- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی میچ بارش کے باعث تاخیر کا شکار
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت، سابق ایس پی کلفٹن براہ راست ملوث ہونے کا انکشاف
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
- خیبر پختونخوا میں بیوٹی پارلرز اور شادی ہالوں پر فکسڈ ٹیکس لگانے کا فیصلہ
- سعودی عرب میں قرآنی آیات کی بے حرمتی کرنے والا ملعون گرفتار
- سائنس دان سونے کی ایک ایٹم موٹی تہہ ’گولڈین‘ بنانے میں کامیاب
- آسٹریلیا کے سب سے بڑے کدو میں بیٹھ کر شہری کا دریا کا سفر
- انسانی خون کے پیاسے بیکٹیریا
- ڈی آئی خان میں دہشتگردوں کی فائرنگ سے بچی سمیت 4 کسٹم اہلکار جاں بحق
- سینیٹر مشاہد حسین نے افریقا کے حوالے سے پاکستان کے پہلے تھنک ٹینک کا افتتاح کردیا
- گوگل نے اسرائیل کیخلاف احتجاج کرنے والے 28 ملازمین کو برطرف دیا
- آپریشن رجیم میں سعودی عرب کا کوئی کردار نہیں، عمران خان
- ملک کو حالیہ سیاسی بحران سے نکالنے کی ضرورت ہے، صدر مملکت
- سعودی سرمایہ کاری میں کوئی لاپرواہی قبول نہیں، وزیراعظم
- ایرانی صدر کا دورہِ پاکستان اسرائیل کے پس منظر میں نہ دیکھا جائے، اسحاق ڈار
رابطے جوڑتی سائٹس رشتے توڑ بھی دیتی ہیں
سماجی رابطے کی ویب سائٹس نے دنیا کے ایک کونے میں رہنے والے شخص کے تعلقات دوسرے کونے میں رہائش پذیر فرد سے تو استوار کردیے ہیں، لیکن ایک ہی محلے بل کہ ایک ہی گھر میں اور ایک ہی چھت تلے رہنے والے افراد کے ’’نجی تعلقات‘‘ میں دراڑ پیدا کردی ہے۔
ہم میں سے زیادہ تر لوگ ان سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے اس حد تک عادی ہوچکے ہیں کہ اپنے دکھ سکھ، خوشی غمی، غرض یہ کہ اپنی زندگی میں پیش آنے والے تمام حالات و واقعات کو فیس بک، ٹوئٹر یا اس جیسی دوسری ویب سائٹس پر پوسٹ کر دیتے ہیں ۔ لیکن فاصلوں سے قربت کی چاہ نے قریبی رشتوں میں فاصلے بڑھا دیے ہیں۔
حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ فیس بک، ٹوئٹر، مائی اسپیس اور انسٹا گرام جیسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس طلاق اور طلاق کے لیے عدالت میں چلنے والے مقدمات پر بہت اثر انداز ہوتی ہیں۔
امریکی جریدے فاربس میں شایع ہونے والے اس سروے کے مطابق سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر شادی شدہ جوڑوں کے درجنوں میوچل فرینڈز ہوتے ہیں۔ اور بعض اوقات شوہر یا بیوی کی کاروباری یا تفریحی دورے پر جنس مخالف کے ساتھ لی گئی تصاویر ازدواجی تعلقات کشیدہ کر دیتی ہیں، کیوں کہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصاویر یا معلومات نجی نہیں رہتیں، بل کہ اس سے آپ کے میوچل فرینڈز اور ان کے فرینڈز تک آگاہ ہوجاتے ہیں اور معلومات کا اتنا وسیع پھیلاؤ ہی بعض اوقات طلاق کا سبب بن جاتا ہے، جب کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر اپ ڈیٹ کیا گیا اسٹیٹس بھی کسی تنازع کا سبب بن سکتا ہے۔
اس حوالے سے طلاق کے معاملات پر متعدد کتابیں لکھنے والے جیف لینڈر کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نہ صرف طلاق، بل کہ طلاق کے لیے عدالت میں چلنے والے مقدمات پر بھی اثرانداز ہوتا ہے، کیوں کہ سوشل میڈیا پر آپ کی نجی اور کاروباری معلومات ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ فرینڈز لسٹ میں کسی کو بلاک کرنے سے آپ کے اسٹیٹس یا تصاویر تک اس کی رسائی ختم ہوگئی، لیکن یہ محض آپ کی خام خیالی ہے، کیوں کہ میوچل فرینڈز کے ذریعے کوئی بھی شخص آپ کی ساری ایکٹویٹی سے باخبر رہ سکتا ہے۔
جیف لینڈر نے بتایا کہ طلاق کے لیے آنے والے کئی کیسز میں ایسا ہوتا ہے کہ شوہر اپنے اثاثے چھپانے کی کوشش کرتا ہے لیکن سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر اس کا اسٹیٹس، تفریحی اور کاروباری دوروں کی تصاویر حقیقت آشکار کردیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سوشل ویب سائٹس پر ٹیکسٹ میسج، ای میل سمیت دوسری سرگرمیوں کو بطور ثبوت عدالت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شادی سے قبل کچھ جوڑے اپنی باتیں چھپاتے ہیں، لیکن ماضی میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کی گئی پوسٹ اور تصاویر ازدواجی تعلقات کشیدہ کر دیتی ہیں۔
جس کا نتیجہ بعض اوقات طلاق کی صورت میں نکلتا ہے اور اگر آپ اپنے ازدواجی تعلقات کو ختم نہیں کرنا چاہتے تو آپ کو چاہیے کہ سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس پر اپنی نجی معلومات یا تصاویر پوسٹ نہ کریں اور کسی بات کو اپنے شریک حیات سے نہ چھپائیں۔ کیوں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو چھپانے سے پیدا ہونے والی غلط فہمیاں بڑے مسائل کا سبب بنتی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔