اگر نیل آرم اسٹرانگ اور بز ایلڈرن واپس نہ آتے تو۔۔۔۔۔۔۔؟

ندیم سبحان میو  جمعرات 15 اگست 2019

20 جولائی 1969ء کو تاریخ انسانی میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا جب انسانی قدموں نے پہلی بار چاند کو چُھوا۔ نیل آرم اسٹرانگ اور بز ایلڈرن چاند پر چہل قدمی کرنے والے اولین انسان تھے۔ دونوں خلانورد اپالو11 نامی خلائی جہاز کے ذریعے چاند پر پہنچے تھے۔ ان کے ہمراہ مائیکل کولن بھی تھے مگر وہ لونر ماڈیول ( lunar module )، جس میں دونوں خلانورد موجود تھے، کے چاند پر اترنے کے بعد کمانڈ ماڈیول کو اڑا کر واپس چاند کے مدار میں چلے گئے تھے۔ اب چاند سے واپسی کے لیے نیل آرم اسٹرانگ اور بز ایلڈرن کو لونر ماڈیول اڑا کر مدار میں موجود کمانڈ ماڈیول تک پہنچنا تھا۔

یہ رچرڈ نکسن کا دور صدارت تھا۔ امریکی صدر نے ٹیلی فون پر اپنے خلابازوں سے بات کی۔ یوں زمین سے خلا میں فون کرنے والے پہلے انسان کا اعزاز رچرڈ نکسن کے حصے میں آیا۔ خلانوردوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ پوری دنیا کو ان پر فخر ہے۔ تاہم ان ہی لمحات میں امریکی صدر ایک اور ٹیلی فون کال کرنے کے لیے بھی تیار تھے۔۔۔۔۔ وہ کال آرم اسٹرانگ اور بزایلڈرن کی ممکنہ بیواؤں کوکی جانی تھی!

اس شب اگرچہ لونر ماڈیول اپنے مخصوص مقام پر جسے Sea of Tranquility کا نام دیا گیا تھا، کامیابی سے اترگیا تھا مگر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ آرم اسٹرانگ اور بزایلڈرن سطح قمر پر چہل قدمی کے بعد چاند کے مدار میں چکر لگاتے کمانڈ ماڈیول تک بہ حفاظت واپس پہنچ پائیں گے، زمین پر واپسی تو دور کی بات تھی۔ واضح رہے کہ آرم اسٹرانگ اور بزایلڈرن کے اترنے کے بعد مائیکل کولن لونر ماڈیول کو اڑا کر واپس مدار میں موجود کمانڈ ماڈیول ’کولمبیا‘ میں چلے گئے تھے۔ چاند پر کسی متوقع جان لیوا حادثے کے امکان کے پیش نظر امریکی صدر تقریر نویس ولیم سیفائر کو اسی مناسبت سے تقریر لکھنے کی ہدایت کرچکے تھے۔

1999ء میں ایک انٹرویو کے دوران ولیم سیفائر نے بیان کیا تھا کہ لونر ماڈیول کو واپس کمانڈ ماڈیول تک لے کر جانا اپالو 11 مشن کا سب سے خطرناک مرحلہ تھا۔ قبل ازیں اپالو 10 مشن کا عملہ لونر ماڈیول کو سطح قمر سے 9 میل کے فاصلے تک لانے میں کام یاب ہوچکا تھا مگر اپالو11 کے عملے کو لونرماڈیول چاند کی سطح سے مدار میں لے جانے کا چیلینج درپیش تھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرپاتے تو پھر چاند کے قیدی بن جاتے، پھر وہ یاتو بھوک سے مرجاتے یا پھر خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتے۔ آرم اسٹرانگ اور بزایلڈرن کی کمانڈ ماڈیول تک پہنچنے میں ناکامی کی صورت میں ناسا ان خلانوردوں سے تمام رابطے منقطع کرلیتا اور امریکی صدر افسردہ لہجے میں دنیا کو بتاتے کہ کیا ہوا تھا۔

تقریر نویس ولیم سیفائر نے اس حادثے کی صورت میں امریکی صدر کو تقریر کے ساتھ ساتھ پوری ہدایات لکھ کر دی تھیں کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ یہ ’ ڈیزاسٹر پلان‘ 30 سال بعد ذرائع ابلاغ کی زینت بنا۔ اس میں رچرڈ نکسن کے لیے یہ ہدایات بھی شامل تھیں کہ پہلے وہ خلانوردوں کی بیواؤں کو ٹیلی فون کریں گے اور بعدازاں قوم سے خطاب میں واضح کریں گے ’’تقدیر کا یہی فیصلہ تھا کہ چاند پر جانے والے ہمیشہ کے لیے وہیں آرام کریں۔ یہ بہادر انسان نیل آرم اسٹرانگ اور ایڈون ایلڈرن جانتے ہیں کہ ان کی واپسی کی کوئی امید نہیں ہے، مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی قربانی سے انسانیت کے لیے امید کی کرن پُھوٹی ہے۔‘‘ سیفائر نے اپنی تقریر میں مزید لکھا تھا،’’اور بھی لوگ اپالو خلانوردوں کی پیروی کریں گے اور کام یابی سے گھر واپس بھی آئیں گے لیکن ایلڈرن اور آرم اسٹرانگ اولین تھے اور ہمیشہ ہمارے دلوں میں ان کا یہی درجہ رہے گا۔‘‘

حادثے کی صورت میں زمین پر دونوں خلانوردوں کی علامتی تدفین بھی کی جانی تھی مگر یہ موقع نہیں آیا۔ کچھ مشکلات کے بعد ایلڈرن اور آرم اسٹرانگ بالآخر قمری مدار میں مائیکل کولن سے جاملے اور بہ حفاظت زمین پر واپس آگئے۔ یوں امریکی صدر سیفائر کی تحریرکردہ تقریر پڑھنے سے بچ گئے، مگر آپ انٹرنیٹ پر یہ تقریر پڑھ سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔