قصوروار صرف عورت کیوں؟

رئیس فاطمہ  ہفتہ 21 ستمبر 2013

بڑے بڑے دعوؤں اور نام نہاد نمائشی رویوں کے باوجود کیا ہم یہ تسلیم کر سکتے ہیں کہ ’’ہم انسان ہیں؟‘‘ انسان میں انسانیت ہوتی ہے۔ آدمی صرف اس لیے کہلائے جاتے ہیں کہ آدم کی اولاد ہیں۔ معاشرتی جانور بھی نہیں کہہ سکتے کہ جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے۔

لاہور میں جو کچھ ایک معصوم ننھی سی بچی کے ساتھ ہوا آپ اسے کیا کہیں گے؟ جنسی درندگی، دیوانگی، پاگل پن، یا ان سے بھی بڑھ کر کوئی اور لفظ ہے آپ کے پاس؟ یہ انتہائی تکلیف دہ اور دل دہلا دینے والا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ کئی چھوٹی چھوٹی بچیوں اور لڑکوں کے ساتھ بار بار یہ کریہہ اور ناقابل تلافی و معافی کھیل کھیلا گیا ہے۔ کئی پکڑے بھی گئے۔ لیکن کیا کسی کو سزا ہوئی؟ بات اس ننھی سی بچی سے شروع ہوئی تھی جس کے مجرم اب تک گرفتار نہیں ہوئے، اسپتال کے احاطے میں لگے کیمروں نے کچھ خفیہ اشارے دیے ہیں۔ جنھیں مختلف چینلز نے تجزیہ کر کے دکھا دیا۔ یہ ایک نیکی ہے اس میڈیا کی جو مسلسل دباؤ میں رہتا ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ اپنا حصہ ڈال ہی دیتا ہے۔ جس حد تک اسے اختیار ہے۔ کیا وہ بچی صحت یاب ہو کر اپنے آپ سے اور دنیا سے آنکھیں ملا سکے گی؟ ہمارا معاشرہ بڑا ظالم ہے، مرد ہزار جرم کر لے کوئی قصور وار نہیں ٹھہراتا۔ لیکن عورتوں کا ناکردہ گناہ بھی ان کی سنگساری کا سبب بن جاتا ہے۔ میں یہ سوچ کر لرز جاتی ہوں کہ وہ بچی کس طرح اس درندگی کی دہشت سے باہر آ سکے گی؟ ابتدائی عمر میں ذہن پر پڑنے والے منفی واقعات اکثر ساری عمر کے لیے دماغ سے چمٹ جاتے ہیں۔

اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ اس قسم کے واقعات کی بنیادی وجہ خواتین کا ایسے لباس میں باہر نکلنا ہے جو معیوب ہوتا ہے۔۔۔۔ چلیے مان لیا کہ یہ درست ہے۔ میں بھی اس سے مکمل طور پر متفق ہوں۔ دوپٹہ غائب کرایا۔ پھر آستینوں کی شامت آئی۔ جینز اور ٹی شرٹ اب عام ہے۔ پراڈکٹ بیچنے اور ریموٹ کا بٹن نہ دبانے کے لیے ایسے ہی ’’نسخے‘‘ کارآمد ہوتے ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا ایک بہت طاقتور میڈیا ہے۔ جب بغیر دوپٹے، بغیر آستین کی قمیص اور جینز و ٹی شرٹ کے جلوے عام ہوئے تو بازاروں میں، شاپنگ سینٹروں میں اور دیگر مقامات پر ان کی نمائش عام ہو گئی۔ لیکن کوئی مجھے یہ بتائے کہ اس بچی کا ان باتوں سے کیا تعلق تھا۔ پانچ سال کی بچی جو ہر ایک کو صرف ’’انکل‘‘ یا ’’آنٹی‘‘ کہنا جانتی ہو، وہ کون سی جوان لڑکی تھی اور ناشائستہ لباس پہنا تھا؟

پچھلے سال 16 دسمبر کو دلی میں ہونے والے گینگ ریپ میں جو ایک پبلک مقام پر ہوا تھا، اس میں بھی لوگوں نے یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ وہ لڑکی جو اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ تھی مختصر لباس میں تھی۔ اسی طرح اس سے پہلے بھی وہاں جو ریپ کیسز ہوئے ہیں ان میں بھی اکثریت کا کہنا یہی تھا کہ خواتین کا تنگ اور مختصر لباس ایسی وارداتوں کی وجہ بن رہا ہے۔ لاہور اور کراچی کے بوہری بازار میں بھی بعض ایسے واقعات ہوئے جن میں حملہ کرنے والے مجرموں نے سارا الزام خواتین کے سر یہ کہہ کر ڈال دیا کہ ’’ان کے لباس بہت باریک تھے اس لیے ہم خود پر قابو نہ رکھ سکے‘‘۔

واہ! کیا جواز ہے۔ یعنی ہر طرف سے قصوروار صرف عورت اور سزا وار بھی عورت۔۔۔!! اور مرد یہ سب حدود اور شرافت سے عاری ۔۔۔ گویا یہ وہ آدم خور شیر ہیں جو جب آبادی میں نکلتے ہیں تو جس پر نظر پڑے اسے بھنبھوڑ ڈالیں یا کچا چبا جائیں، انھیں کوئی نہیں روک سکتا، کیونکہ یہ جنگل کے بادشاہ ہیں اور بھیڑ بکریوں پہ حملہ کرنا ان کا حق ہے۔ بھارت میں اس گینگ ریپ کے بعد جس طرح سول سوسائٹی کے لوگوں نے اپنا احتجاج درج کرایا، ان میں سے کئی ایک سے ہماری ملاقات بھی رہی، ان لوگوں نے واقعی زندہ اور باضمیر ہونے کا ثبوت بھی دیا۔ اور جب تک ریپ کے مجرم کو سزائے موت کا قانون پاس نہیں کرا لیا وہ مسلسل دھرنے دیتے رہے۔ آخر کو بھارت سرکار نے قانون میں تبدیلی کی اور اس گینگ ریپ کے مجرموں کو سزائے موت چند دن پہلے ہی سنادی گئی۔ ایک مجرم جو نابالغ تھا اسے عمر قید کی سزا دی گئی۔ اس اندوہناک واقعے کے بعد فوری طور پر دلی سرکار نے تمام بسوں میں سے پردے ہٹوا دیے۔ کیونکہ یہ گینگ ریپ ایسی چلتی بس میں ہوا تھا جس میں چاروں طرف پردے لگے تھے۔ اب یہ صورت حال ہے کہ خواہ شہر کے اندر چلنے والی بسیں ہوں یا دلی سے باہر جانے والی ایئرکنڈیشن لگژری بسیں، سب بس مسافر شیشوں سے اندر آتی تپتی دھوپ میں سفر کرتے ہیں۔

لیکن جالندھر کے بعد یہ قانون لاگو نہیں۔ جالندھر سے آگے جانے والی گاڑیوں میں بدستور پردے لگے رہے۔ یہ بھی اس مسئلے کا حل نہیں تھا کہ اب عام لوگ اس کی زد میں ہیں۔ کسی بھی مجرم کو نابالغ قرار دے کر سزائے موت نہ دینا بھی انصاف کے زمرے میں نہیں آتا۔ خواہ وہ شاہ زیب قتل کیس ہو یا دلی گینگ ریپ کے خطرناک مجرم۔ پھانسی ہی ان کا مقدر ہونی چاہیے۔ جو مجرم نابالغ ہوتے ہوئے بھی خطرناک جرم کا مرتکب ہو سکتا ہے تو اسے سزا بھی ویسی ہی ملنی چاہیے، بلکہ ایسے نابالغ مجرموں کے ساتھ ساتھ اس کے والدین کو بھی سزا ملنی چاہیے کہ ان ہی کی تربیت کی کوتاہی، دولت کی فراوانی اور اولاد کے جرموں پہ پردہ ڈالنے ہی کی وجہ سے نابالغ لڑکے جرائم میں آسانی سے یہ سوچ کر ملوث ہو جاتے ہیں کہ پکڑے بھی گئے تو ’’نابالغ‘‘ ہونے کی وجہ سے چند ماہ یا چند سال کی جیل کاٹ کر باہر آ جائیں گے۔ بعض اوقات رشوت دے کر بھی ڈاکٹروں سے جھوٹے سرٹیفکیٹ حاصل کر لیے جاتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر اوقات میٹرک کے سرٹیفکیٹ میں بھی ڈنڈی مار دی جاتی ہے۔ لوگ 70 سال کے ہو کے بھی ریٹائر نہیں ہوتے۔ یہ ایک عام مشاہدہ ہے۔

خواتین کو بے شک معقول لباس میں باہر نکلنا چاہیے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ لیکن کیا مردوں کے لیے مذہب اور معاشرے کی طرف سے کوئی پابندی نہیں؟ ان کے لیے بھی ارشاد ہے کہ ’’اپنی نگاہیں نیچی رکھو‘‘۔ لیکن پاک و ہند میں جو تواتر سے آبروریزی کے واقعات ہو رہے ہیں اس کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ اول منشیات کا استعمال، جو خیر سے مرد مومن ضیاء الحق کا ورثہ ہے۔ دوم جذباتی محرومیاں اور سوم مخرب الاخلاق بے ہودہ فلمیں۔ پولیس کی سر پرستی میں نشہ آور اشیا بکتی ہیں۔ غیر اخلاقی اور غلیظ فلموں کا کاروبار جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں، چائے خانوں اور گھروں میں ہوتا ہے اور ان فلموں کو دیکھنے والے زیادہ تر یہی محروم اور نشے کے عادی نوجوان ہوتے ہیں، جنھیں پہلے نشے کی پڑیا فراہم کی جاتی ہے، پھر یہ فلمیں دکھائی جاتی ہیں اور پھر انھیں پاگل کتے کی طرح سڑکوں پر کاٹنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

کیا ننھی بچی کے مجرم کبھی پکڑے جائیں گے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ واردات اسپتال ہی میں ہوئی ہو؟ اغوا کرنے والا مجرم تھا یا کسی کا آلہ کار؟ یہ بھی کبھی پتہ نہیں چلے گا۔ کیونکہ ہر واردات کے بعد مجرم فوراً فرار ہو جاتے ہیں یا انھیں فرار کروا دیا جاتا ہے۔ آج تک کون سا مجرم پکڑا گیا ہے۔ ہمارا وطن خواتین کے حوالے سے بہت خطرناک بن چکا ہے۔ یہاں کوئی بھی حوا کی بیٹی محفوظ نہیں ہے، خواہ وہ کسی بھی عمر کی ہو۔ پانچ سال کی ننھی سی ادھ کھلی کلی ہو یا کوئی عمر رسیدہ خاتون، کوئی لکھاری ہو یا کسی پروگرام کی میزبان۔ کسی کو دھمکیاں ملتی ہیں تو کوئی سنگسار کر دی جاتی ہے، کسی کو جرگہ قتل کروا دیتا ہے۔ مجھے بے حد افسوس ہے کہ جب بھی کبھی کسی خاتون کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے تو صرف سول سوسائٹی سے آواز اٹھتی ہے یا میڈیا اپنی ذمے داری بھرپور طریقے سے پوری کرتا ہے۔ لیکن ہمارے علماء اور مذہبی جماعتوں کے وہ رہنما جو اب مسجد کے حجروں کے بجائے کئی کئی ہزار گز کے محلوں میں رہتے ہیں ان کی طرف سے کبھی کوئی آواز نہیں اٹھتی۔ نہ ہی ان کا ’’خواتین ونگ‘‘ جو کالم نگاروں کو گالیاں دینے میں ماہر ہے کبھی ان واقعات کی مذمت کرتا ہے، نہ ہی کوئی احتجاج درج کرواتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔