سندھ حکومت کی بدانتظامی؛ ٹھٹھہ میں بغیر چارٹر یونیورسٹی قائم، 80 کروڑ خرچ کردیئے

صفدر رضوی  اتوار 18 اگست 2019
عمارت تو بن گئی ممکن ہے کوئی دوسری یونیورسٹی بنا دی جائے، سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز۔ فوٹو: فائل

عمارت تو بن گئی ممکن ہے کوئی دوسری یونیورسٹی بنا دی جائے، سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز۔ فوٹو: فائل

کراچی: حکومت سندھ نے بدانتظامی اورمنصوبہ بندی کے فقدان کے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیےَ

سندھ حکومت کی جانب سے آئی بی اے ٹھٹھہ (انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن)کے نام سے ایک ایسے منصوبے کا انکشاف ہواہے جس کے لیے کسی قسم کی قانون سازی کی گئی اسمبلی سے ایکٹ منظور کیا گیا نہ ہی سرکاری سطح پر کوئی قانونی دستاویزات موجودہیں تاہم کسی قانون سازی کے بغیر تقریباً 800 ملین روپے کی خطیررقم خرچ کرکے آئی بی اے ٹھٹھہ کی عمارت بنادی گئی ہے۔

یونیورسٹی کے قیام اورآغاز کے بغیراس کے لیے کئی کروڑروپے کی گاڑیاں بھی خرید لی گئی ہیں جس میں طلبا کے لیے 2بسیں بھی شامل ہیں 4سال سے بغیرکسی قانون سازی کے یہ منصوبہ جاری ہے تاہم ٹھٹھہ سمیت سندھ کے طلبا آئی بی اے ٹھٹھہ کے قیام اوراس میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے کسی امکان سے بھی لاعلم ہیں جبکہ کم از کم 1500طلبا کے لیے 5مختلف شعبہ جات اورطلبا کا ہاسٹل شامل کرتے ہوئے عمارت کو ڈیزائن کیاگیاہے تاہم 4سال بعد بھی عمارت میں کوئی طالب علم ہے اورنہ ہی شعبہ جات قائم ہو سکے ہیں۔

ذرائع کہتے ہیں کہ اب یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس عمارت میں آئی بی اے ٹھٹھہ قائم ہو سکے گایا کسی دوسری یونیورسٹی کے قیام کے لیے قانون سازی ہوگی یہ منصوبہ 2015میں بغیرکسی قانون سازی یامنصوبے کو قانونی حیثیت دیے بغیر ہی شروع کیاگیاتھا اورمنصوبے کوحکومت سندھ کے تحت اس وقت کام کرنیوالے ’’اسپیشل انیشیٹوو ڈپارٹمنٹ‘‘ کے سپرد کردیاگیاجبکہ گزشتہ ڈیڑھ برس سے اس منصوبے کی فائلیں اب محکمہ یونیورسٹیز اینڈبورڈزمیں پڑی ہوئی ہیں منصوبہ محکمہ ورکس اینڈ سروسز کے پاس ہے جبکہ اس کی مانیٹرنگ حکومت سندھ کا محکمہ منصوبہ بندی وترقیات (پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ) کرتا رہا ہے۔

اس امرکاانکشاف ’’ایکسپریس‘‘ کو حکومت سندھ کی محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات (پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ) کی آئی بی اے ٹھٹھہ کی عمارت کی تعمیر اورتکمیل کے سلسلے میں تیار کی گئی ایک انسپیکشن رپورٹ میں ہواہے اوررپورٹ میں بغیرقانون سازی کے 800ملین روپے کے بجٹ سے تعمیر کی گئی آئی بی اے ٹھٹھہ کی نامکمل عمارت کی تعمیرات کومجموعی طورپر’’غیراطمینان بخش‘‘ ( Unsatisfactory) بھی قراردیاگیاہے۔

بتایاجارہاہے کہ عدالتی حکم پر جب اسپیشل انیشیٹو و ڈپارٹنمنٹ میں موجودتمام منصوبے حکومت سندھ کے دیگرمتعلقہ محکموں کے سپرد کیے گئے تواس منصوبے کو گزشتہ برس اپریل 2018میں محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کو بھجوا دیاگیا۔ قابل ذکرامریہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت اورگزشتہ صوبائی حکومت نے گزشتہ برس 2018 اور اس سے قبل بھی شیخ ایاز یونیورسٹی، صوفی ازم یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدرآباد، سندھ کی پہلی خواتین یونیورسٹی اورنواب شاہ یونیورسٹی سمیت کئی جامعات کے قیام کے سلسلے میں پہلے اسمبلی سے قانون سازی کی اوربل پاس ہونے کے بعد ان میں سے کچھ جامعات کوبجٹ جاری کیا بیشتر جامعات کی اب تک کوئی اپنی عمارت موجودنہیں ہے۔

انسپیکشن رپورٹ کے مطابق منصوبے کے آغاز 2015 میں ہوااور20مارچ 2015 کوکسی یونیورسٹی چارٹرکے بغیرمحض عمارت کی تعمیر کے لیے اس کے بجٹ کی منظوری دی گئی اور منصوبے کے پی سی ون کے مطابق اسے 2016/17 میں مکمل ہوجانا تھا حکومت سندھ نے 997.880 ملین روپے کی رقم آئی بی اے ٹھٹھہ کے لیے مختص کی اوراسی برس مال سال 2015/16میں 250 ملین روپے جاری کیے گئے اورخرچ بھی کردیے گئے جبکہ اگلے مالی سال 2016/17میں مزید430ملین روپے جاری کیے گئے اوریہ بھی خرچ کردیے گئے اوراسی سلسلے کوآگے بڑھاتے ہوئے مالی سال 2017/18میں 158.940 ملین روپے جاری ہوئے جس میں سے 101.264ملین روپے خرچ کیے گئے اس منصوبے کے لیے مختص کل 997.880ملین روپے کی رقم میں سے 838.94ملین روپے کی رقم جاری جبکہ 781.264ملین روپے خرچ کیے گئے ہیں اس طرح منصوبے کے لیے منظورشدہ مختص رقمapproved cost میں سے 78.28 فیصد رقم خرچ کی گئی۔

قابل ذکرامریہ ہے کہ اچانک 2018میں آئی بی اے ٹھٹہ کے لیے گاڑیوں کی خریداری کر لی گئی جس میں کم از کم 2بسیں،ایک کرولاجی ایل آئی کار،2سوزوکی ہائی روف (نیوراوی اورنیوبولان) اور ایک عدد ٹریکٹر بمعہ (ٹرالی،سن کنوپی، واٹرٹینکر،رئیل بلیڈاورکلٹیویٹر) شامل ہیں۔

’’ایکسپریس‘‘کے رابطہ کرنے پر سیکریٹری یونیورسٹیزاینڈبورڈزریاض الدین کاکہناتھاکہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس عمارت میں آئی بی اے ٹھٹھہ ہی قائم کیا جائے گا یہ عمارت توتعمیرتوہوگئی ہے جو ایک مکمل یونیورسٹی کے لیے موزوں ہے تاہم ممکن ہے کہ اس میں آئی بی اے کے بجائے کوئی دوسری یونیورسٹی قائم کردی جائے۔

ایک سوال پر سیکریٹری یونیورسٹیزاینڈبورڈزنے بھی اظہار حیرت کے ساتھ کہا کہ 2013 اور اس کے آس پاس بغیر قانون سازی یاچارٹرکے کسی ادارے کاقیام کردیاگیاہے جبکہ پہلے یونیورسٹی کا چارٹر دیا جاتا ہے بعد میں بجٹ اور عمارت کی تعمیر کاکام ہوتاہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔