وفاقی کابینہ کے فیصلے

ایڈیٹوریل  ہفتہ 21 ستمبر 2013
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں انسداد دہشت گردی کا ترمیمی بل بھی منظور کیا گیا. فوٹو: فائل

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں انسداد دہشت گردی کا ترمیمی بل بھی منظور کیا گیا. فوٹو: فائل

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیرصدارت اسلام آباد میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس نے کراچی میں رینجرز کو اختیارات دے دیے ہیں کہ وہ وارننگ دے کر دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کو گولی مار دے۔ ادھر انسداد دہشت گردی کا ترمیمی بل منظور کر لیا گیا ہے۔ بل میں دہشت گردوں کو فوری کیفرکردار تک پہنچانے سمیت گواہوں او راسیکیوٹرز کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی سفارشات شامل کی گئیں۔ مجوزہ ترامیم کی کابینہ سے منظوری کے بعد اسے پارلیمنٹ سے قانونی شکل دلوائی جائے گی۔

انسداد دہشت گردی ترمیم بل کی منظوری انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اب حکومت کو چاہیے کہ وہ اسے جلد ازجلد پارلیمنٹ میں پیش کر کے منظور کرائے تاکہ یہ قانون بن سکے اور اس پر عملدرآمد کا آغاز ہو سکے۔ دہشت گردوں کو عدالتوں سے سزا دلوانے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے۔ انسداد دہشت گردی ترمیمی بل میں تحقیقاتی اداروں کو ریلیف دیا گیا ہے۔ وہ اب کسی ملزم کو 30 روز کے بجائے 90 روز تک زیرحراست رکھ سکیں گے۔ اس طرح تفتیشی ادارے آسانی سے تحقیقاتی عمل مکمل کر سکتے ہیں۔ زیرتفتیش ملزم سے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم پوچھ گچھ کرے گی جو مسلح افواج‘ سول فورسز‘ خفیہ اداروں اور ایس پی سطح کے پولیس افسروں پر مشتمل ہو گی۔ یوں یہ ایک اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی ٹیم ہو گی جو دہشت گردی میں ملوث ملزموں سے تفتیش کرے گی۔ یہ مشترکہ ٹیم ملزم یا ملزموں کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے 30 روز کے اندر اندر مقدمہ ٹرائیل کورٹ میں پیش کرنے کی پابند ہو گی۔

مجوزہ ایکٹ کے تحت اب سیکیورٹی فورسز اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی گواہی بھی قابل قبول ہو گی اور جو اہلکار کسی دہشت گرد کو گرفتار کرے گا وہی گواہی کے لیے عدالت میں پیش ہو گا۔ یہ ایک بہت اچھا فیصلہ ہے اس سے قبل دہشت گردی کے مقدمات میں سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی گواہی کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ مجوزہ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں دہشت گردی کے مقدمات میں سرکاری وکلاء اور گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ گواہوں اور پراسیکیوٹرز کے لیے حفاظتی اسکرین نصب کی جائے گی۔ اس سے گواہوں میں حوصلہ پیدا ہو گا۔ تمام ججز کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے گی اور دہشت گردی کا مقدمہ جیل میں ویڈیو لنک کے ذریعے بھی چلایا جائے گا اور انسداد دہشت گردی کی عدالتیں 30 روز میں فیصلہ کریں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے غیرمعمولی حالات سے گزر رہا ہے۔

وطن عزیز کے سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں‘ خفیہ ایجنسیوں اور عدالتوں کو پہلے اس قسم کے حالات اور مقدمات کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا‘ ان غیرمعمولی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ قوانین میں مناسب ترامیم کی جائیں تاکہ دہشت گردی میں ملوث ملزمان سزا سے نہ بچ سکیں۔ پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کے پاس موبائل فون موجود ہوتے ہیں حالانکہ قانونی طور پر انھیں اس کا حق نہیں ہوتا۔ مجوزہ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں صوبائی حکومتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ جیل قیدیوں کو موبائل فون کی سہولت نہ مل سکے۔ پاکستان میں یہ عام تاثر موجود ہے کہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ملزموں کو سزائیں نہیں ملتیں۔ اکثر ملزمان عدالتوں سے رہا ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے عدلیہ کا مؤقف یہ بھی تھا کہ اصل کام تفتیشی اداروں کا ہوتا ہے کہ وہ صحیح اور شکوک وشبہات سے پاک مقدمہ عدالتوں کے سامنے پیش کریں۔

اس کے بعد گواہ اپنا فرض ادا کریں تب ہی عدالتیں کسی ملزم کو اس کے جرم کے مطابق سزا دے سکتی ہیں۔ عدلیہ کا یہ مؤقف بالکل جائز ہے۔ مجوزہ ترمیمی بل میں جو سفارشات شامل کی گئی ہیں، اس سے دہشت گردی کے ملزمان کو سزائیں دلوانا ممکن ہو جائے گا۔ اس وقت سب سے بڑا کام کراچی میں امن قائم کرنا ہے اور وہاں گرفتار ہونے والے افراد کو سزائیں دلوانا ہے۔ وفاقی کابینہ نے رینجرز کو جو اختیارات دیے ہیں، کراچی کے موجودہ حالات کے تناظر میں ایسا کرنا ضروری نظرا ٓتا ہے۔ گو اس پر اعتراضات کی گنجائش موجود ہے مگر ہنگامی حالات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بعض اوقات سخت فیصلے کرنا ضروری ہو جاتے ہیں۔ ہفتے کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ کراچی سمیت ملک بھر میں ہر قیمت پر امن قائم کیا جائے گا۔ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔

یہ کسی جماعت کے نہیں جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہے جب کہ وزیراعظم نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ کراچی میں امن وامان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے سندھ حکومت سے ہر ممکن تعاون کیا جائے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا کہ کراچی میں جاری آپریشن کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں، خوش آئند ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم کراچی میں جاری آپریشن کے نتائج سے خاصی حد تک مطمئن نظر آتے ہیں۔ادھر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی بد امنی کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کراچی میں تینتیس ہزار چھ سو پینسٹھ مفرور ملزمان کی گرفتاری اور ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ملیشیا طرز کا آپریشن کیا جائے۔ انھوں نے آبزرویشن دی کہ کراچی کے گلی محلوں میں تینتیس ہزار چھ سو پینسٹھ اشتہاری اور مفرور اور پندرہ سو دہشت گرد قرار دیے جانے والے ملزمان کا آزادانہ گھومنا الارمنگ صورت حال ہے۔

اتنی بڑی تعداد میں اشتہاری ملزمان کے شہر میں ہونے اور پولیس کے دہشت زدہ ہونے سے امن کیسے ممکن ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے یہ ریمارکس اربابِ اختیار کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں۔ ان ریمارکس کو سامنے رکھا جائے تو وفاقی کابینہ نے رینجرز کو اختیارات دیے ہیں، وہ غیرمناسب نظر نہیں آتے۔ کراچی میں جتنی بڑی تعداد میں جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گرد سرگرم عمل ہیں، اس صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ رینجرز کو وسیع اختیارات دیے جائیں تاکہ وہ ایمرجنسی صورت حال میں قانونی کارروائی کرنے کے مجاز ہوں۔ وفاقی حکومت اور عدالت عظمیٰ جس طریقے سے اپنے اپنے آئینی دائرہ کار میں اقدامات اور فیصلے کر رہے ہیں، وہ اندھیرے میں روشنی کی طرح ہیں۔ اگر حکومت اور اس کے ادارے تندہی اور جاں فشانی سے کام کرتے رہیں تو وطن عزیز کو دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنا زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔