موروثی سیاست

ظفر سجاد  اتوار 18 اگست 2019
پاکستان میں جمہوری روایات کے استحکام میں بڑی رکاوٹ

پاکستان میں جمہوری روایات کے استحکام میں بڑی رکاوٹ

بڑے سیاستدانوں کے بچے ہی کیوں حکومت کریں، کیا عام پاکستانی کا کوئی حق نہیں؟

آصف علی زرداری نے بارہا اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ ’’مستقبل میں مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری حکومت کریں گے۔‘‘ مگر اس کی کوئی بھی وجہ وہ آج تک نہیں بتا سکے کہ ان دونوں خاندانوں کے ان بچوں یا باقی بچوں میں کونسی ایسی خوبی ہے کہ جس کی وجہ سے وہ ان دونوں کیلئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام پر حکومت کرنا ضروری سمجھتے ہیں، انھوں نے وہ کونسی ایسی صلاحیت دیکھی ہے، جس کی بِنا پر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے ریاست کے استحکام ، ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے ضامن بن سکتے ہیں۔

حالات بہت تبدیل ہو چکے ہیں، شریف خاندان اور زرداری خاندان کو ابھی تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ نوجوان نسل شعور کے ارتقائی مراحل طے کر رہی ہے، وہ ریاست اور عوام کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش میں ہیں انھیں اس بات کا ادراک ہے کہ ریاست کی مضبوطی، ترقی اور عوام کی خوشحالی کِس طرح ممکن ہے۔اب نوجوان نسل کو محض باتوں اور لچھے دار تقریروں سے گمراہ کرنا بہت مشکل ہے۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی قومی جماعتیں ہیں، پورے ملک میں ان جماعتوں کا کچھ نہ کچھ اثرو نفوذ اب تک پایا جاتا ہے مگر وہ اس بات کا فائدہ ہی نہیں اٹھا پائیں، لوگ شخصیات کی سیاست سے بیزار ہو رہے ہیں، آنے والا وقت نظریات کی سیا ست کا ہے، جب عوام کوبتانا پڑے گا کہ خوشحالی اور ملکی ترقی کا کیا قابل عمل پروگرام ہے۔ اب اس بات کو خوبی نہیں سمجھا جاتا کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی یا نواز شریف کی اولاد ہونا ہی ریاستی معاملات چلانے کیلئے کافی ہے، دنیا سُکڑتی جا رہی ہے، ترقی کا عمل تیزی سے جاری ہے، آبادی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔

عوام کا معیا ر زندگی دن بدن بلند ہو رہا ہے، لوگ پُرتعیش زندگی کے عادی ہو رہے ہیں۔ کمپنیاں اپنی مصنوعات کی بے پناہ تشہیر کرکے انھیں فروخت کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں، عوام کی کمائی کا بڑا حصہ ان مصنوعات سے استفادہ کرنے میں صرف ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے ذرا ئع آمدن بڑھانے کی اشد ضرورت ہے، پوری دنیا میں شروع ہونے والی معاشی اور اقتصادی جنگ پھیل رہی ہے اس جنگ میں نئے حربے آزمائے جا رہے ہیں۔ عالمی قوتیں اپنا اسلحہ بیچنے کیلئے مختلف ممالک میں کشیدگی بڑھا کر فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ مختلف نظاموں میں ٹکراؤ بڑھ رہا ہے، سوشلزم  اور سرمایہ دارانہ نظام کے مابین سرد جنگ میں مزید شِدت آچکی ہے، موسمیاتی تبدیلیوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جراثیم طاقتور ہو رہے ہیں۔

ہزاروں ایسے معاملات ہیں کہ جن پر قابو پانے کیلئے خاص وژن رکھنے والی لیڈر شپ کی ضرورت ہے، کسی بھی سابق حکمران کی اولاد ہونا کوئی خوبی ہے نہ ہی حکومت سنبھالنے کی کوئی وجہ، آصف علی زرداری اور نوازشریف اگر واقعی ملک کے خیر خواہ ہیں تو انھیں خود ہی  مسائل کا ادرک رکھنے والے، عالمی سیاست کو سمجھنے والے اور مسائل پر قابو پانے کی صلاحیت رکھنے والے  افراد کیلئے کُھلا راستہ چھوڑنا چاہیے تھا، اور ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تھی، ایک ایسی ٹیم کی تشکیل میں اپنا فرض ادا کرنا چاہیے تھاکہ جو ملک کو ترقی کی انتہا پر لے جاتی۔

بلاول بھٹو زرداری اور مریم صفدر اعوان کی حکومت کا بیان درحقیقت پاکستان کی بیورو کریسی اور دوسرے اداروں کو ایک پیام ہے کہ وہ ان خاندانوں سے اپنی وفاداری کمزور نہ کریں، آنے والا وقت بھی انہی خاندانوں کی ’’بادشاہت‘‘کا ہے اب انھیں ملکی وسائل لوٹنے، عوام پر مظالم ڈھانے اور من مانی کرنے کی پہلے سے بھی زیادہ کُھلی چھٹی ہوگی ۔ یہ پیام اپنے اپنے سیاسی گروہوں میں شامل تمام افراد کی حوصلہ افزائی کیلئے ہے۔ جمہوریت میں اس قسم کا پیام بذات خود ایک انتہائی نامناسب اور جمہوری رّویوں کی نفی ہے۔

حیران کن بات ہے کہ کرپشن اور ملکی معاملات میں من مانی کرنے پر باز پُرس یا پوچھ گُچھ کو جمہوریت کیلئے خطرہ قرار دیا جاتا ہے مگر ایسے دو افراد کی جا نشینی کا اعلان کرتے ہوئے جمہوری نظام کیلئے خطرہ قرار نہیں دیا جاتا کہ جنہیں نہ تو انٹر نیشنل سیاست کا تجربہ ہے اور نہ ہی گھاگ قسم کے عالمی سیاستدانوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ محلوں میں پیدا ہونے والے ان افراد کو عوامی اور ریاستی مسائل کا ادرک بھی نہیں ہے۔ ان کی کُل سیاست کا محور اپنے خاندان کی حکومت کیلئے راہ ہموار کرنا ہے ۔

عالمی سیاست میں بہت بڑی تبدیلیاں رُونما ہو رہی ہیں، کمزور مُلکوں کی تمام تر دولت ہتھیانے کی منصوبہ بندی بڑی آسانی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچ رہی ہے، چونکہ پاکستان اپنے عسکری و خفیہ اداروں کی وجہ سے ایک مضبوط ملک سمجھا جاتا ہے، اس لئے اِسے غیر مستحکم بنانے کیلئے ایسی سازشیں کی گئیں ہیں کہ عام لوگ بھوک، ننگ، ظلم واستحصال، ناانصافی اور دوسرے مسائل کی وجہ سے اٹھ کھڑے ہوں، وہ تمام ریاستی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیں، طبقاتی تفریق نے عوام کو جوالا مُکھی بنادیا ہے۔

ایک استحصالی اور بدمست طبقہ جس طرح عوام کی لوٹی ہوئی کمائی پر عیش کر رہاہے اور عوام جس طرح بھوک ننگ، بیماریوں اور جہالت کا شکار ہے اُس نے عوام کے اند ر انتقام بے حِسی اور خود غرضی کے جذبات پیدا کردیئے ہیں۔ اِن مسائل سے نبٹنے کیلئے خاص صلاحیت کی ضرورت ہے، اب خود غرضی سیاستدانوں، سیاسی گروہوں، انڈرورلڈ، مافیاز اور بلیک میلروں کی ضرورت نہیں’’راہنماؤں ‘‘ کی ضرورت ہے۔ ایسے راہنما جو اس مظلوم ہجوم کو ایک قوم بنا سکیں جو ملک کی افرادی قوت کوموثر قوت بنا سکیں۔ ہر فرد کی ان خاص صلاحیتوں سے ریاست کیلئے فائدہ اٹھا سکیں، جو قدرت نے ہر انسان کو خصوصی طور پر الگ الگ ودیعت کی ہوئی ہیں، ہر فرد کو خاص صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا جاتا ہے۔

مریم نواز کی فی الحال سیاست کا کل محور اپنے خاندان پر بننے و الے کیس ختم کروانا ہیں اور اپنے خاندان کی لوٹی ہوئی دولت کا تحفظ ہے، مریم نواز کے سیاست میں آنے کی اصل وجہ ان کے بھائیوں کا سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری ہونا ہے، اگر ’’ولی عہد اوّل ودوم‘‘  میں اُمور سلطنت چلانے کی معمولی سی صلاحیت بھی ہوتی تو شائد مریم نواز بھی نواز شریف کی دوسری صاحبزادی اور اپنی چھوٹی بہن اسماء کی طرح گمنام زندگی گزار رہی ہوتیں، اللہ تعالیٰ نے مریم نواز کو نانی بننے کا شرف بخشا ہے۔

شائد اس وقت انھیں اپنی نواسی کو کھلانا اور سُلانا زیادہ فرحت انگیر لگتا۔ مریم نواز حادثاتی طور پر سیاست میں آئیں، اب اُن کی سیاست اور جد وجہد کا مقصد اداروں اور عوام کے مابین فاصلے قائم کرنا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری بھی ذوالفقار علی بھٹو شہید اور بے نظیر بھٹو شہید کا نام کیش کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دونوں کے حواری اور درباری وہ افراد ہیں کہ جن کا ’’روزی رزق‘‘ ہی ان کے وسیلے سے چل رہا ہے، ان کے ترجمان اپنے آقاؤں کی حمایت میں وہ دلیلیں دیتے ہیں کہ جنہیں سُن کر ان کی ’’عقل کی داد‘‘ دینے پر دل چاہتا ہے۔

 عوام، ریاستی استحکام ، ملکی ترقی اور خوشحالی کی خواہشمند ہے

اب عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کون جیل میں ہے ؟ کِس کے خلاف کرپشن ، منشیات یا منی لانڈرنگ کے کونسے کیس ہیں۔ شوشل میڈیا نے عوام کو با شعور کردیا ہے۔نوجوان نسل اپنے فرسودہ تعلیمی نظام کے ساتھ جدید نظریات اور تصورات سے ہم آہنگ ہو رہی ہے، اب گمراہ کرنا اِتنا بھی آسان نہیں رہا۔ لوگوں کو اپنے حقیقی مسائل کا ادراک ہو رہا ہے، انھیں مسائل کے حل کا بھی علِم ہے۔ مسائل پر قابو پانے کے راستوں کا بھی علِم ہے، پھر بھی اپنی چرب زبانی سے ایک اَن پڑھ طبقے کو گمراہ یا اکٹھا کرکے اپنی لیڈرشپ کا کمال سمجھا جا رہا ہے۔

اس وقت عمران خان کی حکومت کی اصل وجہ یہی نوجوان اور باشعور طبقہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ  ’’گروہوں کے سیاسی نظام ‘‘ کی بجائے جمہوری روّیوں کو اپنانے سے ہی ملکی ترقی عوام کی خوشحالی ممکن ہوگی، اس وقت قوم کو’’ حقیقی راہنمائی‘‘ کی ضرورت ہے ، تحریک انصاف کی حکومت نے اگرچہ سیاسی گروہوں کو خاصی زد پہنچائی ہے مگر ابھی نظریاتی سیاست کے فروغ اور کامیابی کیلئے بہت سارے اقدامات کی ضرورت ہے۔

 سیاسی پارٹیوں میں فکر و سوچ کا سفر جاری رہنا چاہیے

اب خاندانوں کی حکومت اور تسلط کی بجائے عوامی حکومت یعنی حقیقی جمہوریت کا سفر تیزی سے ہونا چاہیے، یہ تصور پختہ ہونا چاہیے کہ ’’ راہنمائی ‘‘ کا سفر جاری رہے،  اور عمران خان اس معاملے میں اپناخصوصی کردار سر انجام دیں کہ ان سے بہتر’’ راہنما‘‘  آگے آئیں اور وہ اپنا کام خوش اسلوبی سے سرانجام د ے سکیں، ترقی کا یہ سفر اب جاری رہنا چاہیے، مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی سے بھی قابل اور مخلص افراد کو آگے آنے کا موقع مِلنا چاہیے ، ان افراد کے تجربے اور صلاحیتوں سے بھی ملک کا فائدہ پہنچے گا۔

مَیں ذاتی طور پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں کے سیاستدانوں کو جانتا ہوں جو ملکی مسائل کا ادراک بھی رکھتے ہیں، انٹر نیشنل سیاست کی پیچیدگیوں سے واقف ہیں، اپنی عوام کی نفسیات سے بھی واقف ہیں، ملکی اور افرادی پسماندگی کے اسباب بھی جانتے ہیں، وہ اس امّر سے بھی واقف ہیں کہ ان کا ووٹ بنک ان پڑھ، جاہل اور سیدھے سادے افراد تک محدود ہوگیا ہے، وہ جدید نظریات اپنا کر آگے بڑ ھنے کے حامی ہیں وہ اس بات کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں کہ ملک میں خاص طور پر سیاسی جماعتوں میں فکروسوچ کی ترقی کیلئے راہیں ہموار ہونی چاہئیں، ان کی لیڈر شپ ان کے خیالات، نظریات اور روشن خیالی سے خوف زدہ ہے، اسی خوف کی وجہ سے وہ بے ضمیر قسم کے وفاداروں اور موقع پرستوں کو اپنے آس پاس رکھتے ہیں۔

یہ رجحان اب ختم ہونا چاہیے ان پارٹی سربراہوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ یہ خوشامدی قسم کے درباری ان کی اپنی ساکھ ختم کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں میں ان افراد کو آگے آنے کا موقع مِلنا چاہیے کہ جو واقعتاً ’’ راہنمائی ‘‘  کا وصف رکھتے ہیں۔ نجی نشستوں میں پاکستان کی تمام قومی جماعتوں کے مخلص اور اہل سیاستدانوں کے خیالات سُننے کا موقع مِلتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ ان جماعتوں میں کس قدر قابل اور مخلص افراد موجود ہیں مگر لالچی اور مفاد پرست درباریوں کی وجہ سے اُنھیں کونے سے لگا دیا جاتا ہے، لالچی درباری پارٹی سر براہوں کو تنگ اور بند گلی کی جانب دھکیل دیتے ہیں، صرف اپنے ذاتی مفادات اور وزارتوں کی وجہ سے۔

بلاول بھٹو زرداری اگر اپنے گرد اکٹھے ہونے والے مفاد پرستوں کے ’’غبار‘‘ سے باہر نِکل کر مخلص افرادکو اہمیت دیں تو شائد وہ اپنی سیاست کی ’’ خاص سمت ‘‘ کا تعین کرنے میں کامیاب ہو جائیں، وہ آصف علی زرداری، ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن اور ایسے تمام سیاسی افراد کا راستہ چھوڑ کر یا ان کی وکالت کرنے کی بجائے محض ذوالفقار علی بھٹو کی فلاسفی اور انداز سیاست کو اپنا لیں تو شائد وہ ایک قومی جماعت اور اس کی ساکھ قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائیں، پیپلزپارٹی میں ایسے سیاسی افراد اور مخلص کارکنوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے کہ جو ملک وقوم کا دَرد اپنے سینے میں رکھتے ہیں جو واقعی ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کی تمنا رکھتے ہیں۔

ایم کیو ایم میں بھی بے شمار ایسے افراد موجود ہیں جو عوامی احساسات کی ترجمانی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اُس وقت بھی اپنی تنظیم کے ’’انڈر ورلڈ‘‘ کا حصہ نہیں بنے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ایم کیو ایم کی شہرت ’’ انڈر ورلڈ‘‘  ہونے کی وجہ سے تھی۔ دینی جماعتوں میں بھی کئی ایسے افراد موجود ہیں کہ جو ’’ جدید نظریاتی سیاست اور جدید ریاستی استحکام ‘‘ کا ادراک رکھتے ہیں، انھیں آگے آنے کا موقع مِلنا چاہیے۔

اس وقت عمران خان پر یہ سب سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فکر وسوچ کے بند دریچوں کو ہمیشہ کیلئے کھولنے کیلئے اپنا خصوصی کردار سر انجام دیں جس وقت تحریک انصاف کی بنیاد رکھی گئی تھی تو شوکت خانم ہسپتال کے دفتر میں انھوں نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ’’ میں نوجوان نسل کی مخلص اور ایماندارقیادت آگے بڑھنے کی راہ ہموار کروں گا‘‘۔ اس میٹنگ میں راقم الحروف کے چھوٹے بھائی مظہر سجاد شیخ ایڈووکیٹ اور شوکت خانم کے میڈیا ایڈوائزر عنصر جاوید سمیت4  افراد موجود تھے۔ انھوں نے یہ بات بھی کی تھی کہ پُرانے لوگوں کو نوجوان نسل کیلئے جگہ خالی کرتے رہنا چاہیے۔ مگر یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ ہمارے تمام حکمران اور سیاستدان ملک کو ذاتی ملکیت کیوں سمجھتے ہیں؟ ذاتی جاگیر کیوں سمجھتے ہیں؟ وہ حکمرانی کا حق صرف اپنے لئے ہی کیوں سمجھتے ہیں؟ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر کیوں سمجھتے ہیں؟۔

 ملک ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا

کسی کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آرہا کہ میاں نواز شریف ملک کو ’’اتفاق فاؤنڈری ‘‘ یا اپنی خریدی ہوئی جائیداد کیوں سمجھ رہے ہیں، ان کی تقر یروں،اندازِ گفتگواور اندازِبیان سے بالکل ایسا رہا ہے کہ جیسے کوئی اپنی ذاتی ملکیت پرکسی کے ناجائز قبضے یا قبضے کی سازش کی وجہ سے پریشان ہو، ان کا چیخنا چلانا پورے ملک کی سمجھ سے بالاتر ہے، میاں نواز شریف تو ’’ خلائی مخلوق‘‘ کی پسندیدہ ’’چوائس‘‘ رہے ہیں،اس خلائی مخلوق کو اپنا تابع بنانے کیلئے انھوں نے اور ان کے بزرگوں نے بڑے چِلے کاٹے تھے، ہرقسم کی بّلی اور بھینٹ چڑھائی تھی۔

میاں نواز شریف اور اُن کے خاندان کے سیاست میں آنے کی مجبوری کی اصل وجہ یہ بنی کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ایسے تمام صنعتی اداروں اور تعلیمی اداروں کو قومیا لیا کہ جن کے متعلق مشہور تھا کہ یہ اپنے مزدوروں اور طلباء کا استحصال کر رہے ہیں، اتفاق فونڈری بھی اسی زَد میں آگئی اس وقت ان کے بزرگوں کو احساس ہوا کہ اتفاق فاونڈری قومیائے جانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کی بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین پر تو گرفت موجود ہے مگر حکومتی سطح پر گرفت نہیں ہے، چنانچہ وہ اس تاک میں رہے کہ کب بھٹو حکومت کا خاتمہ ہو، جب 1977 ء کی تحریک چلی تو کہا جاتا ہے کہ اُن بہت سارے صنعتکاروں اور سرمایہ داروں میں اتفاق فانڈری کا نام سرفہرست تھا، آج بھٹو کے خلاف تحریک چلانے کیلئے متعلقہ جماعتوں کو سرمایہ مہیا کر رہے تھے۔

بھٹو کے خلاف تحریک کامیاب ہوئی کیونکہ الیکشن دھاندلی کے خلاف شروع ہونے والی تحریک ’’ نظام مصطفیٰ ‘‘ کی تحریک میں بدل چکی تھی ۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کا دَور شروع ہوگیا، سیاسی ایجنڈے اور ضرورت کے تحت میاں نواز شریف نے تحریک استقلال کا رکُنیت فارم بھرا، پھر جب بلدیاتی الیکشن کا اعلان ہوا تو انھوں نے جماعت اسلامی سے گوالمنڈی کے حلقے سے کونسلر کی ٹکٹ مانگی مگر جماعت اسلامی نے اپنے پُرانے ساتھی ایوب میر کو کونسلر کی ٹکٹ دیدی ۔

ضیاء الحق دَور کے یہ وہ بلدیاتی الیکشن تھے کہ جس کے متعلق اُنھوں نے نجی محفلوں میں کہا تھا کہ ’’ وہ مارشل لاء کی چھتری تلے جمہوریت کی پنیری لگا رہے ہیں‘‘۔آنے والے وقتوں نے اس بات کو سچ ثابت کر دیا، اس وقت کے تقریباً تمام سیاستدان اُسی بلدیاتی انتخابات کی پیداوار ہیں ۔ ضیاء الحق نے ایک نئے سیاسی نظام کی تشکیل کیلئے گراس روٹ سے سیاستدانوں کیلئے راہ ہموار کی، بلدیاتی انتخابات کے بعد مارشل لاء حکومت نے اپنی نگرانی میں صوبوں اور مرکز میں سیاسی حکومتیں بھی قائم کیں۔

یہاں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے بزرگوں کی دعائیں رنگ لائیں اور انھیں وزیر خزانہ پنجاب مقرر کردیا گیا ، یوں اس خاندان کا سیاسی سفر شروع ہوگیا۔ میاں شہباز شریف بھی میدان میں اُتر ے اور اپنا حلقہ انتخاب بنانے کیلئے لوگوں کے کام شروع کردئیے۔ تنخواہیں سرکاری خزانے سے، ووٹ بنک ان کا ذاتی، ہزاروں نالائقوں کو سرکاری نوکریوں سے نواز دیا گیا، بغیر کسی ٹیسٹ یا انٹرویو کے، جس کا خمیازہ قوم آج تک بھُگت رہی ہے مگر آج تک انصاف کرنے والے کسی ادارے نے اُن سے اس بات کا جواب یا جواز طلب نہیں کیا۔ انھوں نے ہر طریقے سے ووٹروں اور سپورٹروں کو نوازا، یہی ووٹر ز اور سپورٹرز آج بھی ان کے لشکر میں موجود ہیں۔ اپنی صنعتی ایمپائرکو بچانا اور آُسے ترقی دینا ہی ان کا سیاسی ’’ نظریہ‘‘ تھا، آج بھی یہی ہے، انکے سپورٹرز کا سیاسی نظریہ اپنے مفادات کی تکمیل ہے، ووٹر کو ورغلانے میں یہ سب کامیاب رہے ہیں۔

دیکھا جائے تو انھوں نے تمام اہم ریاستی و حکومتی عہدوں پر اپنے وفاداروں کو تعینات کرکے اپنا مستقبل مزید سو سال کیلئے محفوظ کر لیا تھا۔ مگر ایک تدبیر اللہ تعالیٰ کی بھی ہوتی ہے جو کہ حتمی ہوتی ہے، پانامہ لیکس بھی اللہ کا عذاب تھیں، ہرچیز کھُل کر سامنے آگئی، مگر اُن کا احتجاجی بیانیہ جس کا لب لباب یہ ہے اس ملک پر حکومت کرنے کا حق صرف ان کا اور ان کے خاندان کا ہے، ناقابل ِفہم ہے۔ اگر اُن پر الزامات لگائے جا رہے تھے تو انھیں ان الزامات کا جواب بھی دینا چاہیے تھا، اپنے خاندان کا دفاع بھی کرناچاہیے تھا مگر ان کی پوری کوشش تھی کہ ادارے ان کی مرضی کے مطابق چلیں یا پھر وہ عوام کو اپنے ہی قومی اداروں سے متنفر کردیں۔ اگر وہ اس ملک  اور ریاست کو اپنا وطن سمجھتے تو کبھی اپنے ووٹرز اور قومی اداروں کے مابین غلط فہمی نہ پیدا ہونے دیتے، قومی و مِلی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کوشش نہ کرتے، عوام کو کبھی یہ احساس نہ دلواتے کہ اگر ان کی حکومت ہمیشہ نہیں رہتی تو وہ سارا نظام اُلٹ پلٹ کردیں گے، کیا وہ جمہوریت صرف اپنی اور اپنے خاندان کی حکومت کو ہی سمجھتے  ہیں؟ کیا ایسے روّیے ہی جمہوری ہوتے ہیں؟ جمہوریت کی خوبصورتی ہی یہ ہے کہ عوام کو خود فیصلہ کر نے دیا جائے۔

ماضی کی سیاست کا دَور دفن ہو چکا ہے، شخصیات اور مفادات کی سیاست کا دَور بھی ختم ہوچکا ہے کہ ملک کے مسائل اتنے زیادہ بڑھ چکے ہیں کہ ’’بھٹو زندہ ہے‘‘ اور’’ میاں ہمارا شیر ہے‘‘  کے نعروں سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ضیاء الحق کے دور حکومت سے شروع ہونے والے معاملات نے ملک کو مسائل کی دلدل میں دھنسادیا ہے، اب اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ باشعور سیاست دان، پڑھے لِکھے اور مخلص نوجوان،قابل اور دیانتدار بیوروکریسی مل کر معاملات کا حل نِکالے، مگر قوم کو خود بھی با شعور ہونا پڑے گا۔

اب قوم کو حقیقی راہنماؤں کی ضرورت ہے

قائد اعظم کی وفات کے بعد ابھی تک قوم کو ایسا حقیقی راہنما نہیں مِل سکا جو قوم کی  راہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہو، ’’راہنما‘‘ کا مطلب اپنی مخصوص سمِت کا تعین، منزل کے حصول کیلئے ایک قابل، مخلص اور دیانتدار ٹیم کی تشکیل، قوم کی تربیت اور مقاصد کے حصول کیلئے ہر خوف، ہر لالچ اور ہر مفاد سے بالا تر ہو کر جدوجہد کرنا ہے۔

پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قوم کی تربیت کا نہ ہونا ہے، چنانچہ اجتماعی قومی زندگی کا تصور ختم ہو چکا ہے۔ انفرادی روّیے ہر چیز پر غالب آچکے ہیں۔ افراد کو اپنے ذاتی مفادات زیادہ عزیز ہیں، ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے، اخلاقی اقدار دم توڑ چکی ہیں، نوجوان نسل کا بہت بڑا حصہ دینی اعتقاد کو ’’ فرسودہ روایات ‘‘ سمجھتا ہے جبکہ دین پر عمل کرنا ہی ایک مسلمان کی زندگی کا حاصل اور مقصد ہوتا ہے۔ مال و زر کو عزت کی وجہ سمجھاجا تا ہے، آج ہمارے ملک میں قابل پڑھے لِکھے اور باصلاحیت افراد کی قدر نہیں ہے۔

اُس اَن پڑھ بندے کی قدر ہے کہ جو منشیات فروشی ، زمینوں پو قبضے اور غنڈہ گردی کی وجہ سے ’’ لینڈ کروزر‘‘ خرید لیتا ہے۔ دو چار گن بردار رکھ لیتا ہے، اچنبے کی بات یہ ہے کہ ایسے افراد کو اسمبلیوں کے ٹکٹ بھی مِل جاتے ہیں ۔ آج تمام ضمیر فروش ’’ با عزت‘‘ بنے ہوئے ہیں اور با ضمیر افراد انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، آج ایسے راہنماؤں کی ضرورت ہے کہ جو اخلاقی اقدار کی اہمیت سے واقف ہوں، جو پاکستانی قوم میں اعلیٰ اخلاقی اوصاف پیدا کر سکیں۔

 سیاسی ٹیم میں بھی نئے خون کی ضرورت ہے

سیاسی پارٹیوں اور ریاستی اداروں میں جن افراد کو اہم سیٹوں پر براجمان ہونے کا موقع مِل جاتا ہے وہ سازشوں کے ذریعے کسی بھی اہل اور ایماندار بندے کو اوپر آنے کا موقع نہیں دیتے، اب روائتی سیاستدانوں کو آہستہ آہستہ ’’ ریٹائرڈ ‘‘ کرنا چاہیے اور نئے ’’ ٹیلنٹ ‘‘ کو ’’سیاسی ٹیم‘‘ میں اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع مِلنا چاہیے۔ الیکشن کے اگلے ’’ نیشنل کپ‘‘ یعنی انتخابات کیلئے ابھی سے نئے خون کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

 جاگیردار، گدی نشین اور سرداریم این ایز اور ایم پی ایز

پاکستان کے سیاسی نظام کی ناہمواری کی ایک بہت بڑی وجہ یہاں کا جاگیردارانہ نظام بھی ہے۔ اگر چہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح ؒ کو بھی حصول پاکستان کیلئے جاگیرداروں ،گدی نشینوں، سرداروں اور زمینداروں کی حمایت حاصل کرنا پڑی تھی اور اس حمایت کے عوض وقتی طور پر ’’لینڈ ریفارمز ‘‘ نہیں کی گئی تھیں مگر یہ بات وثوق سے کی جا سکتی ہے کہ اگر قدرت قائد اعظم ؒ کو کچھ عرصہ مزید مہلت دیتی تو قائد اعظم ؒ جا گیردارانہ نظام کا خاتمہ کردیتے۔

اب بھی زرعی اصلاحات ( لنیڈریفارمز) کا ہونا بہت ضروری ہے، قبائلی نظام کے خاتمے کے بعد جاگیردارانہ نظام ختم ہوگا تو اُن علاقوں کے لوگوں کی قسمت بدلے گی۔ اور وہاں کی عوام کے مسائل کا حقیقی ادراک رکھنے والے نمائندے منتخب ہوں گے، ماضی کی حکومتوں کو اس نظام کا بطور خاص فائدہ پہنچتا رہا ہے کہ اگر وہ شہری علاقوں سے خاطر خواہ نشستیں حاصل نہیں بھی کر پاتے تھے تو وہ ان منتخب جاگیرداروں، سرداروں، زمینداروں اور گدی نشینوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ جاگیردارانہ نظام کی لاتعداد خامیاں سامنے آچکی ہیں، خاص طور پر اُن علاقوںکی عوام پسماندگی کی انتہا تک پہنچ چکی ہے، اب اس نظام کا خاتمہ بھی نا گزیر ہو چکا ہے۔ روائتی سیاست اور روائتی سیاستدانوں سے چھٹکارا وقت کی اہم آواز ہے۔ ان علاقوں کے نوجوان بھی ’’باصلاحیت اور محنتی ‘‘ہیں اب انھیں موقع ملنا چاہیے ۔

 جہنم کا میڈیا سیل
ایک نہایت ہی شریف، دیانتد دار اور بے باک سیاستدان سے ایک نجی نشست میں میَں نے یہ سوال کیا کہ’’ کسی قسم کے مفادات کا لالچ نہ ہونے کے باوجود اتنی زیادہ جماعتیں بدلنے کی وجہ کیا ہے؟ ’’ کہنے لگے کہ ’’ میرا شمار بھی اس ملک کے اُن سیاسی کار کنوں میں ہوتا ہے کہ اس ملک کی خوشحالی، عوام کی آسودگی اور ریاستی استحکام کے خواہشمند ہیں، اب ہر پارٹی کا میڈیا سیل اپنی پارٹی کی اتنی خوشنما تصویر پیش کرتا ہے کہ اچھا بھلا انسان دھوکا کھا جاتا ہے پھر خود ہی ’’ لطیفہ سنانے لگے’’ ایک شخص اپنے اعلیٰ اعمال کی وجہ سے جنت کے اعلیٰ درجے میں پہنچ گیا، ایک دن وہ جنت سے باہر کی دنیا کا نظارہ کر رہا تھا کہ اُس نے ایک جگہ دیکھا کہ ایک میلہ لگا ہوا ہے۔ ڈھول باجے بجائے جا رہے ہیں، خوبصورت خواتین پُرکشش لباس میں گھوم پھر رہی ہیں۔

ہر طرف لوگ خوش اور ناچتے گاتے نظرآرہے ہیں، عمدہ قسم کے طرح طرح کے کھانوں کے سٹال لگے ہوئے ہیں۔ جنت کے داروغہ سے پوچھا ’’ یہ کونسی جگہ ہے؟ فرشتے نے بتایا ’’ یہ جہنم ہے‘‘ کہا ’’ مجھے بھی اُدھر ہی بھیج دو، فرشتہ تعجب سے پوچھنے لگے ’’جنت سے جہنم میں جاؤگے؟ ‘‘ کہا ’’ ہاں ‘‘ فرشتے نے کافی منع کیا مگر وہ جنتی اپنی بات پر اصرار کرتا رہا، آخرکار فرشتے نے اللہ تعالیٰ سے اجازت لیکر اُس جنتی کو جہنم میں بھیج دیا۔ جب اُسے جہنم کی آگ اور عذاب میں ڈالا گیا تو وہ جہنم کے فرشتے سے پوچھنے لگا کہ ’’ وہ جگہ کہاں ہے جو جنت سے نظر آتی ہے؟ ’’ جہنم کے فرشتے نے لاپروائی سے جواب دیا ’’ وہ جہنم کا میڈیا سیل ہے ‘‘ ۔کہنے لگے، پارٹیوں کے اس میڈیا سیل کی وجہ سے مختلف پارٹیوں میں پہنچ جاتا ہوں ۔ پارٹی کے اندر جاکر پتہ چلتا ہے کہ اصل صورتحال کیا ہے، اب تو ہر جگہ صرف دھوکا اور فریب ہی ہے۔

جائیدادوں، نمبروں، میچوں اور الیکشنوں میں سرمایہ کاری
کافی عرصہ قبل ایک ایسے سرمایہ کار سے ملاقات ہوئی کہ جن کی ’’ امارت‘‘ اُن کے انداز گفتگو سے جھلکتی تھی۔ اُن سے پوچھا گیا کہ وہ کیا کام کرتے ہیں ؟ ’’ فخر سے کہنے لگے۔ جائیدادوں، نمبروں، میچوںاور الیکشنوں میں سرمایہ کاری کرتا ہوں۔‘‘

جب انھوں نے دیکھا کہ میرے پلے کچھ نہیں پڑا تو خود ہی کہنے لگے ۔ انعامی بانڈ کے نمبر خرید تا ہوں ، بعض اوقات کوئی نمبر’’لگ ‘‘ بھی جاتا ہے۔ میچوں پر جّوا لگاتا ہوں اور الیکشنوں میں مضبوط انتخابی اُمیدواروں پر رقم لگاتا ہوں، اگر ہمارا اُمیدوار جیت جائے تو بعد میں اُس سے کام نکلواتا رہتا ہوں، ایک کے دس کماتا ہوں۔ لوگوں سے رقم لیکر اُن کے بھی کام کرواتا ہوں۔سیمنٹ ، نمک اور دوسری اشیاء کی ایجنسیاں اور مختلف پرمٹ لوگوں کو دلواتا ہوں اس کے عوض ان سے رقم وصول کرتا ہوں، تبادلے کرواتا ہوں، ضرورتمندوں کو سرکاری نوکری دلواتا ہوں، ہر چیز کے دام لیتا ہوں ، یہی میرا کاروبار ہے، یہی میری سرمایہ کاری ہے۔ بتانے لگے کہ کئی پلاٹ بھی الاٹ کروا چکا ہوں، اب سیاست ہی سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔ ان کی یہ باتیں سُن کر یہی سوچتا رہا کہ کیا الیکشن میں کامیاب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ پورے ملک کے بلا شرکت غیرے مالک بن جاتے ہیں، خود بھی فائدہ اٹھاتے ہیں آپ کے حواری بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں۔ پہلے یہی سب کچھ ہوتا رہا ہے مگر شائد اب وقت اور انتخابی کلچر تبدیل ہو چکا ہے، شائد اب سیاست پہلے جیسا نفع بخش کاروبار نہ رہے۔

بیٹے کی محبت
جیل میں مختلف قیدی اپنی قید کی وجہ اور جرائم کی تفصیل بتا رہے تھے ، ایک ’’ مہذب ‘‘ سا شخص خاموش بیٹھا تھا۔ ایک قیدی نے اس کا جّرم پوچھا تو کہنے لگا کہ’’ بیٹے کی محبت کی وجہ سے وہ جیل پہنچا ہے۔‘‘ دوسرے قیدیوں کو تعجب میں دیکھ کر کہنے لگا کہ اصل میں وہ جعلی نوٹ چھاپنے کا دھندا کرتا تھا۔ اس کے جعلی نوٹ بھی بالکل اصل کی مانند ہوتے تھے، ایک دفعہ بیٹے کی محبت میں مجبور ہوکر اُس نے قائد اعظم ؒ کی تصویر کی بجائے اپنے بیٹے کی تصویر چھاپ دی، بس اُسی وجہ سے پکڑا گیا۔

ہمارے کافی سارے سیاستدانوں نے اپنی اولاد کی محبت میں پورا ملک لوٹ کر پیسہ اپنے بچوں کے حوالے کردیا، بچے تو بیرون اور اندرون ِ ملک کھربوں کی جائیدادوں کے بل بوتے عیش کر رہے ہیں مگر وہ جیلوں میں قید ہیں یا جیلوں میں پہنچنے والے ہیں، واقعی والاد کی محبت بہت بُری چیز ہے ۔ اولاد کو بھی اپنے والدین سے محبت کا ثبوت دینا چاہیے اور جس دولت کا وہ کوئی ثبوت نہیں د ے پا رہے ہوں، ریاست کو واپس کردیں اور والدین کو جیلوں سے نکلوائیں۔ اولاد کی عجیب بے حِسی اور خود غرضی ہے، ان اولادوں کے مطلبی درباری انھیں کبھی بھی والدین کا احساس نہیں کرنے دیں گے بلکہ مزید اُکسا تے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔