امریکا سے خیر کی توقع؟

عبدالقادر حسن  بدھ 21 اگست 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

اطلاعات کے مطابق افغان طالبان اور امریکا کے درمیان بہت جلد صلح ہونے والی ہے جس کے نتیجے میں امریکا افغانستان سے مرحلہ وار اپنا فوجی قبضہ ختم کر دے گا۔ امریکی قبضے کے خاتمے میں پاکستان کا کردار بھی نہایت اہم ہے۔

ہمارے وزیر اعظم کے دورہ امریکا میں صدر ٹرمپ نے پاکستانی وزیر اعظم کے ذمے یہ کام لگایا ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے امریکا کی افغانستان سے جان خلاصی کرائیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکا پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان سے نہیں نکل سکتا اس لیے امریکا اس وقت پاکستان کی خوشامد کر رہا ہے۔ امریکی صدر نے تو بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ اور زبردستی قبضہ کر کے اسے اپنے ملک کا ایک حصہ بنانے سے قبل ہی کشمیر پر ثالثی کی پیشکش بھی کر دی تھی۔

دنیا کی واحد سپر پاور کے علم میں شائدیہ بات پہلے سے تھی اور اس کے قدرتی حلیف بھارت نے اپنے مجوزہ قدم سے امریکا کو پہلے ہی آگاہ کر رکھا تھااب یہ حکومت پاکستان اور ہمارے پالیسی سازوں پر منحصر ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر امریکی حمایت اور ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ یہ وقت ہے جب امریکا کی پاکستان کو ایک بار پھر ضرورت ہے اس لیے پاکستان کو اپنے کارڈز نہایت دانشمندی سے کھیلنا ہوں گے۔ اس خطے میں امریکا کے بہت سارے مفاد وابستہ ہیں اس لیے امریکا کی یہ کوشش ہو گی کہ وہ کسی بھی ایک فریق کو ناراض کیے بغیر کشمیر کا کوئی ایسا حل پیش کر سکے جو دونوں فریقوں پاکستان اور بھارت کے علاوہ کشمیریوں کے لیے بھی قابل قبول ہو۔

افغانستان کی اگر بات کی جائے تو امریکا جو افغان طالبان کو تسلیم نہیں کرتا اور یہ وہی طالبان ہیں جن کا امریکا کے زیر قبضہ افغانستان کی سر زمین پر سکہ چلتا ہے یہ ایسے ہی ہے جیسے ماضی میں امریکا کبھی عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کو بھی تسلیم نہیں کرتا تھا اور جزیرہ تائیوان کی چیانگ کائی شیک کی حکومت کو چین کی حکومت سمجھتا تھا، اس زمانے میں برطانیہ کے بلا کے ذہین ایک کارٹونسٹ وکی نے امریکی وزیر خارجہ جان فاسٹر کا ایک کارٹون چھاپا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ نظر کا چشمہ لگاتا تھا کارٹون میں اس چشمے کے شیشوں پر دیوار چین بنا کر انھیں بند کر دیا گیا اور چہرہ ایک اندھے آدمی جیسا تھا ہر قسم کے تاثر سے خالی ۔ آج امریکا طالبان کو تسلیم نہیں کرتا اور ان کو دھمکیاں بھی دیتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ مذاکرات کا ڈول بھی ڈال رکھا ہے اور شنید یہ ہے کہ امریکا طالبان مذاکرات بہت جلد کامیاب ہونے والے ہیں مگر ان مذاکرات کے دشمن بھی اپنا کام کر رہے ہیں وہ یہ نہیں چاہتے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان صلح ہو۔

مذاکرات مخالفوں میں بھارت سر فہرست ہے جو افغانستان کے راستے پاکستان میںشورش برپا کرنا چاہتا ہے جب کہ افغانستان کی موجودہ حکومت کے کار پرداز بھی اس صلح کے حق میں نہیں ہیں، اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ طالبان کی عملداری میں ان کی حیثیت ختم ہو جائے گی۔

امریکا افغانستان سے مرحلہ وار واپس جانا چاہتا ہے جب کہ افغان طالبان کا کہنا ہے کہ امریکا ایک ہی وقت میں ان کا ملک خالی کر دے، اسی نقطے پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔ امریکا ان حالات میں کیا کرے گا اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ امریکا وہ کرے گا جو آج کے حالات کے مطابق اس کے مفاد میں ہو گا ۔ پاکستان سے امریکی توقعات بہت زیادہ ہیں کچھ عرصہ پہلے تک امریکا پاکستان سے شکوے شکایت کر رہا تھا کہ پاکستان اس کے خطے میںاہداف پورے نہیں کر رہا اور اب یکایک امریکا پاکستان پردل و جان سے فریفتہ نظر آرہا ہے۔

اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ امریکا کو ایک بار پھر افغانستان میں پاکستان کی ضرورت ہے۔ افغان مسئلے پر امریکا کا مفاد یہی ہے کہ پاکستان اس نازک موقع پر اس کا بھر پور ساتھ دے۔ امریکا کا یہ طریقہ واردات ہے کہ وہ پہلے اپنا مطلب نکالنے کے لیے کمزور حریف کو ڈراتا دھمکاتا ہے ، اگر مخالف فریق اکڑ جائے تو امریکا بھی اپنے مطلب کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دیتا ہے اور مناسب وقت کا انتظار کرتا ہے۔ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ شمالی کوریا کے ساتھ بالآخر امریکا کو سودا بازی کر کے اپنا مطلب نکالنا پڑا ۔

جلد یا بدیر امریکی طالبان مذاکرات بھی کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر کامیاب ہو جائیں گے اور دنیا دیکھے گی کہ روس کی طرح امریکا بھی افغانستان سے ناکام و نامراد سات سمندر پار واپس لوٹ جائے گا ۔ روسی تو صرف دریائے آمو کو پار کر کے حسرت بھری آنکھوں سے افغانستان کودیکھتے واپس اپنے ملک لوٹ گئے تھے مگر امریکا تو اپنے لاؤ لشکر سمیت سات سمندر پار جانے کے لیے طالبان اور پاکستان کی مدد کا طلبگار ہے کیونکہ ان دونوں فریقوں کی مدد کے بغیر وہ اپنے فوجیوں کو افغانستان کے قبرستان میں دفن کر کے واپس جانے کو ترجیح نہیں دے گا۔

اس لیے امریکا کو ہر حال میں طالبان کی حمایت اور پاکستان کی مدد درکار ہے۔ اب یہ ان دونوں فریقوں پر منحصر ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ کن شرائط پر معاہدہ کرتے ہیں۔ طالبان کی یہ خواہش ہے کہ امریکا کے جانے کے بعد افغانستان ان کے حوالے کر دیا جائے جہاں پر وہ اپنی مرضی کی حکومت قائم کر سکیں جب کہ امریکا کے ماضی پر اگر نظر ڈالی جائے تو وہ اپنے مقبوضہ ملکوں سے جب بھی واپس گیا وہاں کے عوام کو بے یار و مددگار چھوڑ گیا اور وہ ملک امریکا کی واپسی کے بعد خانہ جنگی کا شکار ہو گئے۔

ہمارا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ روس افغان جنگ کے خاتمے کے بعد ہمیںطالبان کا تحفہ ملا وہی طالبان مجاہدین جنھوںنے اپنی دشمن سپر پاور سوویت یونین کو بہادرافغانیوں کی مدد کر کے تباہ کر دیا مگر جب افغانستان کی جنگ ختم ہو گئی تو امریکا ان افغانوں اور طالبان مجاہدین کو بے یار و مددگار چھوڑ کر اپنا بوریا بستر سمیٹ کر واپس روانہ ہو گیا اور اپنے پیچھے مجاہدین کے لشکر چھوڑ گیا جو کسی ایک قیادت پر متفق نہ ہونے کے باعث آپس میں دست و گریباں رہے، نتیجے میں اسامہ بن لادن کو بہانہ بنا کر امریکا افغانستان واپس لوٹ آیا اور جن مجاہدین کو اس نے خود پال پوس کر جوان کیا تھا، انھی کو تباہ و برباد کر دیا مگر ان بہادر نوجوانوں نے اپنے سابقہ دوست کا خوب مقابلہ کیا اور آج یہ حالت ہے کہ امریکا ان سے واپسی کا محفوظ راستہ مانگ رہا ہے۔

واپسی کا محفوظ راستہ طالبان اور پاکستان نے مل کر دینا ہے مگر امریکا کو افغانستان کاکوئی ایسا قابل عمل حل نکال کر واپسی کرنا ہو گی تا کہ اس کے جانے کے بعد افغانی ایک بار پھر آپس میں نہ الجھ جائیں۔ مستحکم اور مضبوط افغانستان پاکستان کی ضرورت ہے اور اس ضرورت کو افغان طالبان اور پاکستان کی قیادت نے مل کر پورا کرنا ہے۔ امریکا تو وہی کرے گا جو وہ آج تک اپنے محکوموں کے ساتھ کرتا آیا ہے، اس سے خیر کی توقع عبث اور اس پر اعتبار بے وقوفی ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔