اپنے حصے کا کام

صنم محمود عباسی  جمعرات 22 اگست 2019
حکومتی اداروں کی طرف دیکھنے کے بجائے عوام خود صفائی کا خیال رکھیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حکومتی اداروں کی طرف دیکھنے کے بجائے عوام خود صفائی کا خیال رکھیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر جیسے صحت مند اور چلتے پھرتے انسان کو ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا، اسی طرح ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو اس کی اہمیت کا شاید اس طرح اندازہ نہیں۔ بس زبانی جمع خرچ میں ہم کراچی، کراچی کرتے ہیں۔ میڈیا جو تصویر کراچی کی دکھاتا ہے تو اس شہر کے باسیوں پر صرف ترس ہی آتا ہے۔ ویسے یہی حال ملک کے دیگر شہروں کا بھی ہے۔

تین دہائیوں سے اس شہر میں قتل وغارت کا جو بازار گرم رہا، ہزاروں جانیں لقمہ اجل بنیں، بھتہ خوری سے لے کر اغوا برائے تاوان اور بوری بند لاشیں، چوری، ڈکیتی، قبضہ مافیا، ٹینکر مافیا اور نہ جانے کیا کیا۔ وہ سلسلہ ابھی کچھ تھما ہی تھا کہ ایک نیا مسئلہ زور و شور سے سامنے آرہا ہے اور وہ ہے ’’کچرا‘‘۔ صفائی کا ناقص انتظام، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، ابلتے گٹر، گندگی سے بھرے نالے۔ گو کہ ان سب مسائل کو حل کرنے کی ذمے داری ہمارے اداروں کی ہے، جو غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں لیکن صفائی کے معاملے پر اگر دیکھا جائے تو اس کےلیے عوام نے اگر اپنی مدد آپ کے تحت کچھ نہ کیا تو پھر اسے حل کرنا مشکل ترین کام ہوگا۔ اور لگ بھی ایسا رہا ہے کہ شاید یہ کبھی حل نہیں ہوسکے گا۔

ہم حکومتی اداروں کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ ہمارے گھر سے کچرا اٹھائیں گے۔ کیا آپ کی یہ امید کبھی پوری ہوسکے گی؟ شاید نہیں کبھی نہیں۔ بہت سے سوال ایسے ہوتے ہیں جن کا ہم جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے عرصہ لگا دیتے ہیں۔ حالانکہ جواب ہمارے سامنے ہوتا ہے اور ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ کیا ہم اپنی اخلاقی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں؟ اسی سوال کا جواب ہم گزشتہ 72 سال سے تلاش کررہے ہیں۔

صرف صفائی ستھرائی کی بات کریں تو ہم آج بھی اپنے گھر کا کچرا اٹھا کر گلی میں کسی اور کے دروازے کے سامنے چھوڑ آتے ہیں۔ ہم ہمیشہ اپنا ہی سوچتے ہیں اور اپنی تکلیف دوسرے کے سر ڈال آتے ہیں۔ گلی محلے، سڑکوں بازاروں میں چلتے پھرتے سگریٹ کے ٹکڑے پھینک دینا، پان چھالیہ تھوکنا، دیوار کے ساتھ پیشاب کرنا، گاڑی میں جاتے ہوئے کچرے کی تھیلی باہر سڑک پر پھینک دینا، یہ سب عام سی باتیں ہیں۔

موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے عوام سے بہت سے سچے اور جھوٹے وعدے کیے تھے، ان میں سے ایک سرکاری عمارتوں کو عوام کو کھول دینا بھی تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب گورنر ہاؤس لاہور کو عوام کےلیے کھولا گیا تو بہت ساری پبلک جمع ہوئی۔ نیا سوٹ، نہا دھو کر میک اپ کرکے آئی ہوئی بظاہر تعلیم یافتہ خواتین و حضرات جب واپس جانے لگے تو ہر جگہ کچرا چھوڑ گئے۔ درختو ں سے پھل تک توڑ دیئے۔ ان کا بس چلتا تو درختوں کے پتے تک کھا جاتے۔ یہ ہیں ہم اور ہماری اصلیت۔

کبھی آپ شام کو پارک بند ہونے کے وقت ملاحظہ کریں، کبھی پبلک ٹوائلٹ کا اور کبھی کسی پکنک اسپاٹ کا، ریلوے اسٹیشن یا بس اسٹینڈ کا حال دیکھیں اور جان لیں کہ ہم اخلاقی طور پر کہاں کھڑے ہیں۔ کبھی کوئی اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ کیوں؟ ابھی عید قربان گزری ہے، مہنگے سے مہنگا جانور قربانی کےلیے خریدا گیا، قصائی کو بھی تگڑی رقم دی گئی، اور صفائی کےلیے ہم حکومت کی طرف دیکھنا شروع ہو گئے۔ ڈیڑھ دو لاکھ روپیہ ہم قربانی پر لگا دیں گے، مگر ہزار پانچ سو صفائی پر نہیں لگا سکتے۔

یہی سب کرتے کرتے اور اپنی ذمے داریوں کو پس پشت ڈالتے کراچی آج ’’ کچرے کا قبرستان‘‘ بن چکا ہے۔ وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں، لوگ دیگر پریشانیوں کے ساتھ جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا بھی شکار ہورہے ہیں۔ عوام حکومت اور اداروں کو کوس رہے ہیں، لیکن کوئی بھی اپنی ذمے داریوں کو ٹھیک سے نہیں نباہ رہا۔

جب بھی کچھ برا ہوتا ہے تو کہیں نہ کہیں ہماری اپنی نادانی، غفلت، جہالت یا غلطی اس کی وجہ ہوتی ہے۔ اور ہم اس کی ذمے داری دوسروں پر ڈال کر اپنے دل کو جھوٹی تسلی دیتے ہیں۔ اگر آج ہم اپنے حصے کا کام خود ٹھیک طریقے سے اور پوری ایمان داری کے ساتھ کرنا شروع کردیں تو بہت سے مسائل اور پریشانیوں سے خود بھی بچ سکتے ہیں اور دوسرں کو بھی بچا سکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

صنم محمود عباسی

صنم محمود عباسی

بلاگر فائنانس میں ایم بی اے ہیں اور دبئی میں چیف اکاؤنٹنٹ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔