انتظامی تبدیلی ناگزیر ہے

مقتدا منصور  اتوار 22 ستمبر 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

معاملہ صرف کراچی میں بدامنی اور جرائم تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ ملک کے ہر حصے میں کہیں کم اورکہیں زیادہ امن وامان کی صورتحال مخدوش اور جرائم کی شرح میں روز اضافہ دیکھنے میں آرہاہے۔اس صورتحال کابنیادی سبب پولیس سمیت شہری انتظامی محکموں اور نچلی سطح پر عدالتی ڈھانچے کی کی محکمہ جاتی فرسودگی ہے۔ قانون شہادت میں سقم کے باعث سابق صدر پرویزمشرف پر حملے کا ملزم رانافقیر مناسب ثبوت نہ ہونے کی بنا پر8برس بعد رہا ہوگیا۔ لاہور میں کم سن بچی کے ساتھ زیادتی کرنے والے ملزم ابھی تک قانون کی گرفت میں نہیں آسکے ہیں۔ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے بارے میں مختلف حلقوں کی جانب سے تحفظات سامنے آرہے ہیں۔ گزشتہ بدھ کو پیپلز پارٹی کے رہنماء ظفر بلوچ کولیاری میں ان کے گڑھ میں قتل کردیا گیا۔

اظہاریے کے ابتدائیے میں ہم نے چند واقعات نقل کیے ہیں۔یہ حالیہ دنوں میں رپورٹ ہونے والے کچھ واقعات ہیں۔ حالانکہ ایسے اور ان سے زیادہ سنگین نوعیت کے واقعات ملک بھر میں روزانہ ہوتے ہیں۔یہ واقعات پولیس سمیت شہری انتظامی محکموں کی ناقص کارکردگی اور ادارہ جاتی زبوں حالی کامظہر ہیں۔ پولیس کے اسی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے دیگر تجزیہ نگاروں کے برعکس ہم روزِ اول سے کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے بارے میںاپنے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔ہمیں یہ آپریشن کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا۔  لیاری میں ظفر بلوچ کے قتل نے آپریشن کے بارے میں ہمارے شکوک وشبہات پر مہرثبت کردی ہے۔کراچی میں بدامنی اور مختلف نوعیت کے جرائم پھیلنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔اس کاایک سبب یہ ہے کہ اس شہرکے مسائل کو پیچیدہ بنانے میں وفاقی دارالحکومت میں بیٹھے منصوبہ سازوں اور سیاسی جماعتوں نے نمایاں کرداراداکیا ہے۔ایک طرف اس شہر کو ان گنت سیاسی،سماجی، انتظامی اور معاشی مسائل کا سامنا ہے۔

تو دوسری طرف ایوب خان کے دور میں لگائی گئی نفرتوں کی آگ کو بجھانے کی بجائے ہردور میں کسی نہ کسی شکل میں مزید بھڑکانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ شہر میں لسانی تقسیم کے علاوہ صوبے میں شہری اور دیہی تقسیم بھی اس شہر کے مسائل کے حل میں بہت بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سندھ میں انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی کی کسی بھی تجویز کومختلف لسانی اکائیوں میں بداعتمادی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے،خواہ یہ ختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا معاملہ ہی کیوں نہ ہو ۔ سندھ کے ساتھ کھیلے جانے والے اس کھیل کو مختلف شراکت دار یا تو سمجھ نہیں پا رہے یا دانستہ صرفِ نظر کررہے ہیں۔ بہرحال سبب کچھ ہی کیوں نہ ہو،یہ رویے صائب حل تک پہنچنے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔  اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جن مسائل اور معاملات سے کراچی گزشتہ تین دہائیوں سے دو چار چلا آرہا ہے، ملک کے دیگر شہر بھی جلد یا بدیر اسی نوعیت کے مسائل کاشکار ہونے جارہے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ ملک میں تیزرفتاری کے ساتھ ہونے والی اربنائزیشن ہے ۔جس کے نتیجے میں  شہروں پر آبادی کے دبائو میں اضافہ ہورہا۔شہروں کی طرف آبادی کا بہائو روزگار کے بہتر مواقعے کی تلاش ہے۔شہروں میں معاشی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے جدید صنعتی اور شہری انفرا اسٹرکچرکے ساتھ امن وامان کی بہتر صورتحال بھی کلیدی کردار اداکرتی ہے۔بڑے شہروں خاص طورپر میٹروپولیٹن حیثیت کے حامل شہروںکا نظم ونسق چلانے کے لیے جدیدا ورفعال انتظامی ڈھانچے کی ضرورت ہوتی ہے۔جب کہ پاکستان میں دیہی، شہری اور میٹروپولیٹن آبادیوں کو ڈیڑھ سوبرس پرانے نوآبادیاتی انتظامی ڈھانچے کے ذریعے چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔جس کی وجہ سے روزگار کے ذرائع پھیلنے کی بجائے سکڑ رہے ہیں۔

لہٰذا ان شہروں کے مسائل کے انبار میں اضافہ ہورہاہے۔برٹش انڈیا میں انگریز حکمرانوں نے1940ء کے عشرے میں تین شہروں ممبئی، کولکتہ اور چنائے(سابقہ مدراس) کومیٹروپولیٹن کا درجہ دے کر وہاں پولیس کمشنریٹ قائم کیا تھا، تاکہ شہر کاانتظام ایک نیم خود مختار مقامی انتظامی ڈھانچہ کے سپردکیا جاسکے۔آزادی کے بعد بھارت ہر مردم شماری کے بعد ان شہروں کو میٹرو پولیٹن کا درجہ دے کر پولیس کمشنریٹ قائم کرتاہے، جن کی آبادی 10 لاکھ یااس سے اوپر ہورہی ہو۔اس وقت تک تین درجن سے زائد شہرمیٹروپولیٹن بن چکے ہیں اور2021ء میں ہونے والی نئی مردم شماری کے بعد مزید 8سے10شہر ںکے میٹروپولیٹن بننے کا امکان ہے۔دوسری بات یہ کہ ممبئی بھارت کا ایک انتہائی پرآشوب شہر رہاہے۔ وہ کولکتہ اور چنائے کی طرح کبھی پرسکون نہیں رہا۔بھارت کی حکومت نے1982ء میں ہونے والے لسانی فسادات اور1992ء کے بم دھماکوں کے بعد شہر کے انتظامی ڈھانچے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کی اور پولیس کو مزید بااختیار بنایا ہے۔جس کے بعد اس شہر کا کنٹرول خاصا آسان ہوا ہے۔

اس کے برعکس پاکستان میں اس وقت 8شہر ایسے ہیں، جن کی آبادی 10لاکھ سے تجازو کرچکی ہے۔جن کے لیے ایک علیحدہ انتظامی ڈھانچہ ضروری ہوچکاہے۔مگر کراچی اور لاہور سمیت کسی بھی شہر کے لیے علیحدہ انتظامی ڈھانچہ تشکیل دینے پر توجہ نہیں دی جارہی۔ کراچی کو میٹروپولیٹن کا درجہ دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ سندھ میں سیاسی تقسیم ہے۔اندرون سندھ بعض حلقوں کا یہ تاثر قطعی غلط ہے کہ کراچی کے لیے نیم خودمختار انتظامی ڈھانچے کی تشکیل سے ایم کیو ایم اس انتظامی ڈھانچے پر حاوی ہوجائے گی۔حالانکہ ہر چار برس بعد ہونے والے ان انتخابات میں ہر وہ جماعت ایم کیو ایم کی مقبولیت کو چیلنج کرسکتی ہے، جو اربن مسائل کا ویژن اور انھیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ دوسرے محض کسی ایک سیاسی جماعت کو بنیاد بناکر فرسودہ انتظامی Status quoجاری رکھنے پر اصرار انتظامی فرسودگی میں مزید اضافے کا سبب بنتاہے۔

جس کے نتیجے میں امن وامان کی صورتحال مزید ابترہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ فرسودہ پولیسنگ کے ذریعے امن وامان میں کسی قسم کی بہتری یا مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن نہیں۔لہٰذایہ طے ہے کہ جلد یا بدیرتمام بڑے شہر جو میٹروپولیٹن کے زمرے میں آتے ہیں، ان کے لیے ایک نئے انتظامی ڈھانچہ تشکیل دینا ضروری ہوگیا ہے۔اب یہ سیاسی جماعتوںپر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلے کو جلد حل کرتی ہیں یا تاخیری حربوں سے انتظامی ڈھانچے کو مزید فرسودگی کا شکار کرتی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے دبائو میں ہر صوبے نے نومبر تک بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے پرویز مشرف کے متعارف کردہ مقامی حکومتی نظام  کو رد کرتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کے بلدیاتی نظام کوانیس بیس کے فرق سے قبول کرلیا ہے۔ دراصل مقتدر سیاسی جماعتوں کے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کے منھ کو ترقیاتی فنڈ کا چسکا لگ چکاہے،اس لیے وہ کسی قسم کا بااختیار مقامی حکومتی نظام قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔دوسرے ہر صوبے میں الگ بلدیاتی نظام بھی کئی پیچیدہ مسائل اور قانونی موشگافیاں پیدا کرنے کا سبب بن جائے گا۔

حالانکہ ہونایہ چاہیے تھا کہ تمام صوبے وفاق کی معاونت سے ایک ایسا تمام تشکیل دیتے جو تمام صوبوں میں یکساں طورپر پورے ملک میںنافذ ہوسکتا، جیسا کہ بھارت میں ہے۔اس سلسلے میںسیاسی جماعتیںاگر سیاسی عزم وبصیرت کامظاہرہ کرتیںتو وہ جنرل ضیاء الحق  کے بلدیاتی نطام کی جگہ جنرل پرویز مشرف کامقامی حکومتوں کا نظام کو بعض کلیدی اصلاحات کے بعدنافذ کرنے کی کوشش کرتیں، تو اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی توقع کی جاسکتی تھی۔چیف جسٹس سپریم کورٹ بھی نچلی سطح پر ایک ایسے نظام کے متعارف کرائے جانے کے خواہشمند نظر آتے ہیں، جو اپنی انتظامی بااختیاریت کے ذریعے دہشت گردی اور امن وامان کی مخدوش صورت حال پر قابو پاسکے۔جب کہ جنرل ضیاء کا بلدیاتی نظام نچلی سطح پر کسی قسم کی بااختیاریت نہیں دیتا۔

کراچی سمیت ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میںقیام امن کی خواہش یاحکومت کی نیک نیتی پر شک نہیں۔مگرقیام امن کے لیے وہ جو طریقہ کار اکیسویںصدی میں اختیار کررہے ہیں، اس سے امن وامان کی صورتحال میں کسی قسم کی بہتری کاکوئی امکان نظر نہیں آرہا۔بہتر یہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں سرجوڑ کربیٹھیں اور ملک میں جمہوری اقدار کو مزید مستحکم کرنے اور عوام کی بااختیاریت کو مہمیز لگانے کے لیے اقتدار واختیار کا تیسرا درجہ متعارف کرائیں ۔اس کے علاوہ حکمرانی میں بہتری کا کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔