ڈایانا ۔۔۔۔۔۔ سلور اسکرین کو گولڈ اسکرین میں بدل دے گی؟

غلام محی الدین  اتوار 22 ستمبر 2013
ڈایانا کا کردار ادا کر کے میں نے اپنے لیے خطرہ مول لیا تھا، اداکارہ ناؤمی واٹس  فوٹو : فائل

ڈایانا کا کردار ادا کر کے میں نے اپنے لیے خطرہ مول لیا تھا، اداکارہ ناؤمی واٹس فوٹو : فائل

اسلام آ باد:  شہزادی ڈایانا کی وفات کے سولہ برس بعد بننے والی انگریزی فلم’’ڈایانا‘‘ کا پوری دنیا کو انتظار تھا، جو 20 ستمبر کودنیا کے مختلف ممالک میں ریلیز ہوچکی ہے۔

پانچ ستمبر کی شام اس فلم کا افتتاحی شو برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ہوا تھا، جہاں ڈایانا کا مرکزی کردار اداکرنے والی اداکارہ ناؤمی واٹس بھی موجود تھیں۔ دو بار آسکر ایوارڈز کے لئے نامزد  اداکارہ ناؤمی واٹس نے اس موقع پر یہ اعتراف کیا تھا’’ ڈایانا کا کردار ادا کر کے میں نے اپنے لیے خطرہ مول لیا تھا‘‘۔ پھر برطانوی اخبار سن سے گفتگو میں اداکارہ نے کہا ’’مجھے خوف ہے کہ لوگ فلم میں میرے کردار کے حوالے سے نہ جانے کس قسم کے ردعمل اظہار کریں ؟

ایک ایسی شہزادی کا کردار ادا کرنا میرے لیے انتہائی مشکل تھا جس کی شخصیت کے سحر میں لوگ آج بھی مبتلا ہیں، وہ دنیا سے جانے کے بعد بھی ہماری یادوں میں زندہ ہیں، ہمیں ان کا احترام کرنا چاہیے، فلم ڈایانا میں کام کرنا میرے لیے ایک چیلنج تھا لیکن میں نے یہ مشکل فیصلہ اس لیے بھی کیا کہ تاریخ کی ہر دل عزیز شہزادی کی کہانی کو پوری سچائی کے ساتھ پیش کرنے میں میرا کام سامنے آسکے۔‘‘ فلم ریلیز ہونے سے پہلے ہی ڈایانا کے مرکزی کردار کے لیے اداکارہ ناؤمی واٹس کے انتخاب پر بحث جاری ہو چکی تھی کہ دونوں خواتین کے خدوخال میں کوئی مشابہت بھی ہے یا نہیں ؟ کیا محض میک اَپ کے ذریعے مشابہت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے؟ ٹریلر دیکھ کر البتہ ناقدین نے چوالیس سالہ ناؤمی واٹس کی اداکاری کو ضرور سراہا تھا۔

سینما میں فلم دیکھنے والوں کے مطابق ’’ پریوں جیسے لازوال حسن کی مالک شہزادی ڈایانا کے روزوشب ایک فلمی کہانی کی طرح ہی تو تھے، جس میں محبت، محرومی، حسد ، دھوکا اور مختلف تنازعات سب کچھ ہی شامل تھا ۔ لیڈی ڈایانا کا شمار ان چند گنی چْنی شخصیات میں ہوتا ہے جو دنیا سے گزر گئیں مگر ان کے چرچے ختم نہیں ہوئے اور نہ ہی ان کی مقبولیت میں کوئی کمی آئی ہے‘‘ ۔

یاد رہے 1997ء میں شہزادی پیرس شہر میں ایک پراسرار کار حادثے میں ہلاک ہو گئی تھیں، جس کے بعد نہ ختم ہونے والی قیاس آرائیوں اور اندازوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ، وہ ابھی تک نہیں رکا۔ حقیقت کیا تھی یہ اب تک کوئی نہیں جان پایا۔ پاکستان میں بھی اس فلم کو ایک نجی ادارے نے ریلیز کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ پبلسٹی فرم ’’ انسائیکلومیڈیا ‘‘ کے مطابق فلم میں ڈایانا کی زندگی کے آخری دو سالوں اور پاکستانی نژاد ہارٹ سرجن حسنات خان سے شہزادی کی محبت کو موضوع بنایا گیا ہے۔

فلم کے حوالے سے پاکستانی کرکٹر اور سیاست دان عمران خان کی سابقہ بیوی اور مرحومہ ڈایانا کی قریبی دوست جمائما خان نے کہا تھا ’’ڈایانا ڈاکٹر حسنات سے دیوانوں کی طرح محبت کرتی تھی ‘‘۔ ڈایانا کی ایک اور دوست روزا مونک ٹن کے مطابق’’ ڈایانا مجھ سے اپنے دوست ڈوڈی الفائد سے زیادہ ڈاکٹر حسنات کی باتیں کرتی تھی، شاید اس نے الفائد سے دوستی بھی اسی لئے کی تھی کہ وہ ڈاکٹر حسنات کو حسد میں مبتلا کرنا چاہتی تھی، ڈاکٹر حسنات سے غیرمعمولی محبت کی بڑی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ڈاکٹر حسنات، ڈایانا کی زندگی میں آنے والا وہ واحد مرد تھا، جس نے ان سے بے وفائی نہیں کی تھی‘‘۔ شہزادی ڈایانا کے بہت سے دوستوں کے مطابق ڈایانا کو حسنات سے حقیقی محبت تھی اور وہ اسے ’’مسٹر ونڈرفل‘‘ کہا کرتی تھی۔

فلم ریلیز ہونے سے قبل ایک اخباری رپورٹ میں ڈاکٹر حسنات نے مذکورہ فلم پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ’’ فلم میں ہماری دوستی اور حقائق کو غلط رنگ میں پیش کیا گیا ہے، ڈایانا اور میں صرف اچھے دوست تھے‘‘۔ انھوں نے خاتون صحافی کیٹ سنیل کے ساتھ بھی بات نہیں کی، جن کی کتاب ’’ڈایانا۔ اْس کی آخری محبت‘‘ پر یہ فلم بنائی گئی ہے۔ ایک برطانوی اخبار کے مطابق پاکستانی ڈاکٹر حسنات خان نے حال ہی میں اس امر کو ہدفِ تنقید بنایا تھا کہ فلم کی کہانی جس کتاب پر مبنی ہے، وہ دراصل ڈایانا کی سہیلیوں کی پھیلائی ہوئی افواہوں اور خوش گپیوں پر مشتمل ہے ، وہ اس فلم کو دیکھنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے‘‘۔ حسنات خان فلم ریلیز ہونے کے بعد ابھی تک اس تعلق کے حوالے سے خاموش ہیں۔ فلم میں حسنات خان کا کردار اداکار نیوین اینڈریوز نے ادا کیا ہے۔ اداکار سے جب پوچھا گیا کہ کیا ڈایانا کے بیٹے شہزادہ ولیم اور ہیری ناراض تو نہیں ہوں گے؟ تو انہون نے کہا ’’مجھے امید ہے کہ اگر وہ یہ فلم دیکھیں گے تو وہ محسوس کریں گے کہ ہم نے سب کچھ انتہائی احترام سے دکھایا ہے۔ ہم نے ممکنہ اور بہترین انداز میں ان کے کردار کی عکاسی کی ہے‘‘۔

فلم میں ڈایانا کی بے پناہ مقبولیت کے ذکر کو بھی محض ضمنی طور پر پیش کیا گیا جب کہ اْن کی فلاحی سرگرمیاں بھی اْن کی داستانِ محبت میں دھندلا گئیں۔ جرمن ہدایت کار اولیور ہِرش بیگل کے مطابق اْنہوں نے محبت کی اس شاندار کہانی کو نمایاں کرنے کے لیے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے ۔ یاد رہے برطانوی شا ہی خاندان کے حوالے سے عوام کی دلچسپی تو ڈایانا کی زندگی میں بھی تھی لیکن شہزادی کی موت کے بعد یہ دلچسپی اب کئی گنا بڑھ چکی ہے مگرکسی کو بھی اس بات سے دل چسپی نہیں کہ فلم میں پیش کردہ کہانی حقائق سے کس حد تک مطابقت رکھتی ہے یا نہیں۔

فلم کے جرمن ہدایت کار اولیور ہرش بیگل کے مطابق اْن کے لیے یہ بات فائدہ مند رہی کہ اْن کا تعلق برطانیہ سے نہیں ، جرمنی سے ہے ، اْن کے بقول ’’میں نے ایک ایسی فلم بنانے کی کوشش کی جو حقائق پر مبنی ہے اور ایمان دارانہ بھی‘‘۔ جب کہ فلم ساز رابرٹ برنسٹائن نے فلم سے متعلق اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس فلم کو بنانے کا مقصد سنسانی پھیلانا ہر گز نہیں تھا ، پردہ اسکرین پر آپ کو ایک خاتون کی ناکام محبت کی کہانی نظر آئے گی جو انتشار کا شکار ہے۔ فلم ڈایانا کی کہانی میں شہزادہ چارلس سے طلاق لینے کے بعد کے واقعات کو شامل کیا گیا ہے جس کا اختتام ان کی کار ایکسیڈنٹ اور المناک موت پر ہوتا ہے۔ فلم میں شہزادی ڈایانا کو ولیم اور ہیری کی محبت کرنے والی ماں کے روپ میں پیش کیا گیا ہے تو دوسری طرف ان کی زندگی کے اتار چڑھاو اور جذباتی کش مکش کو بھی فلم کا موضوع بنایا گیا ہے۔

فلم میں شہزادی ڈایانا کے قریبی دوستوں مصری رئیس زادے ڈودی الفائد اور پاکستانی نژاد برطانوی ڈاکٹر حسنات خان کے ساتھ پائے جانے والے گہرے مراسم کے حوالے سے کہانی کا تانا بانا بنا گیا ہے۔ اسی طرح شہزادی ڈایانا کی فلاحی تنظیموں کے ساتھ وابستگی اور خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک کے لیے ان کی خدمات کو بھی کہانی کا حصہ بنایا گیا ہے۔

برطانوی شاہی خاندان کی جانب سے فوری طور پر فلم کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا، تاہم فلم کے پروڈیوسر رابرٹ برینسٹائن نے دعویٰ کیا ہے کہ شاہی خاندان نے انھیں فلم کے کچھ حصوں کی شوٹنگ کینسنگٹن گارڈن میں کرنے کی اجازت دی تھی، جہاں ڈایانا جاگنگ کے لیے جایا کرتی تھیں۔ فلم دیکھنے والے عالمی تنقید نگاروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ واٹس کی ڈایانا سے مشابہت انتہائی کم رہی۔ فلم کی شوٹنگ کے لیے اداکارہ کو نقلی ناک لگانا پڑی، جو کئی بار نقلی محسوس ہوئی۔

شہزادی ڈایانا کی موت کا معما
فلم ریلیز ہونے سے چند دن پہلے لندن پولیس نے کہا تھا کہ شہزادی ڈایانا کی موت کے بارے میں موصول ہونے والی تازہ معلومات کی صداقت کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ شہزادی ڈایانا اور ان کے ساتھی ڈودی الفائد کی موت کے حوالے سے میٹرو پولیٹن پولیس کو نئی معلومات موصول ہوئی ہیں۔

یہ معلومات ایسے شواہد پر مشتمل ہیں جس میں شہزادی ڈایانا کی موت کو قتل قرار دیا گیا ہے اور اس کا الزام ایک سابقہ برطانوی فوجی پر لگایا گیا ہے۔ میٹر پولیٹن پولیس نے اس خبر کی تصدیق کی کہ پولیس شہزادی ڈایانا کی موت کے بارے میں موصول ہونے والی حالیہ معلومات کی صداقت اور اہمیت کا جائزہ لے رہی ہے، اس معاملے کو پولیس کی اسپیشل کرائم برانچ کے افسران کی نگرانی میں دیکھا جائے گا۔ برطانوی اخبار ’’مرر‘‘ کے حوالے سے شائع ہونے والی اس خبر میں کہا گیا ہے ’’ نئی معلومات میٹرو پولیٹن پولیس تک رائل ملٹری پولیس کے ذریعے پہنچائی گئی ہیں، موجودہ معلومات ایک خط کے ذریعے پولیس تک پہنچائی گئی ہیں، جسے فوج کے ایک خاص ادارے ایس اے ایس کے سابقہ فوجی سارجنٹ ڈیننی نائٹ اینگل نے لکھا ہے رپورٹ میں انھوں نے اپنے سابقہ داماد جس کا غیر قانونی اسلحہ رکھنے پر کورٹ مارشل ہوا تھا ، پر شہزادی ڈایانا کے قتل کا الزام لگایا ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس راز سے انھیں سارجنٹ نائٹ اینگل نے خود آگاہ کیا تھا۔

یاد رہے کہ ،31 اگست 1997 میں شہزادی ڈایانا اور ان کے قریبی ساتھی دودی الفائد پیرس میں اس وقت کار حادثے کا شکار ہو ئے جب درجنوں فوٹو گرافر نے ان کی کار کا تعاقب کر رہے تھے۔ میٹرو پولیٹن پولیس نے اپنے بیان میں کہا کہ پولیس ماضی میں شہزادی ڈایانا کی موت کے حوالے سے مکمل تحقیقات کر چکی ہے۔ جس پر برطانوی عدالت فیصلہ بھی سنا چکی لہذا پولیس کی موجودہ انکوائری کسی تحقیقاتی عمل کا حصہ نہیں اور نہ ہی پولیس اس کیس کو دوبارہ کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

یاد رہے کہ ، رائل کورٹ آف جسٹس میں 1997 شہزادی ڈایانا اور دودی الفائد کی موت کی تحقیقات کے سلسلے میں 90 روز تک شنوائی کی گئی تھی جس میں250 گواہان پیش ہوئے تھے۔ تاہم تقریباً دس برس کے عرصے کے بعد اپریل 2008 میں جیوری نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ لوگوں کی شہزادی اور ان کے ساتھی ڈودی الفائد کی موت قانون کی خلاف ورزی کے نتیجے میں ہوئی تھی ، دونوں نے حادثے کے وقت حفاظتی بیلٹ بھی نہیں باندھی ہوئی تھیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ڈودی الفائد کے ڈرائیور ہنری پال کی لاپرواہی سے کار حادثے کا شکار ہوئی جو نشے کی حالت میں گاڑی چلا رہا تھا اور اس واقعے کے ذمہ داروں میں خفیہ فوٹو گرافرز بھی شامل ہیں جو گاڑی کا پیچھا کر رہے تھے۔

اس مقدمے کے اختتام پر میٹرو پولیٹن پولیس کی جانب سے کہا گیا تھا کہ پولیس نے شہزادی کے موت کی تحقیقاتی عمل پر تقریبا 8 ملین پاؤنڈ خرچ کیے۔ مصری رئیس زادے ڈودی الفائد کی موت کو ان کے والد حمد الفائد کی جانب سے قتل قرار دینے کے الزام پر میٹرو پولیٹن پولیس نے2004 میں سابقہ میٹ پولیس کمشنر لارڈ اسٹیوین کی زیر نگرانی’’ پے جیٹ آپریشن‘‘ کا آغاز کیا تھا۔ اس اسپیشل کمیشن نے 2006 میں تحقیقات مکمل کرتے ہوئے رپورٹ جاری کی تھی جس میں کار حادثے کو قتل قرار دیئے جانے سے متعلق تمام افواہوں کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

شہزادی ڈایانا اور شہزادہ چارلس 1981 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے اس وقت شہزادی ڈایانا کی عمر بیس سال تھی۔ شہزادی ڈایانا شادی کے اگلے برس شہزادہ ولیم کی ماں بنیں اور پھر دوسرے برس ان کے ہاں شہزادہ ہیری پیدا ہوئے تاہم اس دوران شہزادہ چارلس اور ان کے درمیان اختلافات کی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہیں۔ 1993 میں شاہی جوڑے نے علیحدگی اختیار کرلی اور بالآخر 1996 میں دونوں کی شادی باقاعدہ طور پر ختم ہو گئی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔