درویش ادب

اصغر عبداللہ  ہفتہ 17 اگست 2019
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

بہت سال پہلے سمن آباد میں پہلے گول چکر کے پاس نسبتاً ایک کشادہ گلی میں لاہور کے ایک ڈائجسٹ کا دفترہوتا تھا۔ بلڈنگ کے اندر داخل ہوتے ہی درمیان میں ایک پتلی سی گلی تھی، جس کے دونوںاطراف چھوٹے بڑے کئی کمرے تھے۔ انھی کمروں میں سے ایک کمرہ جو قدرے تنگ تھا، اس میں آمنے سامنے دو چھوٹی چھوٹی میزیں اور کرسیاں جمی ہوتی تھیں۔

سامنے والی کرسی پریزدانی جالندھری تشریف فرما ہوتے، جب کہ شروع میں دروازے کے ساتھ والی کرسی پر اخترحیات بیٹھتے تھے۔ یزدانی جالندھری اگر سراپا سنجیدگی تھے تو اختر حیات سراپا زندہ دلی۔ دونوں کی میزوں پر ہمہ وقت مختلف النوع تحریروں کے مسودے اور کتابت شدہ مواد کی کاپیوں کا ڈھیر پڑا ہوتا، جن کی ایڈیٹنگ کرتے اور جن کے پروف پڑھتے ان کا سارا دن گزر جاتا۔

میرا دفتر بھی چونکہ سامنے ہی تھا اور اپنے دفترکے سینئر کولیگ مقبول الرحیم مفتی کی معرفت اختر حیات کے ساتھ اچھی خاصی دوستی بھی ہو چکی تھی، لہذا  ان کے دفترمیں بھی ان سے ملنے کے لیے آنا جانا لگا رہتا، لیکن جب کبھی اس کمرے میں جانے کا اتفاق ہوا، ہمیشہ اسے گہری اور اداس خاموشی میں ڈوبا ہوا پایا۔ یزدانی صاحب کو دیکھ کر تو ایسے محسوس ہوتا، جیسے  وہ اپنے اردگرد سے یکسر بے نیاز کسی اور ہی دنیا میں رہتے ہیں، ایک ایسی ان دیکھی دنیا، جو صرف چشم باطن سے دیکھنے والوں ہی پر خود کو منکشف کرتی ہے۔

سہ پہر کو جب میں اور مقبول الرحیم مفتی چائے پینے کے لیے دفتر سے نکلتے تو اکثر اوقات سامنے سے اختر حیات اور یزدانی صاحب بھی ٹہلتے ٹہلتے آ رہے ہوتے۔ یزدانی  صاحب کا قد قدرے لمبا، جب کہ اختر حیات کا قد قدرے چھوٹا تھا۔ اوپر سے بڑھاپے کے باوجود یزدانی صاحب کی کمر میں کوئی جھکاؤ نہیں تھا اور وہ پورے قد کے ساتھ بالکل سیدھے چلتے تھے، چنانچہ اس طرح چلتے چلتے جب اختر حیات ان سے کچھ کہتے تو یزدانی صاحب کو ان کی طرف تھوڑا سا جھکنا پڑتا تھا۔شانگلہ ٹی اسٹال پر چائے کی پیالی میں طوفان اٹھتے، بحث وتکرار ہوتی تو کبھی کبھی ارد گرد کے بنچوں پر بیٹھے لوگ بھی متوجہ ہو جاتے؛ لیکن یزدانی صاحب پر ان طوفانوں کا کوئی اثر نہیں تھا، جیسے پرشور سمندر خاموش ساحلوں سے سر ٹکراکر واپس لوٹ جاتے ہیں۔

کبھی انھوں نے اپنا کوئی نیا یا پرانا شعر سنانے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی، جیسے وہ فراموش ہی کر چکے ہوں کہ وہ شاعر ہیں۔ حقیقتاً اگر اخترحیات ان کے ادبی مقام ومرتبہ سے آگاہ نہ کرتے تو ہمیں اس بارے میں یہ معلوم ہی نہ ہو پاتا۔ کبھی وہ یزدانی صاحب کی موجودگی میں ان کے فلمی دور کا ذکر چھیڑ دیتے تو یزدانی صاحب کے خاموش دریا میں ایک ہلکا سا ارتعاش ضرور پیدا ہوتا، لیکن یہ کیفیت لمحاتی ہوتی تھی، لہرآتی اور گزر جاتی، اور یزدانی صاحب پھرسے  جیسے کہیں کھو جاتے، انھی کا شعر ہے ،

آپ کی یاد یہاں بھی تو چلی آئی ہے

لوگ کہتے ہیں بیابانوں میں تنہائی ہے

سید عبدالرشید یزدانی صاحب کی زندگی کا سفر جولائی 1915میں ضلع جالندھر کے گاؤں میرپور سیداں سے شروع ہوتا ہے۔ ان کی عمر صرف سات سال تھی،جب ان کے والد سید بہاول بسلسلہء تدریس نقل مکانی کرکے منٹگمری ( ساہیوال ) آ گئے۔ اس طرح یہیں ان کے بچپن کا سہانا زمانہ گزرا۔ 1931میں گورنمنٹ ہائی اسکول ساہیوال سے میٹرک کرنے کے بعداسلامیہ کالج لاہور میں پہنچے تو یہاں سید ضمیر جعفری، نسیم حجازی اور میرزا ادیب ان کے کلاس فیلو تھے۔ میرزاادیب کے بقول کالج میں بھی وہ چپ چپ ہی رہتے اور کم ہی کسی کے ساتھ کھلتے تھے۔

یزدانی صاحب کے گھریلو حالات ایسے نہ تھے کہ وہ کالج میں پڑھائی جاری رکھ سکتے۔خاندان کی زندگی کا پہیہ چلانے کے لے ان کو فوری طور پر کوئی نہ کوئی ملازمت درکار تھی۔کساد بازاری کے اس عہد میں روزگار سے لگنا بھی کارے دارد تھا۔ یہ مرحلہ ان کے لیے مگر اس طرح آسان ہوا کہ ادب سے ان کو بچپن ہی سے گہرا لگاؤ تھا اور آٹھویں جماعت پاس کرتے ہی انھوں نے باقاعدہ طبع آزمائی شروع کر دی تھی؛ لکھنے پڑھنے کا یہ فطری رجحان ان کے کام آیا اور جلد ہی ایک رسالہ میں بطور قلم کار ملازمت مل گئی۔ پہلی نوکری تھی، ان کی طبع آزادکو موافق نہ آ سکی تو ’’غالب‘‘ کے نام سے ذاتی ادبی جریدہ کا اجرا کیا۔ اس زمانہ میں منٹگمری جیسے دور افتادہ علاقہ میں ادبی جریدہ کی اشاعت مالی طور پر منفعت بخش سودا نہ تھی۔

منیر نیازی ان دنوں منٹگمری میں رہتے تھے۔ ان کی شاعری سب سے پہلے یزدانی صاحب کے ادبی جریدہ ہی کے توسط سے ادبی حلقوں تک پہنچی۔ یہ جریدہ قرضوں کے بوجھ تلے دب کر دم توڑ گیا تو یزدانی صاحب مولانا افسر صدیقی امروہی کے حلقہ ء تلازمہ میں شامل ہو گئے، جنھوں نے اس طرح ان کے ادبی ذوق کو صیقل کیا کہ دو سال کے مختصر عرصہ میں ان کو سکہ بند شاعر بلکہ استاد سخن بنا دیا۔ 1936 میں یزدانی صاحب لاہور کے معروف ادبی جریدہ ’’اہکار‘‘ کی مجلس ادارت میں شامل ہو گئے۔

شمس العلما علامہ تاجور نجیب آبادی اس کے مدیر تھے۔ علامہ صاحب نے اپنے مجلہ میں یزدانی صاحب کا جو قلمی خاکہ لکھا، اس میں ان کی شخصیت اور زندگی کاملخص چند سطروں  میں پیش کردیا،’’دبلا پتلا جسم، متوسط قامت، کشادہ پیشانی، آنکھیں جیسے ناقدری ِزمانہ کی شکوہ گزار ہوں۔ جالندھر کی شاعرخیز سرزمین ان کا وطن مالوف  ہے اور لاہور کی حیات فشار فضا میں نفس شماری کر رہے ہیں۔ مشہور ادیب ہیں۔ تنقید نگاری، مقالہ نگاری، شاعری، افسانہ نگاری، غرض کہ ہر میدان کے شہسوار ہیں۔بظاہر خاموش مگر بباطن فریادکار۔ چہرہ معصومیت کا جلوہ زار ہے۔ دل کا حال خدا جانے یا صاحب دل۔ بڑے شریف مگر کسی کے حریف نہیں۔ اپنے ماحول سے بے زار اور ماحول نژادوں کی بے کرداری پر ماتم گسار رہتے ہیں۔‘‘

زندگی بڑے بے کیف انداز میںآگے بڑھ رہی تھی کہ یکدم حالات نے ایسی کروٹ لی کہ یزدانی صاحب کی زندگی کا کانٹا ہی بدل گیا۔ وہ فلم انڈسٹری کی جگمگ دنیا میں آ گئے۔ ہوا یوں کہ مشہور فلم ساز اور ہدایت کار سید عطااللہ شاہ ہاشمی نے ان کو اپنے فلمی رسالہ ’’فلمستان‘‘ کا ایڈیٹر چن لیا۔کچھ عرصہ بعد عطا صاحب لاہور سے بمبئی منتقل ہو گئے تو یزدانی صاحب  نے بھی بمبئی جا کر قسمت آزمائی کا سوچا، جو ان دنوں ہندوستان کا فلمی مرکز تھا۔ یہاں جس کا سکہ بھی ایک بار چل جاتا، راتوں رات اس کے دن پھر جاتے۔ بمبئی میں یزدانی صاحب کو فلمی رسالہ ’’ اداکار‘‘ کی ایڈیٹری مل گئی۔ عطا ہاشمی نے ان کو اپنے فلمی یونٹ  میں بھی شامل کر لیا؛ لیکن افسوس کہ جن فلموں کے لیے مکالمے یا گیت انھوں نے لکھے، وہ نہایت کم بجٹ کی درمیانہ درجہ کی فلمیں تھیں، لہذا ہٹ نہ ہو سکیں۔

جس امیدکے سہارے یزدانی صاحب ممبئی آئے تھے، وہ بر نہ آ سکی۔ حالات اتنے دگرگوں ہوگئے تو یزدانی صاحب لاہور واپس آگئے۔ یہاں کچھ عرصہ مختلف فلمی رسالوں کی ایڈیٹری کی۔ ایک روز پھر سینے میں کچھ اس طرح سے فلمی ترنگ جاگی کہ لاہور چھوڑ کر کراچی چلے گئے اور فدا یزدانی کے فلمی یونٹ کا حصہ بن گئے۔ یہ سفر بھی مگر رائیگاں ثابت ہوا۔اب کی بار یزدانی صاحب لاہور پلٹے تو جیسے فلمی دنیا میں رائیگاں کی مسافرت سے تھک چکے تھے۔یہاں ادھر ادھر کچھ عرصہ فلمی رسالوں میں کام کیا، اخباروں کی خاک چھانی، شعروادب کی محفلوں کو رونق بخشی اور آخر میں ایک ڈائجسٹ سے ایسے وابستہ ہوئے کہ اب فلمی دنیا ان کے لیے گویا ایک بھولی ہوئی داستان تھی اور باقی زندگی ایسے خاموشی سے گزار دی، جیسے اس زندگی سے اب انھیں کوئی دلچسپی نہ ہو۔

ڈائجسٹ سے وابستگی کے ان دنوں میں اختر حیات کی وساطت سے یزدانی صاحب سے نیازمندی کا شرف حاصل ہوا تو ان کی زندگی کو پت جھڑ لگ چکا تھا۔ اخترحیات نے وہ ڈائجسٹ چھوڑا تو یزدانی صاحب سے میرا رابطہ منقطع ہو گیا، اور اس کے بعد ان کی وفات کا بھی کئی سال بعد اس وقت پتا چلا جب ان کے بیٹے اور فلم جرنلسٹ ساجدیزدانی کی رفاقت میں ایک ہی روزنامہ میںکام کرنے کا اور ان کی پرخلوص دوستی کا شرف حاصل ہوا اور اس ساعت جب انھوں نے کہا کہ یزدانی صاحب تو کب کے گزر چکے،  تو مجھے ایسے لگا کہ جیسے عہد گم گشتہ میں کسی تنہا شجر سے کوئی پتا ہوا کے تیز جھونکے سے بغیر کوئی آواز پیدا کیے ٹہنی سے ٹوٹ کر نیچے گر گیا ہو

یزدانی کل جن لفظوں کی ہم سے تھی پہچان

آج ہیں ان لفظوں کا مدفن چاند ہوا اور میں

اللہ تعالیٰ یزدانی جالندھری صاحب کے درجات بلند کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔