پاکستانی فوجیوں کی عظیم مائیں

سید امجد حسین بخاری  پير 19 اگست 2019
پاکستانی مائیں اپنے شہید بچوں کے جسد خاکی کا استقبال پھولوں سے کرتی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستانی مائیں اپنے شہید بچوں کے جسد خاکی کا استقبال پھولوں سے کرتی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ اپنی مٹی کو اپنے لہو سے سیراب کرنے کے علاوہ کسی سپاہی کےلیے قابل فخر کوئی اعزاز نہیں ہوتا؟ تمھیں اندازہ ہے کہ جب پاسنگ آؤٹ پریڈ ہوتی ہے تو ’اے مرد مجاہد جاگ ذرا‘ کی دھن بجتے ہی جی کرتا ہے کہ اپنی گن اٹھاؤں اور ملک دشمنوں پر کہر بن کر ٹوٹ پڑوں؟ تم نے کبھی سوچا ہے کہ تمھاری لاش سبز ہلالی پرچم میں لپٹی ہوئی آئے اور سارا گاؤں تمھیں سلیوٹ کررہا ہو؟‘‘

یہ کچھ سوالات تھے جو کاکول سے فارغ التحصیل میرے دوست لیفٹیننٹ نوید کے تھے۔ ہماری دوستی کا آغاز راولپنڈی کے ایک پی سی او سے ہوا، جہاں وہ آئی ایس ایس بی ٹیسٹ کی تیاری کے دوران اپنا خرچہ چلانے کےلیے کام کرتا تھا اور میری بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی۔ نوید کی جس دن سلیکشن ہوئی اس نے سب سے پہلے مجھے خوشخبری سنائی۔ پھر پاسنگ آؤٹ کے بعد مختلف ذمئ داریاں نبھاتا رہا۔ اس کے ذہن پر بس ایک دھن سوار تھی، اپنی دھرتی کو دشمن کے ناپاک قدموں سے گندا نہیں ہونے دوں گا، چاہے اس کےلیے مجھے اپنی جان کی قربانی کیوں نہ دینا پڑے۔ وقت گزرتا گیا لیکن ہماری دوستی قائم رہی۔ پھر ایک دن خبر ملی کہ نوید نے اپنا وعدہ نبھادیا۔

یہ داستان صرف ایک سپاہی کی کہانی نہیں، اس وطن کا ہر جوان اپنے دیس پر مر مٹنے کی خاطر وردی زیب تن کرتا ہے۔ ماں جس کو اپنا لخت جگر عزیز از جان ہوتا ہے، وہ دھرتی ماں پر انہیں نثار کرنے کو تیار ہوتی ہیں۔

ہمارے گاؤں میں ایک جوان شہید ہوگیا، جس کی شادی میں صرف آٹھ دن باقی تھے۔ نوجوان کا جسد خاکی جب گھر کی دہلیز پر پہنچا تو اس کی ماں نے لاش کے ساتھ آنے والے افسروں اور جوانوں سے ایک سوال پوچھا کہ مجھے بتائیں میرے بیٹے کو گولی کہاں لگی ہے؟ جب انھیں بتایا گیا کہ عظیم ماں تیرے لعل نے سینے پر گولی کھائی ہے تو اس نے ’’الحمدللہ‘‘ کہا اور لاش کو گھر کی دہلیز پار کرائی۔ زیادہ دور کی بات نہیں، ابھی کل ہی کی تو بات ہے لانس نائیک تیمور ارض مقدس پر قربان ہوا۔ لاش گھر آئی، صبر و استقامت کا پہاڑ بنی ماں نے جسد خاکی کو سلام پیش کیا اور کہنے لگی کہ میرے سات بیٹے بھی ہوتے تو اس وطن پر قربان کردیتی۔

یہ داستان ہر پاکستانی ماں کی ہے۔ ہر ماں کی خواہش ہے کہ اس کا بیٹا اپنے دیس کا سپاہی بنے۔ پاکستانی قوم ہی درحقیقت موت کے خوف سے آزاد قوم ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کے دوران بھارتی سیاستدان زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ اپنے سورماؤں اور اسلحے کے زور پر کچھ زیادہ ہی لمبی چھوڑ دیتے ہیں۔ قول ہے کہ جنگیں ہتھیاروں سے نہیں، حوصلے، ہمت اور جذبات کے ساتھ لڑی جاتی ہیں۔

گزشتہ دنوں ایک بھارتی تجزیہ کار کو سن رہا تھا، موصوف فرما رہے تھے کہ پاکستانی تو ہیں ہی موت کے خوف سے آزاد قوم، وہ میدان جنگ میں جذبہ شوق شہادت لیے اترتے ہیں۔ یقیناً وہ سچ کہہ رہے ہیں کیوں کہ پاکستانی قوم ہی ہے جو دہشت گردی کے خلاف 70 ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ اور اربوں ڈالر کی املاک قربان کرکے آج بھی ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑی ہے۔

ایک بیان بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی دیا، جو کہہ رہے تھے کہ بھارت ایٹم بم چلانے میں پہل کرسکتا ہے۔ وہ شاید یہ بھول رہے ہیں کہ ایٹم بم چلانے سے بھارت کا بھی اتنا ہی نقصان ہوگا جتنا پاکستان کو ہوگا۔ وہ اس بات سے بھی لاعلم ہیں کہ پاکستان بھی ایک ایٹمی طاقت ہے اور اس نے بھی ایٹم بم عید اور شب برات پر چلانے کےلیے نہیں رکھے۔

راج ناتھ گزشتہ دور میں وزیر داخلہ رہ چکے ہیں۔ ان کے دور میں بھارت میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا، خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات 79 فیصد بڑھے، اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات معمول بن گئے۔ جناب آپ سے تو وزارت داخلہ نہیں سنبھلی، آر ایس ایس کے انتہاپسند قابو میں نہیں آئے، جنسی بھیڑیے آؤٹ آف کنٹرول ہوگئے اور اب آپ ایٹم بم چلانے نکل پڑے ہیں۔ عالی مرتبت! شوق سے چلائیں آپ ایٹم بم، پھوڑیں اپنے میزائل بھی، لیکن ایک نظر ڈوبتی معیشت، بیروزگاری، عدم برداشت اور جبر کے باعث سفارتی تنہائی پر بھی ڈال لیجئے۔ اپنے فاقہ زدہ کسان کو بھی دیکھ لیں، ناگالینڈ، خالصتان اور کشمیر میں ابھرتی ہوئی علیحدگی کی تحریکوں پر بھی غور کرلیجئے۔ جناب عالی! یہ سب آپ کی ریشہ دوانیوں، ناکامیوں اور ریاستی جبر کے باعث ہوتا ہے۔ دیوانے کے خواب اور احمقوں کی جنت سے ایک بار باہر آجائیں تو یہ شوق بھی پورا کرلیجئے۔

راج ناتھ صاحب! پاکستانی مائیں اپنے شہید بچوں کے جسد خاکی کا استقبال پھولوں سے کرتی ہیں۔ آپ تو وزیر داخلہ بھی رہے ہیں، آپ کو تو یاد ہی ہوگا ناں کہ کیسے بھارتی سورماؤں کی مائیں اپنے بیٹوں کی لاشوں پر ہاتھ اٹھا اٹھا کر آپ جیسے نیتاؤں کو بددعائیں دیتی ہیں؟ آپ کے علم میں یہ بھی ہوگا کہ آپ کے جوان سرکار سے کیسے شکوہ کناں رہتے ہیں۔ کیسے دال اور مرغن غذاؤں کے معیار آفیسرز اور جوانوں میں آپ نے طے کر رکھے ہیں؟ جب آپ کا جوان ہی سرکار سے مطمئن نہیں ہے تو عالی مرتبت یہ کیسی چودھراہٹ اور یہ کیسے چوپڑہ اور دو دو کھانے کے سپنے؟

مہاراج دھیرج رکھئے! پہلے اپنے دیس کے جوانوں سے ہی پوچھ لیں کہ وہ آرمی میں کیوں نہیں جانا چاہتے؟ جب اس سوال کا جواب مل گیا تو پھر کسی بھی مہم جوئی کا سوچئے گا؟ یاد رکھئے! پاکستانی سرحدوں کے نگہبان ان ماؤں کے سپوت ہیں جو اپنے لاڈلوں کو دیس پر قربان کرنے کےلیے جوان کرتی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید امجد حسین بخاری

سید امجد حسین بخاری

بلاگر میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر Amjadhbokhari پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔