مسائل کا انبار نئے عہدیداروں کا منتظر

میاں اصغر سلیمی  اتوار 18 اگست 2019
قومی کھیل کے وقار کی بحالی کا سخت چیلنج درپیش۔ فوٹو: فائل

قومی کھیل کے وقار کی بحالی کا سخت چیلنج درپیش۔ فوٹو: فائل

وہ بھی کیا دن تھے جب پاکستان ہاکی ٹیم کی عمدہ کارکردگی کا عالمی سطح پر ڈنکا بجتا تھا، دنیا پاکستانی کھلاڑیوں کے غیر معمولی کھیل کی تعریفیں کرتے ہوئے کہتی تھی کہ اگر ہاکی سیکھنی ہے تو پاکستان جاؤ، گرین شرٹس کا 4 بار ورلڈ کپ چیمپئن،3مرتبہ اولمپکس چیمپئن، چیمپئنز ٹرافی3، سلطان اذلان شاہ کپ3، ایشین چیمپئن ٹرافی2 ، ایشیا کپ3، ایشین گیمز8 اور 3 بار ساؤتھ ایشین گیمز کا فاتح ہونا عام بات نہیں ہے۔

یقینی طور پر یہ ریکارڈقابل رشک بھی ہے اور قابل تعریف بھی، ان بڑی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے ہماری ہاکی ٹیم کے مقابلے میں آنے والی ٹیمیں ذہنی طور پر پہلے ہی شکست تسلیم کر چکی ہوتی تھیں، اب نوبت یہ آ گئی ہے کہ 1994کے بعد سے ہم دوبارہ ورلڈ کپ نہیں جیت سکے ہیں، قومی ٹیم کی ناکامیوں کا گراف اس قدر نیچے آن گرا ہے کہ گرین شرٹس کو تاریخ میں پہلی بار 2014ء کے عالمی کپ اور اولمپکس2016 سے بھی باہر ہونا پڑا جبکہ بھارت میں شیڈول ورلڈ کپ میں بھی قومی ٹیم کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جس کی وجہ سے دوسرے کھیلوں کی طرح ہاکی میں بھی ناکامی قومی ٹیم کا مقدر بنی ہوئی ہے،تو جواب صاف اور سیدھا سادھا ہے کہ حکومتی سرپرستی کا نہ ہونا قومی کھیل کے زوال کا سبب بن رہا ہے۔ روزگار کے مواقع نہ ملنے کی وجہ سے نوجوان کھلاڑی اس کھیل کی طرف آنا گوارا نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ ماضی میں کئی عالمی اعزازات اپنے پاس رکھنے والی پاکستانی ٹیم کا اب ایک بھی ٹائٹل پر قبضہ نہیں ہے۔

ہماری ٹیمیں جب بھی انٹرنیشنل ایونٹس میں شکستوں سے دو چار ہوتی ہیں تو کوچز اور ٹیم منیجرز کی طرف سے وہی رٹا رٹایا سبق سننے کو ملتا ہے، تیاری کا زیادہ وقت نہیں مل سکا، ایونٹ میں ٹیم نے عمدہ کھیل پیش کیا، صرف ایک میچ ہارنے کی وجہ سے فیصلہ کن مرحلے تک رسائی حاصل نہ کر سکے، ہمارے پاس بال کا قبضہ 70 سے75 فیصد تک رہا، ہم نے اتنے گول کئے جبکہ ہمارے خلاف اتنے گول ہوئے، ہمارے کھلاڑیوں کے پاس کھیلنے کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، پورے ملک میں گنی چنی آسٹروٹرف ہیں جبکہ ہالینڈ ، جرمنی سمیت دنیا کے وہ ممالک جو پاکستان سے بھی کئی گنا چھوٹے ہیں ان کے پاس سینکڑوں کی تعداد میں آسٹروٹرف موجود ہیں۔

فیڈریشنز تو دور کی بات ان ملکوں کے کلبوں کے پاس بھی فنڈز کی کوئی کمی نہیں ہوتی جبکہ ہمارے مالی معاملات کی صورت حال یہ رہتی ہے کہ بسا اوقات پی ایچ ایف کے پاس چائے تک کے پیسے نہیں ہوتے ، یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن کبھی کسی نے سوچا اور غور کیا کہ جب فیڈریشن کا خزانہ خالی ہوتا ہے تو اسے بھرنے کے لیے حکومت کے آگے ہی کیوں جھولی پھیلائی جاتی ہے، عہدیدار خود سے سرمایہ اکٹھا کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے، زیادہ نہیں تو کم از کم مارکیٹنگ کا شعبہ ہی بنا لیں تاکہ بہت زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت سرمایہ ہی آتا رہے، ارباب اقتدار سے سوال ہے کہ اگر پاکستان بیس بال فیڈریشن، فٹبال فیڈریشن،سکواش ایسوسی ایشن یا کھیلوں اور تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت فنڈز اکٹھے کر سکتی ہیں تو ہاکی فیڈریشن ایسا کیوں نہیں کر سکتی۔

یہ سچ ہے کہ ہاکی غربیوں کا کھیل ہے، ماضی میں کسی دور دراز اور پسماندہ علاقے میں کسی غریب کے بچے کو ہاکی کھیلنے کی بنیاد پر سرکاری محکمے میں نوکری ملتی تھی تو آس پاس کے علاقوں میں دھوم مچ جاتی اور دوسرے بچوں میں بھی ہاکی پلیئر بننے کے لیے نیا جوش وخروش پیدا ہوتا تھا۔ ماضی میں منیر ڈار، توقیر ڈار، خالد محمود، اختر رسول، رانا مجاہد علی، اصلاح الدین صدیقی، طاہر زمان، خواجہ جنید، شہباز سینئر، شہناز شیخ، منظور الحسن، منظور جونیئر، شاہد علی خان، دانش کلیم سمیت نہ جانے کتنے کھلاڑی ہیں جنہوں نے نہ صرف غربت سے امارت کا سفر طے کیا بلکہ اپنے کھیل سے پاکستان کو عالمی سطح پر ان گنت فتوحات بھی دلائیں۔

ماضی میں قومی کھیل کے عروج کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ ہاکی حکومت کی آنکھوں کا تارا تھی، عالمی ایونٹ سے قبل سربراہ مملکت کی جانب سے کھلاڑیوں کے اعزاز میں پروقار تقریب کا اہتمام کیا جاتا، بعد ازاں نیک تمناؤں کے ساتھ ٹیم کو رخصت کیا جاتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ٹیم عالمی مقابلوں میں بھر پور اعتماد کے ساتھ میدان میں اترتی اور حریف ٹیموں کے چھکے چھڑاتے ہوئے ٹائٹل اپنے نام کرکے وطن واپس لوٹتی لیکن اب حکومت کی ترجیحات تک تبدیل ہو چکی ہیں اور حکمرانوں نے سپورٹس بالخصوص قومی کھیل کو یکسر نظر اندازکرتے ہوئے ایک کونے میں پھینک رکھا ہے۔

ماضی میں باصلاحیت پلیئرزکی تعداد اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ قومی ٹیم میں جگہ بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا، بڑی تعداد میں کھلاڑیوں کے ہونے کی سب سے بڑی وجہ انہیں سرکاری محکموں میں نوکریوں کا ملنا تھا ،اچھے پلیئرزکو کسٹمز، پولیس، بینک اور پی آئی اے سمیت متعدد سرکاری محکموں میں آسانی سے ملازمتیں مل جایا کرتی تھیں، صرف پولیس کے محکمہ میں ہی ہاکی کے 8 پلیئرز سمیت دوسرے کھیلوں سے وابستہ متعدد کھلاڑی ایسے تھے جو ایس پی کے عہدوں پر فائز رہے۔پی آئی اے میں شہباز احمد سینئر سمیت ملازمتیں حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے، پرکشش نوکریاں ملنے پر پلیئرز اپنے کھیل کی طرف بھر پور توجہ دیتے اور ملکی و بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں شاندارکارکردگی دکھا کر ملک و قوم کی نیک نامی کا باعث بنتے۔کہتے ہیں جب نیتوں میں کھوٹ ہو تو نتائج بھی ویسے ہی ہوتے ہیں۔

دنیا بھر میں اپنے کھیل کے ذریعے سبز ہلالی پرچم لہرانے والی قومی ٹیم سے ایک ایک کر کے عالمی اعزازت چھن چکے ہیں اور اب عالم یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ میں شرکت سے محروم ہونے کے بعد عالمی رینکنگ میں ابتدائی10 پوزیشنوں سے بھی باہر ہو گئی ہے اور اس کا موجودہ نمبر17واں ہے۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن کے موجودہ عہدیدار قومی کھیل کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں سنجیدہ ہیں، اس لئے فیڈریشن حکام نے گراس روٹ سطح سے باصلاحیت کھلاڑیوں کو آگے لانے کا جامع پلان بنایا ہے، اس جدوجہد میں سیکرٹری پی ایچ ایف محمد آصف باجوہ پیش پیش ہیں۔ماضی کے عظیم کھلاڑی خواجہ جنید، منظور جونیئر، وسیم احمد بھی پی ایچ ایف کے تھنک ٹینک کا حصہ بن چکے ہیں، یہ عہدیدار ہاکی کے کھیل کا درد بھی رکھتے ہیں اور گرین شرٹس کو اس کا سنہری دور واپس دلانے کے لیے سنجیدہ بھی ہیں،سیکرٹری آصف باجوہ کی ہاکی خدمات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں تاہم عہدیداروں کی اگلی صفوں میں موجود ان کے قریبی ساتھی ان کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں۔

جناب صدر ارسطو نے سکندر اعظم کو ایتھنز سے رخصت کرتے وقت کہا تھا کہ کہ یاد رکھنا کبھی کسی بیوقوف، مفاد پرست اور ناکام شخص کو اپنا مشیر نہ بنانا لیکن ہمارے ہاں ایسے مشیروں کی کمی نہیں، جناب صدر اور سیکرٹری صاحب ہاکی شائقین آپ کو پی ایچ ایف کے کامیاب عہدیداروں کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں، کامیابی کی نئی منزلوں اور نئی راہوں کے حصول کے لیے آپ کو اپنے کان اورآنکھیں دونوں کھلے رکھنا ہوں گے، مسائل کا انبار سامنے ہے لیکن نیت نیتی سے کوشش کی جائے تو کسی منزل کا حصول ناممکن نہیں رہتا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔