کوئٹہ کی مسجد میں دہشت گردی

ایڈیٹوریل  اتوار 18 اگست 2019
اس دھماکہ کا شکار بننے والوں میں طالبان سربراہ کا بھائی حمد اللہ اخوند زادہ بھی شامل ہے۔ فوٹو: فائل

اس دھماکہ کا شکار بننے والوں میں طالبان سربراہ کا بھائی حمد اللہ اخوند زادہ بھی شامل ہے۔ فوٹو: فائل

صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاک کی مسجد و مدرسہ میں اگلے روز بم دھماکہ کے نتیجے میں امام مسجد سمیت 4 افراد شہید اور 23  زخمی ہو گئے۔ دہشت گردوں نے امام مسجدکے منبر کے نیچے دھماکہ خیز مواد بھاری مقدار میں نصب کر دیا گیا تھا، جسے نماز جمعہ کے دوران اڑا دیا گیا۔ دوسری اطلاع کے مطابق دھماکہ ریموٹ کنٹرول بم سے کیا گیا جس وقت امام مسجد خطبہ پڑھ رہے تھے۔

اطلاعات کے مطابق نماز کے وقت مسجد میں 200 سے زائد افراد موجود تھے۔مساجدمسلمانوں کے لیے عبادت کے علاوہ دیگر سماجی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں اورچونکہ نمازجمعہ کی مسلمانوں کے لیے خاص اہمیت ہے لہٰذا دہشت گردوں کے لیے نماز جمعہ کے وقت دہشت گردی کی واردات کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

کوئٹہ کے سانحے میں انتظامیہ کی لا پرواہی کاسوال بھی اٹھتا ہے خاص طور پر اس لیے کہ اس علاقے میں دہشت گردی کے واقعات روز مرہ کامعمول بن چکے ہیں اور وقفے وقفے سے ایسی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں، اس لیے نماز جمعہ کے موقعہ پر خصوصی حفاظتی اقدامات کیے جانے چاہیے تھے جن کی ذمے داری قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ہی عاید ہوتی ہے جو اپنی اس اہم ذمے داری کی ادائیگی سے قاصر رہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس دھماکہ کا شکار بننے والوں میں طالبان سربراہ کا بھائی حمد اللہ اخوند زادہ بھی شامل ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس امر کی تحقیق ہونی چاہیے کہ وہ کس حیثیت میں کوئٹہ میں قیام پذیر تھا۔ دہشت گردوں نے دھماکے کے لیے جس موقع کا انتخاب کیا وہ بھی خاص اہمیت کا حامل ہے یعنی ایک پاکستان کا یوم آزادی اور اس سے جڑا ہوا جمعہ مبارک حملے کے لیے بہترین موقع تھا جو دشمن نے اختیار کر لیا گیا۔ اس واردات میںغیرملکی ہاتھ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔