بنگلادیش سے روہنگیا مسلمانوں کی میانمار واپسی

ایڈیٹوریل  اتوار 18 اگست 2019
بنگلادیش اورمیانمار کی حکومتیں ایک بار پھر ان پناہ گزین روہنگیا مسلمانوں کی واپسی پر بات چیت کے لیے آمادہ ہو گئی ہیں۔ فوٹو : فائل

بنگلادیش اورمیانمار کی حکومتیں ایک بار پھر ان پناہ گزین روہنگیا مسلمانوں کی واپسی پر بات چیت کے لیے آمادہ ہو گئی ہیں۔ فوٹو : فائل

برما میں، جس کا نیا نام میانمار رکھ دیا گیا ہے، وہاں سے مسلح افواج کے ظلم و ستم سے بچنے کی کوشش میں اقلیتی مسلمان جنھیں روہنگیا کہا جاتا ہے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر پڑوسی ملک بنگلادیش میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ انھیں کاکسس بازار کے پناہ گزین کیمپوں میں رکھا گیا ہے، جن کی تعداد 7 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور اب تازہ اطلاعات کے مطابق بنگلادیش اور میانمار کی حکومتیں ایک بار پھر ان پناہ گزین روہنگیا مسلمانوں کی واپسی پر بات چیت کے لیے آمادہ ہو گئی ہیں۔

اس سے قبل بھی آمادگی کا اظہار ہوا تھا مگر وہ بیل بوجوہ منڈھے نہ چڑھ سکی۔ روہنگیا مسلمان دو سال قبل اپنے گھروں اور آبائی علاقے سے نکالے جانے کے بعد بنگلادیش کی طرف آئے تھے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد نے معکوس رخ بھی اختیار کیا اور تھائی لینڈ کی طرف نکل گئے لیکن ان کی تعداد قلیل تھی، جب کہ بنگلادیش میں تو روہنگیا والوں کا پورا شہر آباد ہو گیا۔ میانمار کے سرکاری ترجمان نے کہا ہے کہ دونوں فریق یعنی ان کا ملک اور بنگلادیش دونوں اس بات پر رضا مند ہو گئے ہیں کہ پناہ گزینوں کی واپسی اگلی جمعرات کو شروع ہو جائے گی۔

بنگلادیش میں پناہ گزینوں کے کمشنر ابوالکلام نے بتایا کہ اگر پناہ گزین میانمار واپس جانا چاہیں گے تو انھیں واپس بھجوا دیا جائے گا کسی کے ساتھ زور زبردستی نہیں ہو گی۔

بنگلادیشی کمشنر برائے پناہ گزیناں ابولکلام نے بنگلادیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کاکسس بازار کے مقامی حکام کو آگاہ کر دیا گیا ہے کہ وہ چاروں پناہ گزین کیمپوں میں موجود تمام افراد کے کوائف جمع کریں اور ان کو پہلے سے موجود فہرستوں سے موازنہ کر کے ان کی واپسی کا بندوبست کریں مگر اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر واپسی کے لیے تیار ہونے چاہئیں۔ کسی سے کوئی زبردستی نہیں کی جائے گی۔

کمشنر ابوالکلام نے کہا کہ ان کی حکومت واپس جانے والوں کو تمام سہولتیں فراہم کرے گی۔ لیکن کسی کے ساتھ کوئی زور زبردستی نہیں کی جانی چاہیے۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں کی ہائی کمشنر کیرولین گلوک بھی موجود تھیں۔ برمی روہنگیا مسلمانوں کے لیے یہ اچھی خبر ہے کہ وہ اپنے گھروں میں چلے جائیں گے۔تاہم ان برمی مسلمانوں کی اپنے ملک میں واپسی سے پہلے ان کی حفاظت کا بندوبست کیا جانا انتہائی ضروری ہے۔

روہنگیا مسلمانوں نے برما میں بہت برے دن دیکھے ہیں۔ بنگلادیش کی حکومت کو چاہیے کہ وہ برما میں جانے والے مہاجرین کی حفاظت کے لیے برمی حکومت سے دوٹوک انداز میں بات چیت کرے۔ برما کی حکومت پر اس وقت خاصا عالمی دباؤ موجود ہے۔ اسی وجہ سے وہ برمی مسلمانوں کو واپس لینے کے لیے تیار ہو رہا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔