برازیل میں شہد کی مکھیوں کی تیز رفتار اموات سے ماہرین فکرمند

ویب ڈیسک  بدھ 21 اگست 2019
برازیل میں کیڑے مار دواؤں کے اندھا دھند استعمال سے اس سال کے نصف عرصے میں 50 کروڑ سے زائد شہد کی مکھیاں ہلاک ہوچکی ہیں (فوٹو: فائل)

برازیل میں کیڑے مار دواؤں کے اندھا دھند استعمال سے اس سال کے نصف عرصے میں 50 کروڑ سے زائد شہد کی مکھیاں ہلاک ہوچکی ہیں (فوٹو: فائل)

ریو ڈی جنیرو: شہد کی مکھیاں زراعت اور کھیتی باڑی کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ اگر یہ مکھیاں آج ختم ہوجائیں تو صرف چند مہینوں میں انسانیت کو غذا کے لالے پڑجائیں گے۔

اب برازیل سے یہ خبر آئی ہے کہ وہاں شہد کی مکھیوں کے مرنے کی رفتار بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور سال 2019 کے ابتدائی ماہ سے اب تک پچاس کروڑ شہد کی مکھیاں مرچکی ہیں جبکہ ماہرین نے مردہ شہد کی مکھیوں کے ڈھیر خود دیکھے ہیں۔

شہد کی مکھیاں پالنے والی تنظیم کے سربراہ آلدہ مخاڈو کے مطابق جب زندہ مکھیاں مردہ مکھیوں کے ڈھیر کو صاف کرنے آئیں تو وہ خود آلودہ اور بیمار ہوکر مرنے لگیں اور یوں مکھیوں کی تباہی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔

محتاط اندازے لگانے کے بعد ماہرین نے بتایا کہ اس سال کی ابتدا سے اب تک برازیل کے چار جنوبی صوبوں میں نصف ارب یعنی 50 کروڑ مکھیاں ہلاک ہوچکی ہیں۔ اس کی وجہ زراعت میں استعمال ہونے والی کیڑے مار دواؤں کا اندھا دھند استعمال ہے جو مکھیوں کےلیے جان لیوا زہر سے کم نہیں۔

اکثر مکھیوں میں ’فپرونِل‘ دوا کے آثار ملے ہیں جس پر امریکا اور یورپ میں پہلے ہی انسانی کینسر کے خدشات کے تحت پابندی عائد کردی گئی ہے لیکن برازیل میں نہ صرف کھلے عام یہ حشرات کش دوا استعمال ہورہی ہے بلکہ مزید قوانین کو نرم بنا کر ممنوعہ ادویہ بیچنے کےلیے آزادی مہیا کردی گئی ہے۔

برازیل کے کھیت اب مضر کیمیکلز سے اٹے پڑے ہیں کیونکہ 1990 سے 2016 تک وہاں فصلوں پر کیڑے مار دواؤں کے استعمال میں سات گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اس طرح 20 فیصد اجناس، پھل اور سبزیاں مضر کیمیکلز سے بری طرح آلودہ ہیں لیکن اس کی پہلی شکار مکھیاں ہیں جو ہر زرعی ٹکڑے کی بقا کی ضامن ہیں۔

صرف 2018 میں ہی برازیل میں کیڑے مار ادویہ کے زہر سے انسانوں کے متاثر ہونے کے 15 ہزار سے واقعات رجسٹر ہوچکے ہیں اور غریب کسان اس کا سب سے پہلا شکارہیں۔ 2018 میں ایک خاتون ہلاک ہوئیں، بعض پھیپھڑے کے مرض میں گرفتار ہوئے اور ایک شخص نابینا بھی ہوگیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔