پاک سرزمین کا ترانہ

مختار احمد  بدھ 21 اگست 2019
قومی ترانے کےلیے بنائی گئی دھن پر 723 نغموں میں سے حفیظ جالندھری کا ترانہ منتخب کیا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

قومی ترانے کےلیے بنائی گئی دھن پر 723 نغموں میں سے حفیظ جالندھری کا ترانہ منتخب کیا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

قومی ترانہ کسی کے بھی جذبات ابھارنے اور انہیں حب الوطنی کے جذبات سے سرشار کرنے کا نام ہے۔ اس کے الفاظ عام نہیں بلکہ اپنے اندر ملک و قوم کے ماضی، حال اور مستقبل کو اپنے اندر سموئے ہوتے ہیں، جو کہ اپنے اندر جادو اثر رکھتے ہیں۔ یہ قوموں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب قومی ترانہ پڑھا یا اس کی دھن بجائی جاتی ہے تو اعلیٰ اور ادنیٰ سبھی ہاتھ باندھ کر بصد احترام کھڑے ہوجاتے ہیں۔

دنیا بھر میں قومی ترانہ مختلف زبانوں میں پڑھا جاتا ہے، جو کہ قومی جذبات کی پوری پوری ترجمانی کرتا ہے۔ جہاں تک پاکستان کے قومی ترانے کا تعلق ہے، ابتدائی طور پر ترانہ نہ ہونے کے سبب اللہ اکبر کے نعروں سے ترانے کا کام چلایا جاتا رہا اور پھر جب پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تو ایک ہندو شاعر پروفیسر جگن ناتھ آزاد، جو کہ ڈسٹرک پنجاب ایسٹ انڈیا میں عیسیٰ خیل میانوالی میں پیدا ہوئے، نے تحریر کیا۔ اس ترانے کے بول کچھ اس طرح تھے ’’ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک… روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک‘‘۔ قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی 14 اگست 1947 کو لاہور ریڈیو اسٹیشن سے نشر کیا گیا یہ ترانہ ایک طویل عرصے تک رائج رہا اور اس کے بعد 14 جنوری 1948 کو کنٹرولر آف براڈکاسٹنگ زیڈ اے بخاری نے اس بات کی تجویز پیش کی کہ کیونکہ پاکستان کا وجود اسلام کے نام پر آیا ہے لہٰذا سورۃ فاتحہ کو قومی ترانہ قرار دیا جائے۔ لیکن سورۃ کی بے حرمتی کے پیش نظر ان کی اس تجویز کو نہیں مانا گیا۔

اس دوران پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کے حوالے سے کئی اجلاس منعقد ہوئے اور جنوبی افریقہ میں مقیم ایک مسلمان تاجر اے آر غنی نے اس بات کی پیش کش کی کہ قومی ترانہ لکھنے اور اس کی دھن بنانے والے کو 5 ہزار روپے ان کی طرف سے انعام دیئے جائیں۔ 2 جون 1948 کو حکومت پاکستان نے ان کی اس پیشکش کو قبول کرلیا۔ 14 جولائی 1949 کو وزیر مواصلات سردار عبدالرب نشتر کی زیر صدارت قومی ترانے کےلیے پیش کی گئی دھنوں اور نظموں کا جائزہ لینے کےلیے 2 کمیٹیاں بنائی گئیں اور یہ بات طے پائی کہ ترانے میں مسلم قوم کی روایات کا خاص خیال رکھا جائے گا۔

21 اگست 1949 کو ترانے کے ممتاز موسیقار احمد علی غلام علی چھاگلہ، جو کہ میونسپلٹی کراچی کے صدر غلام علی چھاگلہ کے صاحبزادے تھے، نے موجودہ قومی ترانے کی دھن تیار کرلی تو مگر کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ اس دھن کے معنی اور مفہوم کیا ہیں۔ اس کے باوجود دھن کے اندر رعب اور دبدبہ ہونے کے سبب اسے منظور کرلیا گیا۔ پہلی بار ریڈیو پاکستان میں بہرام رستم جی نے اپنے پیانو پر بجاکر ریکارڈ کرایا۔ دھن کا دورانیہ 80 سیکنڈ تھا اور اسے بجانے کےلیے 21 آلات موسیقی استعمال کیے گئے۔ یکم مارچ 1950 کو شاہ ایران کی پاکستان آمد پر ترانہ نہ ہونے کے سبب پاک بحریہ کے بینڈ نے وارنٹ آفیسر عبدالغفور کی قیادت میں کراچی ایئرپورٹ پر یہی دھن بجاکر سلامی دی۔ مرکزی کابینہ نے 2 جنوری 1954 کو منظوری بھی دے دی۔

اس منظور شدہ دھن پر ترانہ لکھوانے کےلیے اس کے گراموفون ریکارڈ ملک کے تمام اہم شعرا کو بھجوانے کے ساتھ ہر رات ریڈیو پاکستان سے روزانہ یہ دھن نشر کی جاتی تھی، تاکہ شاعر اس پر بول لکھ سکیں۔ بالآخر قومی ترانہ کمیٹی کو کئی مہینوں کی سخت جدوجہد کے بعد 723 ترانے موصول ہوئے۔ جس میں حفیظ جالندھری، حکیم احمد شجاع اور زیڈ اے بخاری کی طرف سے بھیجے گئے ترانوں کو سب سے زیادہ پسند کیا گیا۔ اس کے بعد ان تینوں ترانوں کو دھن کے ساتھ پیش کیا گیا۔ اور ان میں سے ابوالحفیظ جالندھری کے ترانے کو منتخب کرلیا گیا۔

4 اگست 1954 کو مرکزی کابینہ نے ابوالحفیظ جالندھری کے ترانے ’’پاک سرزمین شاد باد‘‘ کو منظور کرلیا۔ اس ترانے کو دھنوں کے ساتھ کورس کی شکل میں ڈھالنے کےلیے اس وقت کے معروف گلوکاروں سے رابطہ کیا گیا اور معروف گلوکاروں شمیم بانو، کوکب جہان، رشیدہ بیگم، نجم آرا، نسیم شاہین، احمد رشدی، زوار حسین، اختر عباس، غلام دستگیر، انور ظہیر اور اختر وسیع العلی کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا۔ جس کا دورانیہ ایک منٹ 20 سیکنڈ تھا۔ اس ترانے کو سب سے پہلے 13 اگست 1954 کو ریڈیو پاکستان سے نشر کیا گیا، جسے دنیا بھر کے ترانوں میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔

حفیظ جالندھری (جنہیں اقبالیات کا حافظ قرار دیا جاتا ہے اور انہوں نے زیادہ تر شاعری اردو اور فارسی زبان میں کی) کے لکھے گئے ترانے کے بارے میں اکثر و بیشتر مورخین یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ترانے کےلیے جو اشعار لکھے، ان میں زیادہ تر الفاظ فارسی ادب کے ہیں، جو کہ قطعی طور پر غلط ہے۔ کیونکہ ترانہ ’’پاک سرزمین شاد باد‘‘ میں جو اشعار ہیں ان میں سے بیشتر الفاظ اردو لغت میں موجود ہیں۔ لہٰذا اختلاف کرنے والے ماہرین کی آرا قطعی طور پر غلط اور بے بنیاد ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مختار احمد

مختار احمد

مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔ آپ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔