اخوت کا سفر، ایک کتاب کئی کہانیاں

اسلم خان  اتوار 22 ستمبر 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

اخوت کا سفر، یہ آپ بیتی ہے۔ جگ بیتی گزشتہ ایک دہائی سے مایوسیوں کی اتھاہ گہرایوں میں غرق پاکستان کی کہانی ہے۔ اس کے بے نوا، بے بس اور لاچار اور غریبوں کی داستان ہے۔ ڈاکڑ امجد ثاقب نے صرف خلوص نیت اور جہد مسلسل سے ناقابل یقین معجزہ کر دکھایا ہے۔ غریبوں کو بلا ضما نت اور بلاسود قرضے دینے اور اس سلسلہ کو کامیابی سے چلنے کا معجزہ جس نے ظالم سرمایہ دارانہ نظام کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔ اخوت کا سفر ہر اس شخص کو پڑھنا لازم ہے جو پاکستان کے حالات کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہے۔

اس کتا ب میں بکھر ے ہو ئے چھوٹے چھوٹے جملوں کو جو کہ باہم مربوط بھی نہیں۔آپ کی نذر ہیں۔

سفر خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، سفر سے قبل کی کشمکش سفر سے زیادہ طویل ہوتی ہے۔ سارے ہی درخت گیان دیتے ہیں خواہ وہ برگد کے ہو ں یا کو ئی اور۔ غربت کاروبار سے ختم نہ ہو گی ایثار سے ختم ہو گی۔ کام کو کاروبار نہیں بنانا چاہیے اور نہ ہی کیپیٹل ازم کو یہ اجازت ملنی چاہیے کہ وہ مائیکروفنانس کو اپنا مہرہ بنا کر غریبوں کو شہ مات دید ے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں غریبوں کے ساتھ لین دین کاروباری اصولوں کی بنیاد پر نہیں کرنی چاہیے۔

ہم مستحق لوگوں کے قرضوں کے لیے حکومت سے کوئی امداد نہیں لیتے اور نہ ہی ڈونر ایجنسیوں اور عالمی اداروں سے بھیک مانگتے ہیں۔ ہمارے خیال میں غربت کا خاتمہ حکومت سے پہلے معاشر ے کی ذمے داری ہے۔ مسجد محض ایک عبادت گاہ ہی نہیں اسے غربت کے خاتمہ اور سماجی ترقی کا مرکز بنایا جا سکتا ہے۔

امریکا امکانات کی سرزمین ہے۔ محنت کی عادت ہو تو ترقی کے دروازے کھلتے چلے جا تے ہیں۔ غربت کیا ہے دولت کا نہ ہونا، علم کا نہ ہونا، روزگار کا نہ ہونا، گھر بار یا دوست احباب کا نہ ہونا۔ اگر یہ سب غربت ہے تو ان کے پاس تو اس میں سے کوئی بھی شے نہیں۔ یہودی وہیں بستے ہیں جہاں دولت بستی ہے۔ عبادت گاہیں عجائب گھروں میں تبدیل ہونے لگیں تو اقدار کا مٹنا ٹھہر جاتا ہے۔ دنیا کی تگ ودو میں خدا کہیں پیچھے رہ گیا۔

مجنوں کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے زندگی میں اور تو کچھ نہ کیا البتہ لڑکوں کے لیے ایک کھیل ایجاد کر گیا جس کا نام عشق رکھا۔ ایسا ہی ایک کھیل کمپیوٹر بھی ہے جو بھی اس سے متعارف ہوا اسی کا ہو کے رہ گیا۔ “یہ شاعر بھی کیا خوب لوگ ہیں۔ ہر وقت خواب بُنتے ہیں، خواب بنتے نہیں” خواب بُننا اور خواب بننا دو مختلف کام ہیں۔ اخوت خواب بننے کا نا م بھی ہے اور خواب بننے کا بھی ۔۔۔۔ خواب بننے کے معنی ہیں کہ آپ دوسروں کے خواب بن جائیں۔ لوگ انھیں اپنا سمجھ کے ان کی تکمیل کے لیے کمر بستہ ہو نے لگیں لوگ دوسروں کے خواب با آسانی نہیں اپناتے لیکن اگر کسی خواب میں آفاقیت ہو تو ایسا ہو بھی جاتا ہے۔ ہر آنے والی صبح اس امر کا اعلان کر تی ہے کہ خدا ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا اگر خدا مایوس نہیں ہوا تو ہم انسان کے مستقبل سے ناامید کیوں ہیں آئو کہ کوئی خواب بنیں کل کے واسطے۔ زندگی خواب بننے خواب دیکھنے کا عمل ہے۔

جو لوگ گھر کی قدر نہیں کرتے انھیں کبھی کبھار ایسے سفر پہ ضرور جانا چاہیے جہاں بستر، ناشتہ اور کھانا خود بنانا پڑے غربت کے خاتمہ اور خوشحالی کے سفر میں حکومت سے کہیں زیادہ، اہم کردار تاجروں کا ہے لیکن ہم نے تا جر کمیونٹی کو کو ئی بلند مقام ہی نہیں دیا۔ ہم ابھی تک ایک قبائلی اور جاگیردار معاشر ے کے عذاب سے باہر نہیں نکلے۔ منزل بدل جائے تو راستے بھی بدل جاتے ہیں۔ جنون کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ کوئی اور شے یاد نہ رہے۔ مشقت کرنے والے ہاتھ بہت تھے اور آرزو بھی بہت مگر سرمایہ نہیں تھا۔

مشہور کتا ب  Uncle Tom’s Cabin  کا شمار ان کتابوں میں ہوتا ہے جو تبدیلی اور انقلا ب کا پیش خیمہ بنتی ہیں۔ اس کتاب نے غلامی کے مسئلہ پر امریکی ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا۔ بہت کم کتابوں نے انسانی تاریخ کو اس قدر متاثر کیا ہو گا۔ یہ کتا ب ان سیاہ فا م افراد کی کہانی ہے۔ جو غلامی کی زنجیر میں جکڑے گئے اور پھر نسل در نسل ظلم کا شکار ہوتے رہے۔ جو لوگ انسانی معاشروں پر ادب کے اثر سے نا آشنا ہیں انھیں یہ کتا ب ضرور پڑھنی چاہیے۔ اس کتا ب میں آنسو ہی نہیں ظلم کے خلا ف نفرت بھی ہے اور تبدیلی کی امنگ بھی۔ امریکا میں غلامی  کے خلاف جنگ کی ایک وجہ یہ کتاب بھی ہے۔ اس مصنفہ کو ابرہام لنکن نے پہلی بار دیکھا تو یہ مشہور فقرہ کہے بغیر نہ رہ سکا :

So, this is the little lady who started that great war…..

بغاوت کا پہلا انعام تشدد اور دوسرا  انعام موت ہے۔ شکاگو کے ان شہیدوں کا لہو ایک علامت بن گیا۔ یہ علا مت ایک سو سال تک ان کے لہو کو گرماتی رہی۔ اب نہ وہ علا مت ہے اور نہ اس علامت کے علمبردار ہیں۔ سرمائے کی آندھی نے احتجاج کی یہ شمع بھی گل کر دی۔

بقول شخصے غربت صرف دولت سے محرومی نہیں۔ تنہائی بھی تو غربت ہے۔ بھری دنیا میں کوئی شخص آپ کا دوست نہ ہو۔ آپ کا سہارا نہ بنے۔ اشفاق صاحب نے ایک بار کہا تھا کہ ہم سب کوئی ایسا کندھا چاہتے ہیں جس پر سر رکھ کے دو آنسو بہا سکیں وہ کندھا نہ ملے تو ہم غریب ہیں۔ اچھا گرد و نواح اور آرام دہ گھر۔ لوگوں کی آدھی زندگی اس خو اب کا پیچھا کر تے ہو ئے گزر جا تی ہے۔ عقیدت نمائش کا نہیں عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ غربت کا خاتمہ اور ترقی کی بنیاد مکالمہ پر ہے۔ دل کے کواڑ مکالمے سے ہی کھلتے ہیں۔ محرومی کی مہر بھی مکالمے سے ٹوٹتی ہے لوگ اپنی اپنی دنیا میں رہتے ہیں مکالمہ انھیں ایک مقا م پر لے کر آتا ہے۔ ترقی کا خواب اس وقت حقیقت بنتا ہے جب لوگ خود اس خواب میں شریک ہو ں۔ نیکی نیکی کو جنم دیتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ گلا ب بونے کے بعد تھوہڑ کو کاٹنا پڑے۔

“قدرت کا سارا نظام اصولوں کے تابع ہے۔ بڑے آدمیوں کی پیدائش کے بھی کچھ اصول ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قدرت بڑے آدمی کیوں عطا  کر ے ۔۔۔۔۔۔۔ اسے اپنے عطیے کی رسوائی اور بے قدری ناگوار گزرتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔