مخیرانہ ادارے یا ؟

سعد اللہ جان برق  بدھ 21 اگست 2019
barq@email.com

[email protected]

ہم نے پہلے ہی اپنا ٹھکانہ ایک جنگل میں بنا لیا ہے جہاں کے باسی نہ تواتنے مجاہدانہ خیالات رکھتے ہیں اور نہ بلا ضرورت لوگوں کو چیرتے پھاڑتے ہیں۔ ایک بیٹے کو جہل پھیلانے کے لیے سسٹم آف ایجوکیشن لانچ کر کے دے دیا ہے۔ نمبر دو کو سیاست میں ڈالا ہے اور وہ سات جھنڈے بھی ساتھ میں دے دیے ہیں جو اس نے بیروزگاری پھیلانے اور جہالت پیدا کرنے کے میدان میں گاڑنا ہیں اور تیسرے کو ان دونوں کو خام مال سپلائی کرنے یعنی غنڈہ گردی میں ڈالا ہوا ہے۔

اس لیے خود بالکل ہی فارغ ہو چکا ہے، تاہم اب اس نے اپنے لیے ایک نہایت ہی ثواب دارین قسم کی مصروفیت ڈھونڈ لی اور ایک مخیرانہ ادارہ لانچ کیا ہے۔ اور جس کے دروازے ہمہ اقسام کے بھکاریوں، ، بھنگیوں اور نکمے نکھٹووں کے لیے ہر وقت کھلے رہتے ہیں جو ان ’’مخیر لوگوں‘‘ کے چندوں سے چلتا ہے جن کی کمائیوں میں حلال کانام و نشان تک نہیں ہوتا کہ اس دنیا کی زندگی حلال کے بغیر تو چل سکتی ہے لیکن حرام کے بغیر دو قدم بھی نہیں چل سکتی ادھر لوگوں نے جنت کے بارے میں بہت ساری پرکشش اور لذیذ تفصیلات سنا رکھی ہیں، اس لیے دل کھول کر چندہ دیا کرتے ہیں۔

چندے کی اس مہم میں اس کے تینوں بیٹوں کی ترغیب وتبلیغ بھی شامل ہے۔ پہلے پہل جب اس نے اس ’’مخیر ادارے‘‘ کی ’’برُی نیت‘‘ کا اظہار کیا تھا تو ہم نے سخت مخالفت کی تھی کہ ملک میں پہلے سے ہی خلق خدا کی خدمت اور گمراہ کرنے کے بہت سارے ادارے۔ اپنے آپ کو زکوۃ عشر خیر خیرات اور حرام مال کی صفائی کے لیے دھڑا دھڑ چل رہے ہیں اس لیے اتنی زکوۃ اور اتنی قربانی کی کھالیں کہاں سے آئیں گی؟ لیکن اس نے جو دلیل دی وہ اتنی بڑی تھی کہ اس کے آگے ہماری مخالفت کی چیں بول گئی۔

اس کی دلیل تھی کہ جس ملک میں ایسی حکومت ہو جو ٹیکس لینا ہمیشہ اپنا فرض سمجھ کر یاد رکھتی ہے اور اس کے ٹیکس کے بدلے جو کچھ ٹیکس گزاروں کو دینا ہوتا ہے وہ ہمیشہ بھول جاتی ہے۔ وہاں مخیر ادارے یا ماڈرن زبان میں ’’این جی اوز‘‘ کا مسقبل ہمیشہ تابناک رہتا ہے۔ بلکہ یہ ایک طرح سے حکومت اور مخیر اداروں کے درمیان غیر تحریری معاہدہ ہے کہ حکومت نچوڑے گی اور مخیر ادارے بھگو کر نچوڑنے کے لائق بنائیں گے۔ اس لحاظ سے حکومت اور مخیر اداروں کی ساجھے داری ہے کہ میں ماروں گی اور تم آنسو پونچھتے رہنا۔ ویسے بھی حکومت کہیں آسمان سے تو نہیں آتی ان ہی مخیر اداروں ہی کی سیڑھیوں پر چڑھ کر ہی تو کرسیوں تک پہنچایا جاتا ہے۔

دیکھتے نہیں کہ سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے اغل بغل میں ہمیشہ مخیر ادارے رکھتی ہیں۔ کہ جب کرسی کی مصروفیت نہ ہو تو مخیر اداروں میں کرسی تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں تیارہوتی ہیں۔کم بخت یک چشم یعنی ’’کانا من الکافرین‘‘ سہی، قہر خداوندی سہی، ڈینگی بخار اور سوائیں فلو سہی لیکن بات میں دم تھا۔ اور جب ہم نے اس کی باتوں کی روشنی میں سوچا اور غور کے حوض میں غوطے لگائے تو ثابت ہوا کہ جسے سمجھے تھے انناس وہ عورت نکلی اور ناک وہ ناک خطرناک جسے کہتے ہیں۔

حکومت اور مخیرادارے تو واقعی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے بلکہ مداری کے دو ڈنڈے ہیں۔ جن میں سے ایک کا تار کھینچنے پر دوسرے کاتار خودبخود کھیچ جاتا ہے۔ اور مداری کہتا جاتا ہے کہ ’’یہ کھینچوں تو وہ آئے اور وہ کھینچوں تو یہ آئے۔ اگر آج ہی حکومت منہ مانگے من چاہے ’’ٹیکسوں‘‘ کے بدلے وہ فرائض بھی ادا کرنے لگے جو اس پر واجب ہو جاتے ہیں تو مخیر ادارے ’’کیا‘‘ بیچیں گے اور کیا بیچنے کے لیے بنیں گے؟  پوچھیں گے کہ جب کچھ ’’دیتے‘‘ نہیں تو لیتے کیوں ہو؟ اور اس ’’بجنگ آمد‘‘ سے پہلے اس کے سامنے ایک نورانی بزرگ:

سرمے سے تیز دشنہ مژگاں کیے ہوئے

اور چہرہ فروغ مے سے گلستان کیے ہوئے

زلف شاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے

بیٹھے رہیں تصور حوراں کیے ہوئے

یعنی کوئی ’’مخیر ادارہ‘‘ اسے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے قبضے میں لے لیتا ہے کہ کیوں تکلیف کرتے ہو ہم ہیں نا تمہیں حق کے بجائے بھیک دینے کے لیے۔ تم بس صرف اتنا کرو کہ اپنی اور قربانی کی کھال ہمارے حوالے کرو اور زکوۃ کو فضول لوگوں میں بانٹنے کے ہمیں دیا کرو۔ یہ ایک بہت ہی قدیم ترین کاروبار کی جدید شکل ہے۔ تاریخ میں ہمیں یہ نوشتہ ملتاہے کہ جب پوتھی اور تلوار، کتاب اور تاج اور حکمران و مذہبی پروہت کے درمیان وہ معاہدہ ’’طے پا‘‘ گیا کہ تم بھی چوسو اور مجھے بھی چوسنے دو۔ جب اس دو طرفہ مار کی بدولت عوام کی زندگی دوزخ بن جاتی تھی، غلہ پیدا کرنے  کے باوجود نان شبینہ کو محتاج، عمارات بنانے کے باوجود بے گھر، کپڑا بننے کے باوجود ننگا۔ اور دنیا جہاں کو کھلانے والا بھوکا رہ جاتا تھا۔

تو ایسے میں ’’مخیر‘‘ اس کی دستگیری کے پردے میں مزید لوٹنے کے لیے آ جاتا تھا کہ تمہارے اعمال خراب ہیں دیوتا تم سے ناراض ہیں کچھ لاؤ کہ ہم تمہارے لیے دیوتاوں کو راضی اور قسمت کو مہربان کر دیں۔ سیدھی سی بات ہے۔

حکومت نے رلایا تو مخیر ادارہ سامنے آیا۔ مخیرادارے نے بھکاری بنا دیا تو بھکاری تو بھکاری ہوتا ہے حقدار نہیں ہوتا۔ ہمارے خیال میں اگرآج ہی ان مخیر اداروں کا قلع قمع کر دیا جائے تو دوسرے دن حکومتیں چاہے نہ چاہے اپنے فرائض ادا کرنے پر مجبور ہوں گی۔ لیکن اب کیوں اپنے فرائض ادا کریں کہ مخیر ادارے بھیک دینے کے لیے موجود ہیں۔

یہی وہ بات ہے جو ہم کہنا چاہ رہے تھے لیکن ڈرتے بھی تھے کہ یہ اپنے بڑے بڑے ’’مخیرادارے‘‘ کہیں ایسا نہ کر دیں یا ویسا نہ کر دیں لیکن اب مجبوری ہے کہ پانی سر سے بھی کئی نیزے اوپر ہو چکا ہے۔ آپ اتفاق کریں یا نہ کریں، عوام کی بدحالی کے اصل ذمے دار اور حکومتوں کی حرام خوریوں کے مددگار اور ساجھے داریہی مخیر ادارے ہیں کہ حکومتیں جینے نہیں دیتیں اور یہ مرنے نہیں دیتے۔ کیونکہ اگر گائے مر گئی تو دونوں کے منہ سے دودھ کی بوتل چھوٹ جائے گی۔

منہ سے ہم آپ برُا تو نہیں کہتے کہ فراق

ہے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔