند‘‘ ، ’’تماشا میرے آگے‘‘، ’’روشنی اور راستہ‘‘ بہترین مثال ہیں، ان ڈراموں میں گاؤں کا ماحول، چوہدریوں کی شاطرانہ چالیں اور شہر کے مسائل کو بھی بیان کیا گیا ہے بے حد دلنشیں انداز میں، سادہ سلیس اور رواں تحریر ہے۔ کہیں ابہام نظر نہیں آتا ہے، آغاز و انجام اور مقالموں کے اعتبار سے بھی یہ قابل ذکر ڈرامے ہیں جوکہ نشر ہوچکے ہیں۔ یقیناً ریڈیو کے سامع کو یہ ڈرامے ضرور یاد رہے ہوں گے۔

’’اشک سوزاں‘‘ اس شعری مجموعے کے خالق یوسف راہی چاٹگامی ہیں، بہت اہم ترین اور پاکستان کے لیے باعث فخر شخصیت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ علی حیدر ملک، کاوش، عمر، صبا اکرام، شفیق احمد شفیق، ابن عظیم فاطمی کی آرا سے آراستہ ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس طرح رائے دی ہے کہ ’’راہی صاحب نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز مشرقی پاکستان میں کیا وہیں غزلیات بھی لکھیں۔ سیلاب کے متاثرین کے جذبات کی عکاسی بہت اچھے انداز میں کی ہے‘‘۔ پروفیسر علی حیدر ملک نے ان کا تعارف کچھ اس انداز میں کرایا ہے کہ ’’یوسف راہی چاٹگامی شاعر بھی ہیں اور صحافی بھی ان کی شاعری کی عمر کم وبیش چالیس سال ہے، ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’اشک سوزاں‘‘ کے نام سے آرہا ہے جو صرف غزلوں پر مشتمل ہے۔ ان غزلوں میں ہجر کے مصائب اور ہجرت کے مسائل دردمندی کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، انھوں نے اپنے ایک استاد کاوش عمر سے شاعر اور عقیدت مند ہونے کے ناتے خوب خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ شفیق احمد شفیق کے مطابق یوسف راہی چاٹگامی بنیادی طور پر تیسری قسم کے رنج و غم کے سبب ٹوٹ پھوٹ اور بکھراؤ کا شکار ہوئے، سقوط پاکستان اور بنگلہ دیش کے خونی اثرات ان پر شدید طور پر مرتب ہوئے ہیں۔ یوسف چاٹگامی شاعری کے توسط سے وہی کر رہے ہیں جو ایک حقیقت پسند افسانہ نگار، ناول نویس اور ڈرامہ نگار کرتا ہے۔ گویا وہ سماجی و معاشرتی مناظر کی تصویر لفظوں سے بنا رہے ہیں۔

’’ایک حقیقت ایک افسانہ‘‘ کتاب کے مصنف واحد نظامی ہیں، جیساکہ اس کتاب کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ تحریریں حقیقت اور فسانے پر مشتمل ہیں، ویسے افسانہ جھوٹ اور سچ کے خمیر سے گوندھا جاتا ہے بنیاد سچ پر ہے تو تعمیر میں کچھ کھوٹ شامل ہے بہرحال ’’صحرا میں پھول‘‘، ’’اندھیرا‘‘ انکشاف جیسی کہانیاں جو سچ کی آمیزش سے پایہ تکمیل کو پہنچی ہیں، واحد نظامی نے اپنی تحریروں کے ذریعے سماج کے ظلم و ستم، دکھ، سکھ اور منصفانہ و غیرمنصفانہ رویوں کی تصویر کشی پر تاثیر انداز میں کی ہے۔ مشاہیر ادب میں کئی نام ہیں، جیسے صبا اکرام، شاعر صدیقی، ڈاکٹر مشرف احمد اور ڈاکٹر آصف فرخی وغیرہ ان اہل قلم کے تاثرات شامل کتاب ہیں۔ ان تخلیق کاروں نے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے اور ان کے فن کو سراہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔