مہلت

ایاز خان  پير 23 ستمبر 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

تقریباً ایک ہفتہ پہلے میں پشاور میں تھا۔ وہاں لوگوں کے چہروں اور ان کے لہجوں میں قدرے اطمینان محسوس کر کے خوشی ہوئی۔ اہل پشاور پر اعتماد تھے کہ ان کے شہر بلکہ صوبے کے حالات بھی آخر کار ٹھیک ہو جائیں گے۔ خوشی کے ساتھ ساتھ مجھے اس بات پر حیرت بھی تھی کہ جس صوبے اور شہر میں مسلسل خود کش دھماکے ہو رہے ہوں وہاں کے لوگ امید کا دامن کس طرح تھامے رہ سکتے ہیں۔ اس حیرت کی وجہ کچھ اور بھی تھی۔ ہوا یوں کہ پشاور جانے سے کوئی دوہفتہ پہلے میں کراچی میں تھا۔ میں نے وہاں متعدد افراد سے یہ پوچھا تھا کہ کیا آپریشن کے بعد حالات نارمل ہو جائیں گے۔ سب کا جواب نفی میں تھا۔

میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اہل کراچی اس قدر مایوسی کا شکار ہوں گے۔ میری اس سوچ کی وجہ یہ بھی تھی کہ ن لیگ کی حکومت نے کراچی میں امن و امان کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا تھا۔ وفاقی کابینہ کا غیر معمولی اجلاس بھی شہر قائد میں منعقد کیا گیا۔ آپریشن کے مثبت نتائج بھی دکھائی دے رہے تھے‘ پھر بھی لوگ مایوس تھے۔ مایوسی کو اس لیے گناہ قرار دیا گیا ہے کہ جب امید دم توڑتی ہے تو بہتری کا رہا سہا امکان بھی ختم ہو جاتا ہے۔ پشاور میں اتوار کی سروس کے دوران خیبر پختونخوا کے تاریخی چرچ میں دو خود کش دھماکوں نے ہر پاکستانی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

خدا نہ کرے کہ پشاور کے شہری بھی اہل کراچی کی طرح مایوس ہو جائیں۔ مسیحی برادری پر حملے توکئی بار ہوئے لیکن اس نوعیت کی ہلاکت خیز کارروائی پہلی بار ہوئی ہے۔ کسی ایک کارروائی میں اتنے بے گناہ مسیحیوں کو ہلاک کر دینے کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ہے۔ 34 خواتین اور 7 بچے بھی 80 سے زائد مرنے والوں میں شامل ہیں۔ تین روزہ سوگ کا اعلان ہوا ہے‘ مذمتیں بھی جاری ہیں۔ مسیحی برادری سراپا احتجاج ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ سوگ اور احتجاج کچھ چند دن چلے گا، اس کے بعد کسی اور بڑے سانحے تک سکوت طاری ہو جائے گا۔ ایک سانحے سے دوسرے سانحے کے درمیانی وقفے کو ہم اپنے لیے غنیمت سمجھیں گے۔ وطن عزیز میں امن نام کی فاختہ اسی وقفے میں دکھائی دیتی ہے۔

خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ اتوار کی صبح پشاور کے کوہاٹی گیٹ چرچ میں عبادت ختم ہونے کے بعد پونے بارہ بجے کے قریب کھانے پینے کی اشیا تقسیم ہو رہی تھیں کہ دو خود کش حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ لاشوں اور زخمیوںکے ڈھیر لگ گئے مگر کسی صوبائی وزیر کو چرچ کا دورہ کر کے دکھ کی اس گھڑی میں لواحقین کو دلاسا دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔ وہ اپنے اپنے محفوظ ٹھکانوں پر بیٹھے تماشا دیکھتے رہے۔ عمران خان 5 سے 6 بجے کے درمیان پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال پہنچے اور وہاں اپنے وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزرا کے ساتھ میڈیا سے بات چیت کی۔ وفاقی وزیر داخلہ وزیر اعظم کے حکم پر پشاور گئے لیکن رات 9 بجے کے بعد ہی اسپتال میں زخمیوں اور ان کے لواحقین نے نثار صاحب کا دیدار کیا۔ یہ حکومت کا حال ہے۔

سیاستدانوں میںخیبر پختونخوا کے سابق وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین ہی وہ واحد شخص تھے جو دھماکوں کے فوری بعد چرچ پہنچ گئے تھے۔ میاں افتخار کا تعلق اے این پی سے ہے اور گزشتہ پانچ سال یہ جماعت دہشت گردوں کے ٹارگٹ پر رہی ہے۔ میاں افتخار کا اکلوتا جواں سال بیٹا بھی دہشت گردی کی ایک کارروائی میں شہید ہو گیا تھا۔ اے این پی کی حکومت پر ہم مسلسل تنقید کرتے رہے لیکن پرسوں اس کے ایک لیڈر نے ثابت کیا کہ وہ خطروں کی پروا نہ کرتے ہوئے متاثرین کے دکھ میں شریک ہونے کے لیے سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔ تحریک انصاف کے وزیر تو شروع میں جنازوں میں بھی نہیں جاتے تھے۔ تنقید نے شدت اختیار کی تو انھوں نے جنازوںمیں جانا شروع کر دیا۔ مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی ختم کرنے کی سب سے بڑی وکیل تحریک انصاف ہے۔

اس سانحے کے بعد بھی کپتان اور ان کی ٹیم اپنے موقف پر قائم ہے؟ اب ان کی فہم اور بصیرت پر تبصرے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ امریکا جاتے ہوئے لندن سے وزیر اعظم نواز شریف کا جو پہلا ردعمل سامنے آیا تھا اس میں مذاکرات کے حوالے سے مایوسی کی جھلک تھی۔ اس مایوسی کا انجام کیا ہو گا؟ آپریشن یا کچھ عرصے بعد مذاکرات کے آپشن کی طرف واپسی۔ پشاور کے سانحے کے بعد رائے عامہ کیا رخ اختیار کرتی ہے‘ اس سے پتہ چلے گا کہ حکومت کس آپشن کو پہلے اختیار کرے گی۔ امریکا میں بھی میاں صاحب کی جس لیڈر سے بھی بات ہو گی وہ دہشت گردی کی اس کارروائی کا ضرور ذکر کرے گا۔ تحریک طالبان پاکستان نے چرچ میں خود کش دھماکوں سے لاتعلقی اختیار کی ہے‘ ان سے منسلک ایک گروپ جندل الحفصہ نے ذمے داری قبول کی ہے۔ بعض تجزیہ نگار اسے القاعدہ کی کارروائی کہہ رہے ہیں۔

نیروبی اور پشاور کی کارروائیوں میں مماثلت بھی تلاش کی جا رہی ہے۔ اس استدلال میں وزن ہے۔ القاعدہ مذاکرات پر یقین نہیں رکھتی۔ مسلمان ملکوں میں جو کچھ القاعدہ کر رہی ہے وہ ان ملکوں کی خدمت تو نہیں ہو سکتی۔ ایک کے بعد دوسرا مسلمان ملک نشانے پر ہے۔ آصف علی زرداری نے اپنی صدارت کی آخری شام یہ کہا تھا کہ وہ شام کے علاوہ پاکستان کے لیے بھی خطرات دیکھ رہے ہیں۔ شام میں تباہی و بربادی کے خوفناک کھیل کے بعد یہ طے پایا ہے کہ اس کے کیمیائی ہتھیار آیندہ سال کے وسط تک تلف کر دیے جائیں گے۔ شام کی حکومت اچھے بچوں والا طرز عمل اپنا چکی ہے۔

وہ کیمیائی ہتھیاروں کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارے او پی سی ڈبلیو کو مہلت ختم ہونے سے پہلے کیمیائی ہتھیاروں کی تفصیل جمع کرا چکی ہے۔ اسرائیل اور امریکا کی ایک سر درد تو ختم ہوئی۔ پاکستان ایٹمی قوت ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے پاکستان کا یہ اسٹیٹس قابل قبول نہیں ہے۔ امریکا کسی دن کوئی غیر معمولی مطالبہ کرے گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے پاس زیادہ مہلت ہے۔ اس مطالبے تک کی درمیانی مدت میں ہمیں بہت کچھ کرنا ہے۔ کیا ہمارے اندر اس کی صلاحیت ہے۔

سانحہ پشاور نے پاکستانی قوم کے سرجھکا دیے ہیں۔ اس کے پاس اپنی صفائی کے لیے کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ البتہ ہم ایک طریقے سے قرض چکا سکتے ہیں۔ ہمیں گھروں سے باہر نکلنا ہو گا۔ سیاسی جماعتوں سے مجھے امید نہیں ہے، ان کی قیادت کم فمہی، بے بصیرتی، مصلحت اندیشی اور بزدلی کا شکار ہو چکی ہے۔ سچی بات ہے ایسی مردہ ضمیر قیادت قوم کو ڈبو تو سکتی ہے، اسے ڈبونے سے بچانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اگر ملک کی سیاسی قیادت کا ضمیر زندہ ہوتا تو آج پاکستان کی کمزور ترین اقلیت تنہا احتجاج نہ کر رہی ہوتی بلکہ کراچی سے لانگ مارچ شروع ہو چکا ہوتا جو ہر شہر اور قصبے سے ہوتا ہوا لاکھوں کی تعداد میں لاہور آتا اور یہاؔں سے نواز شریف، آصف زرداری اور عمران کی قیادت میں پشاور تک جاتا، اگر ایسا ہوتا تو میں دیکھتا کہ ظالمان اور القاعدہ ایسی کسی حرکت کی جرات کرتے۔

ظلم اور زیادتی پر خاموش رہنے والے بھی دہشت گردوں کے ساتھی ہوتے ہیں۔ جب تک ہم یہ خاموشی نہیں توڑیں گے، مٹھی بھر دہشت گرد ہم پر حاوی رہیں گے۔ قوم کا ضمیر سیاسی یا مذہبی جماعتیں نہیں سول سوسائٹی ہوتی ہے، یعنی میں اور آپ ہوتے ہیں۔ جب میں اور آپ بھی گھر میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے ہیں تو کسی دہشت گرد پر کیا الزام دھرنا۔ ہم پر دہشت گردی میںمرنے والے ہزاروں بے گناہوں کے خون کا قرض ہے، ہمیں یہ قرض چکانا ہو گا ورنہ دہشت گرد پوری قوم کا جھکا ہوا سر کاٹ ڈالیں گے اور پھر ہمارے پاس احتجاج کا آپشن بھی باقی نہیں ہو گا۔ اﷲ ہم سب کو حق بات کہنے کا حوصلہ دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔