جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صدر مملکت کو خط لکھنے پر بری الذمہ قرار

ویب ڈیسک  پير 19 اگست 2019
جسٹس فائز عیسٰی نے جب صدر مملکت کوخطوط لکھے  وہ ذہنی دباؤ میں تھے، سپریم جوڈیشل کونسل۔ فوٹو:فائل

جسٹس فائز عیسٰی نے جب صدر مملکت کوخطوط لکھے وہ ذہنی دباؤ میں تھے، سپریم جوڈیشل کونسل۔ فوٹو:فائل

 اسلام آباد: سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  کو صدر مملکت عارف علوی کو خط لکھنے کے معاملے پر بری الذمہ قرار دے دیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے کے خلاف ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنا فیصلہ جاری کردیا ہے جس کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بری الذمہ قرار دے دیا گیا ہے اور خط لکھنے کے معاملے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی ختم کردی گئی ہے۔

سینئر حکومتی عہدے دار کے مطابق جسٹس فائز نے صدر مملکت کو تین خط لکھے تھے اور خطوط میں ریفرنس کی نقول فراہم کرنے کی درخواست کی تھی جس پر ان کے خلاف وحید شہزاد نامی وکیل نے ضمنی ریفرنس دائر کر دیا۔

یہ پڑھیں: فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

سپریم جوڈیشل کونسل نے فیصلے میں کہا ہے کہ جج کی جانب سے خطوط ذاتی طور پر صدر مملکت کو لکھے گئے، سپریم کورٹ کے جج کی جانب سے صدر کو خط لکھنا مس کنڈکٹ کے زمرے میں نہیں آتا، جب کہ شکایات کنندہ جج کی جانب سے خطوط پبلک کرنے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکا۔

فیصلے کے متن میں ہے کہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ جسٹس عیسٰی اس وقت اپنے سسر اور بیٹی کی میڈیکل صورتحال کے باعث دباؤ کا شکار تھے، اس کے علاوہ چیف جسٹس اور جسٹس فائز عیسیٰ کے درمیان ہونے والی گفتگو سے واضح ہے کہ معزز جج کو ریفرنس کی معلومات تھیں، برار راست معلومات ہونے کے باوجود خط لکھنے پر کوئی قیاس آرائی نہیں کرسکتے۔

یہ بھی پڑھیں: فائز عیسیٰ پر قومی اداروں کی تضحیک کی فرد جرم بھی عائد

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی ایک ریفرنس میں اپنائے گئے طریقے دیگر ریفرنسز میں اپنانے کا نہیں کہہ سکتے، ریفرنس چلانے سے متعلق طریقہ کار کا فیصلہ کونسل کو کرنا ہے، کونسل میں اس وقت صرف چھ کے قریب شکایات زیر التوا ہیں اور زیر التواء شکایات بھی قانون کے مطابق کاروائی جاری ہے، آنے والے تمام ریفرنسز کو فوری کوڈ کے تحت پر کھا جاتا ہے، جسٹس قاضی فائیز کے جانب سے باری کے خلاف ریفرنس سننے کا موقف درست نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔