سرگودھا کے گول چکر اور مجسمہ سازی

محمد ساجدالرحمٰن  جمعرات 22 اگست 2019
شاہینوں کا شہر سرگودھا اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث خاص اہمیت کا حامل ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

شاہینوں کا شہر سرگودھا اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث خاص اہمیت کا حامل ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

شاہینوں کا شہر سرگودھا اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو درجنوں نعمتوں سے نوازا ہے۔ یہ پاکستان کا واحد شہر ہے جسے سب سے پہلے انگریز حکومت نے 1903 میں ماسٹر پلان کے تحت آباد کیا اور یہاں ایک عسکری ایئرپورٹ اور فوجی چھاؤنی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سرگودھا کی سرزمین نے جہاں کئی عظیم لیڈروں کو جنم دیا، وہیں اس مٹی سے پیدا ہونے والے پھل اور اناج پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں۔ سرگودھا کے رہائشیوں کی آمدن کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔ اپنے زرخیر زرعی رقبے اور کینو کی پیداوار کے باعث اسے کیلیفورنیا آف پاکستان کہا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی لکڑی پر کشیدہ کاری کے ہنر کو بھی پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

قیام پاکستان سے لے کر موجودہ سیاسی کھینچاتانی تک سرگودھا انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس سرزمین سے درجنوں ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے فرنگیوں کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ تحریک پاکستان میں بھی انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ ان عظیم شخصیات میں فتح خان بلوچ، مفتی محمد شفیع، خواجہ ضیا الدین سیالوی، خواجہ قمرالدین سیالوی، ملک فیروز خان نون، ملک خضر حیات ٹوانہ، سر نواب محمد حیات قریشی، محمد حسین مرولوی، مولانا ظہور حسن بگوی اور مولانا نقشبند شامل تھے۔ قیام پاکستان کے وقت یہ علاقہ آل انڈیا مسلم لیگ کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی مصروف ترین سرگرمیوں کے باوجود سرگودھا کا 2 بار دورہ کیا۔ 1965 کی جنگ میں اہل سرگودھا کی جانب سے بہادری اور جواں مردی دکھانے پر اس شہر کو نشان استقلال اور صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ موجودہ دور میں یہ علاقہ مسلم لیگ (ن) کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔

جیسا کہ تحریر کے آغاز میں ذکر کیا گیا ہے کہ یہ شہر ایک پلان کے تحت بنایا گیا، لیکن بدقسمتی سے انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے کئی دہائیوں بعد بھی اس شہر کو وہ خوبصورتی اور رعنائی حاصل نہیں ہوسکی جس کا یہ حقدار تھا۔ ہر سیاسی جماعت نے اپنے دور اقتدار میں اس شہر کی تقدیر کو بدلنے کےلیے کئی سہانے خواب دکھائے لیکن شاید وہ صرف آنکھوں میں سمائے رکھنے کےلیے ہی تھے۔ عملی طور کوئی بھی منصوبہ شہر کی قسمت بدلنے میں کارآمد ثابت نہ ہوسکا۔

پارک اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی نے شہر کو سرسبز بنانے کےلیے درجنوں منصوبوں کا آغاز کیا، لیکن مالی بحران کے باعث اس ادارے کو بلڈرز اینڈ ڈیولپرز سے مدد مانگنا پڑی۔ شہر بھر میں درجن بھر راؤنڈ اباؤٹ بنائے گئے، جن پر ہاؤسنگ سوسائٹیز کی مشہوری کےلیے تختیاں بھی آویزاں کی گئیں۔ انتظامیہ کے مطابق گول چکر شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگارہے ہیں۔ پنجاب کے دیگر اضلاع کی نسبت سرگودھا واحد شہر ہے جہاں صرف ایک روڈ کے چوراہوں پر خوبصورتی کی غرض سے درجن بھر راؤنڈ اباؤٹ بنائے گئے ہیں، جو کہ ٹریفک کی روانی کو بری طرح متاثر کررہے ہیں۔

تھانہ کینٹ کی پارکنگ ہو یا ریسکیو 1122 کے بل بورڈ، ہر جگہ انتظامیہ کو اسپانسرز کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کیا ادارے اس قدر مفلوج ہوچکے ہیں کہ اپنے بجٹ سے پارکنگ اسٹینڈ یا بل بورڈ بنوانے سے بھی قاصر ہیں۔ یہ اسپانسر ان منصوبوں کے عوض اداروں کو نہ صرف بلیک میل کرتے ہیں بلکہ دھونس اور دھاندلی سے غیر قانونی کام بھی کروائے جاتے ہیں۔

سرگودھا شہر میں چار اہم روڈ ہیں جن میں لاری اڈا روڈ، یونیورسٹی روڈ، کچہری روڈ اور جیل روڈ شامل ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کی پوری توجہ صرف انہی چار راستوں کو سجانے پر ہوتی ہے۔ محلوں کی سیوریج اور گلیوں کی حالت زار پر انتظامیہ کا دھیان صرف الیکشن یا کسی حکومتی رہنما کی سفارش ہونے کے بعد ہی جاتا ہے۔ زیادہ تر گلیوں سے سیوریج کا پانی خشک ہونے میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔

جیل روڈ کی بات کی جائے تو تقریباً تمام مین ہول ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، حالانکہ اس راستے کے اردگرد انتہائی اہم دفاتر جن میں ڈسٹرکٹ جیل، پولیس ٹریننگ اسکول، آر پی او آفس، آرمی پبلک اسکول وغیرہ شامل ہیں۔ اتنے اہم دفاتر ہونے کے باوجود بھی انتظامیہ کو اس روڈ کو بہتر بنانے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ یونیورسٹی روڈ کی پھولوں کے بجائے سیکڑوں چھوٹے بڑے بل بورڈ کی مدد سے تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ خوشاب روڈ سے شروع ہونے والا بل بورڈز کا یہ سلسلہ شہر کے عین وسط سے ہوتا ہوا لاہور روڈ سے جاملتا ہے۔ لاری اڈا روڈ دھول اور مٹی کے باعث اپنی مثال آپ ہے۔ کئی کئی دن کوڑے کے ڈھیر اس روڈ کی زینت بنے رہتے ہیں۔ اخباری نمائندوں کی جانب سے بار بار فوٹوگرافی کرنے پر انتظامیہ کو مجبوراً اس خوبصورتی کو عوام سے چھپانا پڑتا ہے۔ عوام بھی ان مناظر کے خوب دلدادہ ہیں۔

سرگودھا کی آب و ہوا انتہائی صحت افزا ہے۔ 18 ویں صدی کے جاپانی رکشے دھویں کے بادل اٹھاتے چلے جاتے ہیں اور شہری خود کو ٹوکیو کی سڑکوں پر رواں دواں محسوس کرتے ہیں۔ ہم نصابی سرگرمیوں کے فروغ کےلیے میلہ منڈی گراؤنڈ کا قیام عمل میں لایا گیا، جہاں جشن بہاراں سمیت درجنوں تقاریب اور کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ انتظامیہ کی بھرپور توجہ کے باعث یہ گراؤنڈ کھنڈر و بیابان کا منظر پیش کررہا ہے۔ ایک چھوٹا سا پہاڑی سلسلہ کرانہ بار جو اپنے کرش کے معیار کے باعث پاکستان بھر میں مشہور ہے۔ انتظامیہ اونے پونے روپوں میں کرشنگ کے ٹھیکے طے کرتی ہے اور سرگودھا اس قدرتی حسن سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ اگر انتظامیہ نے اس معاملے پر فوری توجہ نہ دی تو مستقبل قریب میں یہ پہاڑی سلسلہ مکمل ختم ہوجائے گا۔

شہر میں ٹریفک کا نظام پوری طرح درہم برہم ہے۔ اسکولوں اور کالجز کی چھٹی کے وقت ٹریفک جام روز کا معمول ہے۔ باقی کی رہی سہی کسر ٹریفک کو کنٹرول کرنے کی غرض سے لگائے جانے والے اشارے پوری کردیتے ہیں۔ میرا ہرگز مطلب ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہیں، بلکہ اعتراض ایسے چوراہوں پر لگائے اشاروں پر ہے، جو ٹریفک جام کا باعث بنتے ہیں۔ شہر میں جس کی گاڑی اس کا روڈ کا نظام رائج ہے، جہاں دل چاہا گاڑی کو پارک کردیا۔

شاندار انتظامی منصوبوں کے باعث سرگودھا کے شہری میٹھے پانی کی نعمت سے بھی محروم ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائیٹز اور کالونیوں میں سیوریج کےلیے بچھائی گئی ناقص پائپ لائنز کے باعث 70 فیصد زیر زمین پانی ناقابل استعمال ہوچکا ہے جبکہ پانی کے معیار کو چیک کرنے کےلیے بنائی گئی لیبارٹری صرف کاغذی رپورٹس بنانے میں مصروف ہے۔ ڈی پی او چوک میں لگے نلکے کسی میلے کا منظر پیش کرتے ہیں۔ شہر کے وسط میں صاف پانی کے حصول کےلیے عوام کی تگ ودو انتظامیہ کا منہ چڑھانے کےلیے کافی ہے۔ صبح سویرے واٹر پلانٹس کے باہر عوام کا رش دیکھ کر سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ آخر اس شہر کو کس پلان کے تحت آباد کیا گیا ہے۔

سرگودھا کے رہائشیوں کو کیلیفورنیا کے لقب یا نشان استقلال سے اس وقت تک کوئی غرض نہیں جب تک ان کےلیے بنیادی ضروریات کی فراہمی یقینی نہیں بنائی جاتی۔ بیچ سڑک میں پتلے لگانے کے بجائے اگر روڈ کے سائیڈ یا چوک کے نکڑ پر لگائے جاتے تو شاید ٹریفک کا نظام بھی خراب نہ ہوتا اور شہر کی خوبصورتی میں بھی مزید اضافہ ہوتا۔ ادارے عام شہری کی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے بنائے جاتے ہیں جبکہ اخراجات کےلیے حکومت ہر سال کروڑوں روپے کے فنڈز جاری کرتی ہے، لیکن جب مافیا کے پیسے سرکاری املاک کی مشہوری کےلیے استعمال ہونے لگیں تو اداروں کی کریڈیبلیٹی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔