میلکم ایکس کا تاریخی حج

سید عاصم محمود  اتوار 18 اگست 2019
خانہ کعبہ میں پیش آئے تجربات نے جب سیاہ فام باشندوں کے ممتاز امریکی رہنما کی فکر وعمل بدل دی

خانہ کعبہ میں پیش آئے تجربات نے جب سیاہ فام باشندوں کے ممتاز امریکی رہنما کی فکر وعمل بدل دی

یہ 13 اپریل 1964ء کی تاریخ تھی جب امریکی سیاہ فاموں کے ممتاز لیڈر، میلکم ایکس مشرق وسطیٰ کے دورے پر روانہ ہوئے۔ وہ 21 مئی کو واپس وطن پہنچے۔ اس دوران وہ سعودی عرب،مصر، لبنان، نائجیریا، گھانا، مراکش اور الجزائر میں گھومے پھرے اور وہاں کے لیڈروں و عوام سے ملاقاتیں کیں۔

اس دورے کی معراج میلکم ایکس کا مکہ معظمہ میں حج کرنا تھا۔حج مبارک نے امریکی سیاہ فام لیڈر کی کایا پلٹ ڈالی۔ حتیٰ کہ ان کی فکروعمل کا سانچہ ہی بدل گیا اور وہ ایک بالکل مختلف لیڈر بن کر کروڑوں امریکیوں کے سامنے آئے۔اس تبدیلی کی داستان سبق حیرت انگیز اور سبق آموز ہے۔

ظالموں کے گھیرے میں
میلکم ایکس کی زندگی ڈرامائی واقعات اور اونچ نیچ سے بھرپور ہے۔ اصل نام میلکم لٹل تھا۔ 19 مئی 1925ء کو ریاست نبراسکا کے شہر اوماہا میں پیدا ہوئے۔ والد، ارل لٹل سیاہ فاموں کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے بنائی گئی ایک تنظیم، یونیورسل نیگرو امپرومنٹ ایسوسی ایشن کے مقامی عہدے دار تھے۔ اوماہا میں تنظیم کے صدر بھی رہے۔ مزید براں مقامی چرچ میں مذہبی لیکچر بھی دیتے۔ان کا شمار امریکا کی سول رائٹس موومنٹ کے بانیوں میں ہوتا ہے۔اوماہا میں سیاہ فام کثیر تعداد میں آباد تھے۔ وہ کارخانوں میں معمولی ملازمتیں انجام دیتے ۔ سفید فام مگر ان سے نفرت کرتے۔ سفید فام نوجوان سمجھتے تھے کہ سیاہ فام شہر میں بس کر ان سے ملازمتیں چھین رہے ہیں۔ اسی لیے ماضی میں سفید فام کئی سیاہ فاموں کو مارپیٹ کر سولی دے چکے تھے۔ یہ ظالمانہ فعل امریکی سفید فاموں کا بنیادی ہتھیار تھا۔سفید فاموں کو ارل لٹل ایک آنکھ نہ بھاتے جو شہر کے سیاہ فاموںکو حقوق دلوانے کی خاطر جدوجہد کررہے تھے۔ سفید فاموں کی مشہور تنظیم، کوکلس کلین کے دہشت گرد ارل لٹل کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ تبھی وہ 1926ء میں بیوی بچوں کو لیے پہلے ریاست ویسکونسن پھر ریاست مشی گن کے شہر، الانسنگ چلے گئے۔ اس نئے شہر میں بھی نسل پرستی عروج پر تھی۔ متعصب سفید فاموں نے سیاہ فاموں کو ڈرانے دھمکانے اور انہیں بدستور اپنا غلام بنائے رکھنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنا رکھی تھیں۔ ’’بلیک لیجن‘‘ تنظیم ان میں سب سے طاقتور اور بااثر تھی۔

1929ء میں بلیک لیجن کے دہشت گردوں نے ارل لٹل کا گھر جلادیا۔ اہل خانہ بروقت گھر سے نکلنے کے باعث محفوظ رہے۔ سفید فام دہشت گروہوں نے پے در پے حملے کیے مگر ارل لٹل کی ہمت پست نہیں کرسکے۔ وہ چرچوں میں سیاہ فاموں کو اپنے حقوق کی خاطر لڑنے کے لیے ابھارتے رہے۔ ان کا سفید فام امریکی حکمرانوں سے مطالبہ تھا کہ سیاہ فام طبقے کو بھی سول و جمہوری حقوق عطا کیے جائیں۔ مگر نسل پرست اور انتہا پسند سفید فاموں کے نزدیک یہ مطالبہ بہت بڑا جرم بن گیا۔ چناں چہ 1931ء میں بلیک لیجن کے دہشت گردوں نے ارل لٹل پر کار چڑھا کر انہیں مار ڈالا۔ارل لٹل کو احساس ہوگیا تھا کہ ان کی جان خطرے میں ہے۔ اگر وہ چل بسے، تو ان کے چھ بچے اور بیوی کیسے گزراوقات کریں گے؟ انہیں مالی سہارا دینے کی خاطر ہی ارل لٹل نے انشورنس پالیسی لے لی۔ مگر وہ بھول گئے کہ انشورنس کمپنی کے کرتا دھرتا بھی متعصب انگریز تھے۔ انہوں نے ارل لٹل کی موت کو خودکشی قرار دے کر انشورنس کی رقم بیوہ کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ یوں سیاہ فام رہنما کی موت کے بعد بھی ان کے اہل خانہ پر ظالم سفید فام ظلم و ستم ڈھاتے رہے۔

ماں پاگل ہو گئی
ارل لٹل کی بیوہ، لائوزے لٹل ایک بہادر خاتون تھی۔ وہ چاہتی تو حکومت یا کسی سماجی تنظیم سے خیرات لے سکتی تھی۔ یوں اہل خانہ کے اخراجات پورے ہوجاتے۔ مگر لائوزے کی خودداری نے یہ گوارا نہیں کیا کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ لہٰذا وہ کوئی ملازمت ڈھونڈنے لگی۔ مگر امریکہ ’’گریٹ ڈپریشن‘‘ کا شکار تھا۔ کاروباری و صنعتی سرگرمیاں ٹھپ پڑی تھیں۔ ایسے میں ایک انقلابی سیاہ فام رہنما کی بیوہ کو کون ملازمت دیتا؟جلد ہی لائوزے کی جمع پونجی ختم ہوگئی۔ اب مجبوراً اسے خیراتی اداروں سے بچوں کے لیے کھانا لانا پڑا۔ بچوں کے اخراجات، بیروزگاری و غربت کا خوف اور ہاتھ پھیلانے کی ذلت…ان تمام عوامل نے لائوزے لٹل کے اعصابی و ذہنی نظام پر شدید دبائو ڈال دیا۔ چند ہی برس بعد وہ مخبوط الحواس ہوگئی اور اسے پاگل خانے داخل کرانا پڑا۔

حقائق سے آشکارا ہے کہ میلکم ایکس کا بچپن عام بچوں کی طرح نہیں گزرا۔ انہیں شعور سنبھالتے ہی تشدد، قتل و غارت، ظلم و ستم، غربت و بیروزگاری جیسے غیر معمولی عوامل سے واسطہ پڑگیا۔ وہ ماں باپ کی شفقت و محبت بھی طویل عرصے نہ پاسکے۔ جب والدہ پاگل ہوئیں تو انہیں اور ان کے دیگر بہن بھائیوں کو سیاہ فام گھرانوں کے سپرد کردیا گیا تاکہ وہ بچوںکی پرورش کرسکیں۔میلکم ایکس کو جس سیاہ فام گھرانے کے سپرد کیا گیا‘ وہ بھی مالی مسائل سے دوچار تھا۔ حتیٰ کہ میلکم کو پیٹ بھر کر غذا بھی نہیںملتی۔ بھوک تو بڑ ے بڑوں کو گمراہ کر دیتی ہے، میلکم تو پھر نوخیز لڑکے تھے۔ وہ ہوٹلوں اور دکانوں سے کھانے پینے کی چیزیں چوری کرنے لگے تاکہ پیٹ کی آگ بجھا سکیں۔ ایک د ن پولیس نے انہیں پکڑ لیا۔ میلکم کو بچوں کی جیل بھجوا دیا گیا۔ وہاں سیدھی راہ سے بھٹکے بچوں کی اصلاح و تربیت کی جاتی تھی۔

تم وکیل کیسے بنو گے؟
خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کے دوران میلکم ایکس بھی نت نئے سکولوں میں زیر تعلیم رہے۔ اس لیے تمام تر مشکلات کے باوجود ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ حیران کن طور پر ان کی تعلیمی کارکردگی عمدہ تھی۔ وہ ہر جماعت میں اچھے نمبر لے کر کامیاب ہوتے ۔ مگر میلکم جب آٹھویں کلاس میں تھے‘ تو ایک واقعے نے ان کی زندگی کا دھارا بدل دیا۔کلاس میں سبھی سفید فام استاد باتوں باتوں میں سیاہ فاموں کا مذاق اڑاتے تھے۔ جماعت میں میلکم سمیت صرف تین بچے سیاہ فام تھے۔ میلکم نے خوب محنت کی اور بہترین نمبر لے کر کلاس مانیٹر بن گئے۔ اس شاندار کارکردگی پر صرف ایک سفید فام استاد ‘ مسٹر اوسٹراوسکی نے میلکم کو شاباش دی اور اس کا حوصلہ بڑھایا۔کچھ عرصے بعد کلاس میں کیریئرکے موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی۔ جب میلکم کی باری آئی۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ وکیل بننا چاہتے ہیں۔ مسٹر اوسٹراوسکی بولے ’’ارے لڑکے ‘ تم نگر (Nigger) ہو۔حقیقت پسند بنو، ذرا سوچو ،کیا تم وکیل بن سکتے ہو؟‘‘ (یاد رہے‘ امریکی معاشرے میںسیاہ فام نگر کا لفظ بطور گالی لیتے ہیں)

اس بات سے قدرتاً میلکم کو سخت تکلیف پہنچی ۔ انہیں احساس ہوا کہ وہ چاہے کتنی ہی شاندار تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ دکھا دیں‘ امریکی سفید فام معاشرے میں انہیں بلند مقام نہیں مل سکتا کیونکہ وہ کالے ہیں۔اس واقعے کے بعد میلکم ایکس کا تعلیم سے جی اچاٹ ہو گیا۔ یہی نہیں‘ وہ سفید فاموں سے مزید نفرت کرنے لگے۔ انہیں کئی بار تجربہ ہوا تھا کہ بظاہر شریف پڑھے لکھے نظر آنے والے سفید فام بھی نسل پرست ا ور متعصب ہوتے ہیں۔ ان تجربات نے میلکم کو جارحیت پسند اور معاشرے کا باغی بنا دیا۔وہ 1941ء میں بوسٹن شہر چلے گئے جہاں ان کی بہن رہتی تھی۔ کچھ عرصے بعد ایک منشیات فروش ان کا دوست بن گیا۔ اس نے ایک نائٹ کلب میں انہیں جوتے پالش کرنے کی ملازمت دلوا دی۔جوتے پالش کرتے ہوئے میلکم کو احساس ہوا کہ اکثر گاہک منشیات بھی طلب کرتے ہیں۔چنانچہ وہ منشیات بھی فروخت کرنے لگے۔ جلد ہی وہ خود بھی نشہ کرنے والوں میں شامل ہو گئے۔

جرائم کی دنیا میں
1943ء میں میلکم نیویارک کے مشہور علاقے ہارلیم آ بسے جہاں سیاہ فام کثیر تعداد میں آباد تھے۔ وہاں وہ منشیات فروشی‘ جوئے بازی‘ چوری چکاری‘ طوائف فروشی اور دیگر جرائم سے منسلک رہے۔1945ء میں میلکم پھر بوسٹن چلے گے اور وہاں سیاہ فام چوروں کا گروہ بنا کر امیر سفید فاموں کے گھر چوریاں کرنے لگے۔ تاہم اگلے سال پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔ مقدمہ چلا اور ان کو دس برس قید سخت کی سزا ہو گئی۔جیل میں یہ خطرہ موجود تھا کہ وہاں قید عادی مجرم افراد نوجوان میلکم کو جرائم کی دنیا میں مزید دھکیل دیں گے مگر ان کی خوش قسمتی کہ انہیں اپنے بھائی‘ ریجلنڈ لٹل کی صورت ایک مدد گار مل گیا۔ریجلنڈ اکثر بڑے بھائی سے ملنے آتا تھا۔ وہ معمولی ملازمتیں کر رہا تھا اور عموماً قلاش رہتا۔ میلکم نے کوشش کی کہ ریجلنڈ بھی دنیائے جرائم میں قدم دھر دے مگر اس نے انکار کر دیا۔ وہ اپنا ایمان و اخلاق خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جرائم میں لتھڑ جانے کے باوجود میلکم میں نیکی کی رمق باقی تھی۔ اسی لیے وہ اپنے اس شریف بھائی کی بہت عزت کرتے ۔

ریجلنڈ نے بھائی کو بتایا کہ وہ ایک تنظیم‘ نیشن آف اسلام کا رکن بن گیا ہے۔ اس نے میلکم پر زور دیا کہ وہ بھی تنظیم کا رکن بن جائے۔ یہ تنظیم 1930ء میں ریاست مشی گن کے شہر ڈیئرائٹ میں ایک پُراسرار شخص، والاس فرد محمد نے قائم کی تھی۔ ان کے نظریات کا خلاصہ یہ تھا کہ امریکا میں آباد تمام سیاہ فام مسلمانوں کی اولاد ہیں۔ لہٰذا انہیں اپنا حقیقی مذہب،اسلام اختیار کر لینا چاہیے۔1934ء میں فرد محمد پُراسرار طور پر غائب ہو گئے۔ ان کے نائب، عالیجاہ محمد نے تنظیم کی سربراہی سنبھال لی۔عالیجاہ نے نیشن آف اسلام کو نسل پرست تنظیم بنا ڈالا ۔ اس کے نظریات یہ تھے کہ سفید فام شیطان کی ا ولاد جبکہ سیاہ فام سب سے برتر واعلی نسل ہیں۔ یہ تنظیم سیاہ فاموں کو امریکا میں طاقتور گروہ بنانا چاہتی تھی۔ تاہم عالیجاہ محمد کے نظریات اسلامی تعلیمات سے متصادم تھے‘ اسی لیے عام مسلمانوں کے نزدیک نیشن آف اسلام ایک گمراہ کن اسلامی تنظیم بن گئی۔ بہر حال تنظیم میںبعض اسلامی خصوصیات موجود رہیں۔ مثلا یہ کہ سور کا گوشت نہ کھاؤ‘ نشہ نہ کرو‘ راست بازی سے زندگی گزارو اور ایک خدا کی عبادت کرو۔

نیشن آف اسلام
جرائم پیشہ بن جانے کے بعد میلکم دہریے بن گئے تھے۔ وہ مذہب کو بیکار شے سمجھنے لگے۔ لیکن ریجلنڈ لٹل کی کوششوں سے میلکم سوچ بچار کرنے لگے کہ آخر وہ کیوں گھٹیا و بیکار زندگی گزار رہے ہیں؟دنیا میں ان کے آنے کا مقصد کیا ہے؟ اسی غور و فکر نے انہیں کتابوں کی سمت راغب کر دیا۔ جیل میں ایک بڑی لائبریری موجود تھی۔ اب میلکم کے شب و روز وہاں گذرنے لگے۔ انہوںنے مختصر عرصے میں سیکڑوں کتابوں کا مطالعہ کر ڈالا۔ اسی طرح میلکم دوبارہ علم و تعلیم کی دنیا سے جڑ گئے۔1948ء کے اواخر میں میلکم نیشن آف اسلام سے وابستہ ہو ئے۔ اب پیسہ کمانا نہیں امریکی سیاہ فاموں کو حقوق دلوانا زندگی کا مشن بن گیا۔ وہ پس ماندہ‘ کمزور اور بے بس سیاہ فاموں کو امریکی معاشرے میں تعلیم یافتہ‘ طاقتور اور بااثر بنانا چاہتے تھے۔ ان کے والد کی بھی یہی تمنا تھی ۔ اسی طرح میلکم بد راہ چھوڑ کر نسبتاً بہتر راستے پر گامزن ہو گئے۔اس زمانے میں پورے امریکا میں مختلف سیاہ فام رہنما لاکھوں سیاہ فاموں کوحقوق دلوانے کے لیے سرگرم عمل تھے۔ تب ان میں بیک وقت دو لائحہ عمل کار فرما تھے۔ پہلا اختیار کرنے والے سیاہ فام فلسفہ عدم تشدد پر یقین رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پُرامن مظاہروں کے ذریعے سفید فام حکمرانوں سے مطالبات منظور کرائے جا سکتے ہیں۔ آگے چل کر مارٹن لوتھر کنگ اسی گروہ کے لیڈر بن کر سامنے آئے۔دوسرے لائحہ عمل پر کاربند سیاہ فام رہنما سمجھتے تھے کہ حقوق کی جنگ میں طاقت کا استعمال بھی ہونا چاہیے تاکہ سفید فام اکثریت اس خام خیالی سے باہر نکل آئے کہ سیاہ فام کمزور و بے بس قوم ہے۔ امریکا میں بعدازاں میلکم ایکس ہی اس لائحہ عمل کے مشہور ترین سیاہ فام لیڈر کی حیثیت سے نمایاں ہوئے۔ وہ اپنے نام کے آخری حرف (لٹل) سے چھٹکارا پاکر اس کی جگہ ایکس لکھنے لگے۔ میلکم کا کہنا تھا کہ سفید آقا نے ان کے پردادا کو ’’لٹل‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ انہوں نے غلامی کی اس یادگار کو کھرچ ڈالا۔

دراصل بچپن سے لے کر نوجوانی تک میلکم نے سفید فام اکثریت کے ہاتھوں ظلم سہے تھے۔ تلخ تجربات نے انہیں جارحیت پسند رہنما بنا دیا۔ وہ اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے حقوق پانے کی جدوجہد میں طاقت کے استعمال کی نظریاتی تشریح کرتے رہے۔ اس سلسلے میں ان کے درج اقوال بہت مشہور ہوئے:

٭… ہماری کتاب، قرآن میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ پُر امن طور پر ظلم سہتے رہو۔ ہمارا مذہب ہمیں سمجھدار و عاقل بننے کی تلقین کرتا ہے۔
٭… جب دفاع کے طور پر جنگ کی جائے تو میں اسے تشدد نہیں ذہانت کا نام دیتا ہوں۔
٭… پُرامن رہیے، مہذب بنیے، قانون کا احترام کیجیے، ہر کسی کو عزت دیجیے۔ مگر کوئی آپ کے گریبان میں ہاتھ ڈالے تو اسے قبرستان پہنچا دیجیے۔
٭… اگر آپ نے دوسرا گال سامنے کردیا، تو یاد رکھیے، ایک ہزار سال تک غلام بنالیے جائیں گے۔
٭… عدم تشدد کے اگر یہ معنی ہیں کہ امریکی سیاہ فاموں کی مشکلات و مسائل حل نہ کیے جائیں، تو میں تشدد کا حامی ہوں۔
٭… ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ سیاہ فاموں کو ریسٹورنٹ میں انہی سفید فاموں کے ساتھ بٹھانا چاہتے ہیں جو ہم پر پچھلے چار سو برس سے ظلم ڈھا رہے ہیں۔

میلکم ایکس اگست 1952ء میں جیل سے رہا ہوئے۔ وہ پھر امریکا بھر میں نیشن آف اسلام کے نظریات کی ترویج کرنے لگے۔ مقصد یہ تھا کہ امریکی سیاہ فاموں کو حقوق و فرائض کا شعور و آگاہی دے کر انہیں باعزت و آزاد شہری بنایا جاسکے۔ میلکم پُرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ ہمیشہ صاف ستھرا لباس پہنتے۔ مقصد سے لگن نے انہیں پرجوش مقرر بنادیا۔ اہم ترین بات یہ کہ غریب و مسکین سیاہ فاموں کے سینوں میں ظالم سفید فاموں کے خلاف جو جذبات دبے تھے، میلکم نے انہیں زبان دے دی۔ اسی لیے وہ عام سیاہ فاموں میں مقبول رہنما بن گئے۔نوجوان لیڈر کی کرشماتی شخصیت کا اعجاز ہے کہ سیاہ فام بڑی تعداد میں نیشن آف اسلام میں شمولیت اختیار کرنے لگے۔ 1952ء میں تنظیم کے ارکان کی تعداد ایک ہزار تھی۔ میلکم کی متحرک سرگرمیوں کے سبب وہ اگلے دس برس میں پچھتر ہزار تک پہنچ گئی۔ تنظیم نے کئی شہروں میں مساجد قائم کرلیں۔ مشہور باکسر، محمد علی بھی میلکم ایکس کی تقریروں اور شخصیت سے متاثر ہوکر نیشن آف اسلام کے رکن بن گئے۔

میلکم ایکس رفتہ رفتہ انتہا پسندی کی طرف مائل ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر سفید فام سیاہ فاموں کو حقوق نہیں دیتے، تو انہیں بندوق اٹھالینی چاہیے۔ میلکم نے پھر امریکا میں سیاہ فاموں کے لیے علیحدہ مملکت بنانے کا اعلان کردیا۔ امریکی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے میلکم کے کئی انٹرویو پیش کیے اور یوں وہ امریکا میں جانے پہچانے سیاہ فام لیڈر بن گئے۔ ان کے نظریات و خیالات کو شمالی و مغربی امریکا میں مقیم سیاہ فاموں نے بہت پذیرائی بخشی جو صدیوں سے سفید فام اکثریت کے مظالم کا شکار تھے۔امریکہ میں سول رائٹس تحریک کے سیاہ فام لیڈر مگر میلکم ایکس پر شدید تنقید کرتے۔ ان کہنا تھا کہ میلکم تشدد آمیز طریقے اختیار کرکے کبھی اپنی منزل نہیں پاسکتے۔ میلکم نے جواب میں انہیں سفید فام اسٹیبلشمنٹ کے ہرکارے قرار دیا جو حکمرانوں کے مفادات کی تکمیل کررہے تھے۔ حکومت وقت کی نظروں میں تو میلکم ایکس ایسے خطرناک سیاہ فام لیڈر بن گئے جو ضرورت پڑنے پر ریاست کے خلاف ہتھیار بھی اٹھاسکتا تھا۔ اسی لیے امریکی خفیہ ایجنسی، ایف بی آئی میلکم کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے لگی۔

حج کو روانگی
میلکم ایکس اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے بھر پور جدوجہد کررہے تھے کہ ان کی راہ میں انوکھی رکاوٹیں در آئیں۔ ہوا یہ کہ ان کا نیشن آف اسلام کے سربراہ، عالیجاہ محمد سے ٹکرائو ہوگیا۔ دراصل 1962ء تک میلکم ایکس تنظیم کے مقبول ترین رہنما بن چکے تھے۔ ان کی شہرت و عزت دیکھ کر عالیجا محمد میلکم سے حسد کرنے لگا۔ اسے یہ خطرہ بھی محسوس ہوا کہ میلکم تنظیم کا سربراہ بن سکتا ہے۔ اسی لیے وہ میلکم کی سرگرمیاں محدود کرنے لگا۔اسی دوران میلکم پر افشا ہوا کہ عالیجاہ ایک عیاش و بدکار آدمی ہے۔ اس نے اپنی سیکٹریوں سے ناجائز تعلقات استوار کررکھے تھے۔ تعلقات کے نتیجے میں اولاد نے بھی جنم لیا۔

جب میلکم کو یہ حقیقت معلوم ہوئی تو وہ بھونچکا رہ گئے۔ انہوں نے نیشن آف اسلام میں اس لیے شمولیت اختیار کی تھی کہ تنظیم ہر رکن پر زور دیتی تھی کہ وہ شرو بدی کی تمام سرگرمیاں تج کر خیرو نیکی کو اپنالے۔ گناہوں سے دور رہے اور اچھائی کے کام انجام دے۔ انہی نظریات کی وجہ سے میلکم نے نشے کی اپنی لت پر قابو پایا اور حتی الامکان نیکی و خیر کے کام انجام دینے لگے۔ تنظیم کے نظریات میں موجود اسلامی تعلیمات نے انہیں روحانی و جسمانی طور پر صفائی و پاکیزگی کا خوگر بنادیا۔اب عالیجاہ محمد ایک بے راہرو لیڈر کی صورت نمایاں ہوا، تو میلکم ایکس کو سخت دھچکا لگا۔ انہوں نے اپنے آئیڈیل کا جو پیکر تراش رکھا تھا، وہ پاش پاش ہوگیا۔ چناں چہ 8 مارچ 1964ء کو میلکم نے نیشن آف اسلام سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔

پچھلے دو تین سال کے دوران مصر، لیبیا، سوڈان وغیرہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان سیاہ فام میلکم ایکس کے واقف کار بن چکے تھے۔ انہوں نے میلکم کو سنی اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کیا جو انہیں بہت پسند آئیں۔ اب وہ مسلم ممالک جاکر اسلام سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے اگلے ہی ماہ مشرق وسطیٰ جانے کا فیصلہ کرلیا۔میلکم ایکس سب سے پہلے قاہرہ پہنچے۔ وہاں سے انہیں جدہ جانے والی پرواز پکڑنی تھی۔ ہوائی اڈے پر ہی انہیں دین اسلام میں مساوات، بھائی چارے اور باہمی محبت کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا۔ کئی یورپی ممالک اور افریقی ممالک سے ہزارہا حاجی قاہرہ ہوائی اڈے پہنچے ہوئے تھے تاکہ جدہ جاسکیں۔ ان میں کالے تھے اور گورے بھی، بدشکل تھے اور خوبصورت بھی، غریب تھے اور امیر بھی… مگر سب آپس میں گھل مل گئے اور عزت و احترام سے باتیں کرنے لگے۔ اس نظارے نے میلکم ایکس کو مبہوت کردیا۔ بیگم کے نام اپنے ایک خط میں انہوں نے لکھا:’’ہوائی اڈہ حاجیوں سے کچھا کھچ بھرا ہے۔ ان میں کالے، گورے، گندمی سبھی لوگ شامل ہیں مگر مجھے کہیں تنائو اور نفرت نظر نہیں آئی۔ ماحول میں گرم جوشی اور دوستی کے جذبے نمایاں ہیں۔ تبھی مجھے احساس ہوا کہ یہاں تو رنگ یا نسل کا کوئی جھگڑا ہی نہیں۔ یہ جان کو مجھے لگا جیسے میں کسی قید خانے سے نکل کر کھلی فضا میں آگیا ہوں۔‘‘

قاہرہ ہی میں دیگر حاجیوں کے مانند میلکم نے احرام باندھا۔ انہوں نے اپنا ٹریڈ مارک کوٹ پتلون اتارا اور دو کپڑوں پر مشتمل سفید احرام باندھ لیا۔ وہ خط میں لکھتے ہیں’’ ہوائی اڈے پر ہزاروں لوگ جمع تھے اور سب نے سفید لباس زیب تن کررکھا تھا۔ اب کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ دوسرا شخص بادشاہ ہے یا فقیر۔‘‘ ساتھی حاجیوں نے امریکی سیاہ فام لیڈر کو بتایا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے سبھی مسلمان برابر ہوجاتے ہیں۔ تب صرف تقویٰ ان کے مابین تمیز پیدا کرتا ہے۔مکہ معظمہ میں میلکم ایکس کو حاجیوں کا کہیں بڑا مجمع دکھائی دیا۔ اس میں ہر رنگ، نسل، سائز اور ہئیت کے مردو عورتیں شامل تھے۔ حج سے قبل اور بعد کے مشاہدات اور تجربات نے امریکی سیاہ فام لیڈر کی ذہنیت ہی بدل ڈالی۔ سب سے بڑھ کر حقیقی اسلامی تعلیمات نے انہیں ایک انتہا پسند انسان کے بجائے اعتدال پسند اور متعدل مزاج مسلمان کا انمول روپ دے ڈالا۔ انہوں نے اپنے ایک خط میں لکھا:

’’امریکا کے لیے اسلام کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہ واحد مذہب ہے جو معاشرے سے کالے گورے اور امیر غریب کی تفریق مٹاڈالتا ہے۔ مجھے اب احساس ہوا ہے کہ سفید فام خلقی طور پر شیطان نہیں بلکہ امریکی معاشرے کے نسلی دبائو انہیں شیطانی حرکات کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔‘‘

دوران حج میلکم نے اس بات کا عملی مظاہرہ دیکھا کہ اسلام ہر رنگ و نسل، زبان اور طبقے کے مسلمانوں کو متحد کردیتا ہے۔ انہیں کالے، گورے ایک ہی برتن سے کھانا کھاتے نظر آئے۔ امریکا میں تو سفید فاموں نے سیاہ فاموں کے لیے ہر ہوٹل میں علیحدہ جگہیں بنارکھی تھیں۔ سیاہ فام صرف انہی مقامات پر کھانا کھاسکتے تھے۔ حتیٰ کہ ہوٹلوں میں سیاہ فام مختلف جگہ سے پانی پیتے ۔ میلکم کو یہ بھی دکھائی دیا کہ سبھی حاجی ایک دوسرے کی چیزیں استعمال کررہے ہیں اور کوئی اظہار ناراضی یا خفگی نہیں دکھاتا۔ باہمی عزت و احترام اور محبت اپنے عروج پر تھی۔غرض محبت، اپنائیت اور انسانیت کے اعلیٰ ترین جذبات سے معمور اسلامی تعلیمات نے میلکم ایکس کے دل و دماغ سے نفرت و دشمنی کا میل کچیل اتار ڈالا۔وہ اب ایک بالغ نظر شخص اور سچے پکے مسلمان بن گئے جو جھوٹ اور سچ کے مابین بخوبی تمیز کرسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے، میلکم ایکس مئی 1964ء میں امریکا پہنچے تو وہ بالکل مختلف انسان تھے۔ ایک ہی حج نے ان کی کایا پلٹ ڈالی تھی۔

شہادت کا درجہ پایا
اب میلکم سول رائٹس موومنٹ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے۔ انہوں نے مارٹن لوتھر کنگ اور دیگر سیاہ فام لیڈروں پر تنقید کرنا بند کردی۔ باشعور سفید فاموں کی طرف بھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا تاکہ وہ امریکی معاشرے سے نسلی تعصب اور نفرتوں کا خاتمہ کرسکیں۔اب صرف انتہا پسند سفید فاموں کا طبقہ ان کی تنقید کا نشانہ بن گیا۔ یہ طبقہ ہر حال میں امریکا میں سفید فام سپرمیسی برقرار رکھنے کا خواہش مند تھا۔سول رائٹس تحریک کے لیڈروں نے میلکم ایکس میں درآنے والی تبدیلی کا خیرمقدم کیا۔ دراصل میلکم عام سیاہ فاموں میں بہت مقبول تھے کیونکہ وہ کھل کر، خوفزدہ ہوئے بغیر سفید فام اسٹیبلشمنٹ پر گرجتے، برستے تھے۔ لہٰذا رہنمائوں کو یقین تھا کہ میلکم کی شمولیت سے سول رائٹس تحریک مزید طاقتور اور مؤثر ہوجائے گی۔ عام سیاہ فام بھی بڑھ چڑھ کر اس کی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے۔مشہور سیاہ فام ناول نگار، جیمز بالڈوین کا کہنا تھا ’’صرف میلکم ایکس سیاہ فاموں کے دکھ درد کو سمجھتا ہے۔ وہ بلا خوف و خطر سچائی بیان کرتا ہے۔‘‘

امریکی سیاہ فاموں کو یقین تھا کہ میلکم ایکس حقوق کی جدوجہد میں موثر کردار ادا کریں گے مگر حاسدوں نے جوانی میں انہیں قتل کردیا۔ 21 فروری 1965ء کو میلکم ایک تقریب سے خطاب کررہے تھے کہ حملہ آوروں نے گولیاں مار کر انہیں شہید کرڈالا۔ انہیں اپنی شہادت کا پہلے ہی علم تھا۔ اسی لیے اکثر وہ گن سنبھال کر اپنے اہل خانہ کی چوکیداری کرتے نظر آتے۔ میلکم کو یقین تھا کہ وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے خطرہ بن چکے۔ آخرکار اس نے انہیں راہ سے ہٹا دیا ۔میلکم ایکس کا خون رائیگاں نہیں گیا اور امریکا میں سول رائٹس تحریک میں تیزی آگئی۔ 1968ء میں مارٹن لوتھر کنگ بھی قتل کردیئے گئے۔ اسی سال امریکی حکمرانوں کو مجبوراً سول رائٹس ایکٹ منظور کرنا پڑا۔ یوں چودہ سالہ تحریک کامیابی سے انجام کو پہنچی۔ اس کامیابی کی خاطر میلکم ایکس اور مارٹن لوتھر کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔اگرچہ امریکا میں صدر ٹرمپ جیسے سفید فام سپرمیسی پہ یقین رکھنے والے رہنما آج بھی سیاہ فاموں پر زبانی کلامی اور جسمانی حملے کرتے رہتے ہیں۔

حج مبارک نے شہید ملکم ایکس کو عالمی پائے کا مدبر اور دانشور بنادیا تھا۔ اگر وہ زندہ رہتے تو امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے بھی کوشاں رہتے۔ مگر افسوس، ظالم استعمار نے ان کی جان لے لی۔ میلکم نے ’’دی روٹس‘‘ ناول لکھنے والے مشہور صحافی و لکھاری، آلکس ہیلی کی مدد سے اپنی آپ بیتی لکھی تھی۔ یہ سبق آموز، حیران کن اور دلچسپ واقعات سے بھرپور کتاب ہے۔ 1998ء میں رسالہ ٹائم نے میلکم ایکس کی آپ بیتی کو بیسویں صدی کی دس بااثر ترین کتب میں شامل کیا ۔ یہ کتاب عیاں کرتی ہے کہ کیونکر اسلامی تعلیمات اور خصوصاً حج مبارک نے ایک انتہا پسند اور متشدد سیاہ فام لیڈر کو معتدل مزاج اور افہام و تفہیم اپنالینے والا انسان بنا ڈالا۔خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو حج کی بدولت ہدایت پا لیں۔ اللہ تعالی نے سورہ بقرہ آیات 200 ۔201 میں فرمایا ہے:’’جب ارکان حج ادا کر لو تو اللہ کو یاد کرو۔تب لوگوں میں سے بعض کہتے ہیں،اے رب،ہمیں دنیا ہی میں (اچھا)دے دے اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو۔اور وہ (مسلمان )بھی ہے جو کہتا ہے،اے میرے رب،ہمیں دنیا میں اچھا دے،آخرت میں بھی اور ہمیں (دوزخ)کی آگ سے بچا۔‘‘

میلکم ایکس نے کہا
٭… مشکل اور رکاوٹ کو اپنا دشمن مت سمجھئے۔ ہر شکست، ہر صدمہ، ہر نقصان اپنا سبق رکھتا ہے جس کی مدد سے انسان خود کو بہتر بناسکتا ہے۔
٭… تعلیم مستقبل کا پاسپورٹ ہے۔ مستقبل انہی لوگوں کا ہے جو آج تیاری کرلیں۔
٭… جو انسان کسی مقصد کے لیے کھڑا نہیں ہوتا اسے معمولی چیز بھی گرا دے گی۔
٭… اگر آپ کا کوئی ناقد نہیں تو سمجھ لیجیے کہ آپ کوئی کامیابی بھی نہیں پاسکتے۔
٭… ایک دانش مند مسخرا بن سکتا ہے مگر ایک مسخرا کبھی دانشور نہیں بن پاتا۔


٭… تاریخ بنی نوع انسان کی یادداشت کے مانند ہے اور یادداشت کے بغیر انسان حیوان بن جاتا ہے۔
٭… اگر تمہارے پاس بندوق ہے تو میرے پاس بھی ہونی چاہیے۔ تم کتا پالتے ہو، تو مجھے بھی پالنے کا حق ملنا چاہیے۔ تم ڈنڈا رکھتے ہو، تو میرے پاس بھی ہونا چاہیے۔ اسی کو مساوات کہتے ہیں۔
٭… سفید فاموں کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ بلٹ (گولی) چاہتے ہیں یا بیلٹ (ووٹ)۔
٭… میری مادر علمی کتابیں ہیں، ایک اچھی لائبریری… میں اپنے تجسس کی تسکین کے لیے ساری عمر مطالعہ کرتے بیتا سکتا ہوں۔
٭… مجرم ہونا ذلت کی بات نہیں، مجرم بنے رہنا توہین آمیز ہے۔
٭… عدم تشدد اس وقت تک بھلا ہے جب تک کام دیتا رہے۔
٭… طاقت کبھی پیچھے نہیں ہٹتی، وہ صرف مزید طاقت مانگتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔