- موٹروے پولیس اہلکار کو کچلنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
- ایکس کی اسمارٹ ٹی وی ایپ متعارف کرانے کی تیاری
- جوائن کرنے کے چند ماہ بعد ہی اکثر لوگ ملازمت کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟
- لڑکی کا پیار جنون میں تبدیل، بوائے فرینڈ نے خوف کے مارے پولیس کو مطلع کردیا
- تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے بات چیت کرنے کی تجویز
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات مئی میں ہونگے، موبائل فون لانے پر ضبط کرنے کا فیصلہ
- امریکی یونیورسٹیز میں اسرائیل کیخلاف ہزاروں طلبہ کا مظاہرہ، درجنوں گرفتار
- نکاح نامے میں ابہام یا شک کا فائدہ بیوی کو دیا جائےگا، سپریم کورٹ
- نند کو تحفہ دینے کے ارادے پر ناراض بیوی نے شوہر کو قتل کردیا
- نیب کا قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں غیر قانونی بھرتیوں کا نوٹس
- رضوان کی انجری سے متعلق بڑی خبر سامنے آگئی
- بولتے حروف
- بغیر اجازت دوسری شادی؛ تین ماہ قید کی سزا معطل کرنے کا حکم
- شیر افضل کے بجائے حامد رضا چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نامزد
- بیوی سے پریشان ہو کر خودکشی کا ڈرامہ کرنے والا شوہر زیر حراست
آرٹیکل 370، سفارتی ہتھیار
مودی سرکار نے جس نفاست سے پنڈت جواہر لال نہرو کی شامل کردہ آئینی شق 370 کا استعمال کرکے بزعم خود جموں و کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ کےلیے ختم کردیا، وہیں ریاست کے خیرخواہوں کو ایک نیا سفارتی ہتھیار بھی فراہم کردیا۔ کیوں کہ مذکورہ شق صدارتی فرمان کے ذریعے اپنے خاتمے کا راستہ تو مہیا کرتی ہے، مگر براستہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلی۔ لوک سبھا کا روٹ تو اختیار کرلیا گیا مگر ریاستی اسمبلی کا سفر غیر معینہ مدت کےلیے ملتوی ہے۔ مودی ڈاکٹرائن اس سفر کےلیے حالات سازگار بنائے گی اور بالآخر آرٹیکل 370 کی یہ دوسری شرط بھی پوری کردی جائے گی۔
اب اس پس منظر میں مودی جی کا قوم سے خطاب سنیں تو منظرنامہ خاصا واضح ہوجاتا ہے، اور یہ عقدہ بھی کھل جاتا ہے کہ اس خطاب کے مخاطب کشمیری نہیں بھارتی تھے، بلکہ سیدھے سبھائو بات کی جائے تو آر ایس ایس اور اس کی ساتھی تنظیموں کے غنڈے تھے۔ جن کےلیے بڑی دلکش مراعات کا اعلان کیا گیا۔ مودی نے قوم سے خطاب میں جو کہا اس کا لب لباب یہ تھا کہ آرٹیکل 370 ختم کرنے سے ریاست میں خوشحالی کا ایک انقلاب آنے والا ہے۔ انھوں نے خطے میں عدم مساوات، غربت، دلتوں اور اقلیتوں کے ساتھ تفریق، صنفی عدم مساوات، بدعنوانی، پنچایتوں اور بلدیہ میں لوگوں کی عدم نمائندگی اور جمہوری اداروں کی کمی جیسے معاملات کا ذکر کیا اور یہ بتایا کہ ان ساری خرابیوں کا سبب شق 370 تھی اور اس کے ختم ہونے کے بعد اس خطے میں خوشحالی اور جمہوری نمائندگی کا ایک نیا دور جلد ہی شروع ہونے والا ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے اگلے روز ایک نیوز کانفرنس میں بتایا ’’حکومت نے دنیا کے کئی ملکوں کے سفیروں اور عالمی تنظیموں کے نمائندوں کو بھارت کی پوزیشن سے روشناس کرایا ہے۔ انھیں بتایا گیا کہ شق 370 سے متعلق تبدیلی بھارت کا مکمل طور پر اندرونی معاملہ ہے اور اس کا تعلق بھارتی آئین سے ہے جو ہمارے اقتدار اعلیٰ کے دائرے میں آتا ہے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے دوسری شرط پوری ہونے کا انتظار کرنا ہے یا آرٹیکل 370 کا بطور ہتھیار استعمال کرکے مودی کو بند گلی میں دھکیلنا ہے۔ مودی نے قوم سے اپنے مذکورہ خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان نے آرٹیکل 370 کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ پاکستان نے بھارتی آئین کی اس شق کا بطور ہتھیار کیا استعمال کرنا تھا جس کی حیثیت محض علامتی تھی۔ اس شق کے خاتمے کے بعد بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سابق سربراہ ایس اے دُلت نے کیا سیرحاصل تبصرہ کیا تھا کہ کشمیریوں کو آزادی ملی کب تھی جو اس کے چھن جانے کا واویلا کیا جائے۔ سو اس شق کی اہمیت اس کے خاتمے کے بعد اجاگر ہوئی ہے۔ اگر اسے بروقت بطور ہتھیار استعمال کرلیا جائے۔ وہ کیسے؟ تو عرض ہے کہ اس شق کے خاتمے سے بہرحال ایک بات تو اظہر من الشمس ہے کہ مودی نے ’آؤٹ آف دی باکس‘ مسئلہ کشمیر کا حل پیش کرکے پاکستان کے ساتھ لڑائی کےلیے نئے میدان کا انتخاب کیا ہے۔
اب ہم اس غیر روایتی وار کا مقابلہ روایتی ہتھیاروں سے نہیں کرسکتے۔ اب یہ لڑائی اسی میدان میں لڑی جانی ہے جو نریندر مودی اور امیت شاہ نے سجایا ہے۔ وار کرنے میں ٹائمنگ کلیدی اہمیت کی حامل ہے، مخالف کو اسی کے ہتھیار سے مارنا حقیقی جواں مردی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ دنیا کو آرٹیکل 370 ازبر کرادیں اور بتائیں کہ اسی آرٹیکل کے تحت تین ماہ کے اندر ریاستی اسمبلی سے بھی منظوری ضروری ہے۔ اس کی مدت تین ماہ ہے، من مرضی کی مدت نہیں۔ آغاز روس سے کیا جائے، جس کا ردعمل تھا کہ بھارت نے اپنے آئین کے مطابق اقدام کیا۔
ہمیں بھارت کے اندر اٹھنے والی آوازوں کو اپنے ساتھ ملا کر دنیا پر اثرانداز ہونا چاہیے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اب کوئی ’کٹھ پتلی‘ نہیں رہا، یہ امر بھی ملحوظ رہے۔ راہول گاندھی کا ٹویٹ بھارت کے اندر سے حوصلہ افزا پیغام ہے ’’جموں اور کشمیر کو یک طرفہ فیصلے سے توڑنا، منتخب نمائندوں کو قید کرنا اور آئین کی خلاف ورزی کرنا قومی انضمام کے خلاف ہے۔ یہ قوم اس کے لوگوں سے بنی ہے نہ کہ زمین کے حصوں سے۔ ایگزیکٹیو طاقت کا غلط استعمال ہماری قومی سلامتی پر بھاری پڑے گا۔‘‘
ان آوازوں کو ساتھ ملانے کا طریقہ یہ ہے کہ ہمارا یہ مطالبہ ہونا چاہیے کہ ریاست جموں و کشمیر میں گورنر راج ختم کیا جائے۔ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی ریاستی اسمبلی بحال کی جائے۔ اس کے عوض ہم سلامتی کونسل کی قراردادوں سمیت تمام معاہدوں سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ تین ماہ کی مدت گزرنے کے بعد ریاستی اسمبلی سے منظوری نہ لی جا سکے تو پھر معاملہ کشمیری عوام کے پاس چلا جائے گا اور فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعے ہوگا۔ اس کی مہلت بھی تین ماہ رکھی جائے۔ مہلت ختم ہونے کے بعد جوہری ہتھیاروں والی جنگ کی یاد دہانی کرادی جائے، جس کا راستہ بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کی دھمکی کے بعد صاف ہوگیا ہے۔ گویا آرٹیکل 370 کا بطور سفارتی ہتھیار استعمال اور جنگ کے جوہری ہتھیار کی پکار تک ریاست جموں و کشمیر کا 72 سالہ تنازع 6 ماہ میں حل کیا جاسکتا ہے۔ نیت شرط ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔