بس اب کوئی سمجھوتہ نہیں

سعد اللہ جان برق  جمعرات 22 اگست 2019
barq@email.com

[email protected]

آج ہم ایک ایسے سمجھوتے کی بات کرنا چاہتے ہیں جو کہیں پربھی ہوا نہیں ہے لیکن اسے ہرہر جگہ ’’توڑا‘‘ جا رہا ہے، یہ کچھ کچھ’’آدم بوُ‘‘ جیسا معاملہ ہے۔یاکسی خبر کی سرکار کی طرف سے’’تردید‘‘جیسی بات ہے کہ وہ بات کہیں ہوتی نہیں جس کی تردید کی جارہی ہوتی ہے یا یوں کہیے کہ سرکاری ترجمان کا یک طرفہ تردیدی بیان ہے۔

عام طور پر تو ان سمجھوتوں کی بات ہوتی ہے جو ’’طے‘‘۔پا۔پاچکے ہوتے ہیں۔یوں دونوں یعنی ’’طے پا‘‘چکے ہوتے ہیں لیکن جس سمجھوتے کی ہم بات کررہے ہیں بلکہ جس کے بارے میں اپنا ٹٹوئے تحقیق دوڑانا چاہتے ہیں یہ ایک ایسا سمجھوتہ ہے کہ کہیں ہوا تھا نہ ہوا ہے نہ ہوگا لیکن پھر بھی ہر جگہ اس کے توڑنے اور تردید کی بات ہوتی رہتی ہے یوں کہیے کہ

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

یہ سمجھوتہ جو ناگوار گزرتا رہتاہے اور آج کل تو بہت زیادہ ناگوار گزررہاہے کہاں ہواتھا کس نے کیاتھا اور کیوں کیاتھا یہ اس سارے ویئراباؤٹ کا کوئی پتہ نہیں ہے کہاں؟ کیوں؟کیسے؟تو ایک طرف سمجھوتے کے متن کا بھی پتہ نہیں لیکن ’’تردیدوں‘‘میں کچھ کچھ اندازہ ہوجاتاہے گویا ایک طرح سے ہم اسے وہ’’غنچہ‘‘بھی کہہ سکتے ہیں جو ’’بن کھلے‘‘مرجھا جاتاہے یامرجھایا جارہاہے۔اس’’آدم بوُ‘‘ ٹائپ سمجھوتے کی ’’بوُ‘‘شوبز کی دنیا میں ہرطرف پھیلی ہوئی ہے، ہوسکتاہے کہیں اور بھی ہو لیکن ہم صرف شوبز کی دنیا میں سنتے ہیں کہ بس’’آزادی‘‘پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔لباس پرکوئی سمجھوتہ نہیں۔کوئی سمجھوتہ نہیں کوئی سمجھوتہ نہیں۔چناں چہ اس ’’سمجھوتے‘‘کو جو کہیں ہوا ہی نہیں ہے اشتہاروں میں بھی بڑا اونچا مقام ملا۔کیونکہ اشتہاروں کی دنیا میں صرف وہ ہوتا ہے جو نہیں ہوتا اور جو نہیں ہوتا وہ بڑے وسیع پیمانے پر ہوتا  ہے بلکہ ہوتا رہتاہے۔

چناں چہ شوبز کی تمام دنیا اور خصوصاً اشتہاروں کا تویہ تقریباً ’’ تھیم سانگ‘‘ہوگیاہے۔کہ بس اب کوئی سمجھوتہ نہیں۔بس بہت ہوگیا ہے اب کوئی سمجھوتہ نہیں۔ہر اقسام کی آزادی تن کی من کی بلکہ جسم اور اس کے کسی بھی عضو پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔میں نہیں مانتی نہیں جانتی ایسے سمجھوتوں کو۔یا لات مارتی ہوں یا ان پر تھوکتی ہوں ہم کبھی اس سمجھوتے کا نوٹس نہ لیتے اگر اس سمجھوتے بلکہ ’’نہ سمجھوتے‘‘نے ہمارا جینا مرنا کھانا پینا حرام نہ کیا ہوتا۔ہرہر مقام پر ہر ہر کام پر اور ہر ہر لگام ونیام پر۔بس اب کوئی سمجھوتہ نہیں۔

آخر یہ سمجھوتہ ہے کہاں اور کس کم بخت یا کم بختوں نے کس منحوس ساعت میں کسی نامعلوم مقام پر کیا تھا۔ کپڑوں پرکوئی سمجھوتہ نہیں،آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں صابن شیمپو ٹوتھ پیسٹ پرکوئی سمجھوتہ نہیں،انسانی بلکہ نسوانی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔بال بڑھاؤ بال اگاؤ بال مٹاؤ۔پر کوئی سمجھوتہ نہیں عجب سمجھوتہ ہے جو ’’نہیں‘‘سے شروع ہوتاہے اور ’’نہیں‘‘پرختم ہوتاہے۔ہمیں تو کچھ ایسا لگنے لگاہے جیسے یہ سمجھوتہ جو نہ تھا نہ ہے نہ ہوگا۔تمام سمجھوتوں کا نوازشریف یا اس کا خاندان ہو،کہ ہرطرف سے اس پر یلغار ہورہی ہو۔ آخردنیا میں اور بھی خاندان یا اور بھی سمجھوتے ہوتے ہیں صرف یہ ایک سمجھوتہ خانہ نواز شریف کیوں؟

ہر بلا ہے کہ ز’’آسمان‘‘بود

خانہ ئے سمجھوتہ تلاش کند

وہ ہمارے پرانے صحافی ناشادطاہرخیلی ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تو وہ بہت اداس ہوگیا کیونکہ اسے بیٹے کی توقع اور خواہش تھی اس کی ماں نے تسلی کی خاطر کہا۔بیٹا لڑکیاں خدا کی نعمت ہوتی ہیں جس کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے اس پر اوپر سے ’’سلام‘‘ آتا ہے۔ بیچارا خاموش ہوگیا ۔ایک بعد دوسری پھر تیسری ایک پوری لائن بیٹیوں کی لگ گئی لیکن وہ چپ رہا۔سات آٹھ بیٹیوں کے بعد اس کی ماں کا آخری وقت پہنچا بخشش وغیرہ کے بعد وہ اپنی ماں سے بولا۔اماں اب تم اوپر جارہی ہو تو ذرا اوپر والوں کو میری یہ استدعا بھی پہنچا دینا۔کہ دنیا میں اور بھی تو بہت سارے مسلمان ہیں صرف مجھ پر ہی’’سلاموں‘‘کی بارش کیوں؟

یہ جس سمجھوتے کا ہم ذکر کررہے ہیں جو سمجھوتوں کا نواز شریف ہے۔آخرصرف اس کے پیچھے کیوں لوگ پڑے ہوئے ہیں۔ دنیا میں اور بھی تو بہت سارے سمجھوتے ہیں سمجھوتہ ایکسپریس ہے سمجھوتہ آئی ایم ایف ہے سمجھوتہ نصف نصف ہے لیکن سارا زور اس سمجھوتے پرہی کیوں جو کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔اتنی زیادہ ناگوار یہ بات بلکہ ’’سمجھوتہ‘‘آخرہے کیا؟کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے سمجھوتہ نہیں۔اس کوئی سمجھوتہ نہیں سے اکثر ہمیں وہ گانا یاد آجاتاہے۔

جس میں ایک خاتون بندیا چمکے گی چوڑی چھنکے گی جیسی دھمکیاں اپنے ہونے والے کا پتہ دیتی ہیں۔ایک محترمہ نے تو فلموں شوبز اور اشتہاروں کا لازم وملزوم یعنی نہانے کا منظر پیش کرتے ہوئے ’’صابن‘‘تک پر بھی سمجھوتہ نہ کرنے کا اعلان کیا۔اس ہمہ گیر ہمہ جہت ہمہ صفت اور ہمہ تردید ’’سمجھوتے‘‘کا ذکر سن سن کر ہماری رگ تحقیق کا بھڑکنا اور ہمارے ٹٹوئے تحقیق کا رینگنا بالکل فطری تھا۔آخر ایک لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کو لاکر اسے اپنے بیڈروم لے جاتی ہے اور دروازہ بندکرتے ہوئے اپنی مسکین سی ماں پرترچھی نظرڈال کر کہتی ہے۔

بس اب کوئی سمجھوتہ نہیں۔تو کیا یہ سمجھوتہ کوئی ماں ہے؟۔لیکن ادھر ایک اور محترمہ ایک اور محترمہ کے مشورے پر ایک بیوٹی اور گورا کرنے والی کریم کا استعمال کرتی ہے تو دوپٹے کو اپنے پیچھے اچھال کرکہتی ہے۔بس اب کوئی سمجھوتہ نہیں۔تو کیا یہ سمجھوتہ کوئی’’دوپٹہ‘‘ہے۔ایسے کئی مناظر نے ہمیں کنفیوژن میں مبتلا کردیا کہ اس’’سمجھوتے‘‘کا آخر ’’ویئراباؤٹ‘‘ کیا ہے۔

اور اگر ساری دنیا اس سے انکاری ہے تو کہیں دور دفع کیوں نہیں ہوجاتا۔ٹٹوئے تحقیق نے تو بدستور اپنی جان چھڑانے کی تدبیر کرتے ہوئے کہا کہ اتنا دور جانے اور کنوؤں میں تحقیق کے بانس ڈالنے کی کیا ضرورت ہے، پڑوسی کی ٹٹوئین سے کیوں نہ پتہ کرلیاجائے کیونکہ اس کا تکیہ کلام بھی۔بس اب کوئی سمجھوتہ نہیں ہے۔ہم سمجھ گئے کہ کم بخت ہماری صحبت میں رہ کر اچھا خاصا محقق ہوگیاہے اور اس بہانے پڑوسی کی ٹٹوئین سے اپنے لیے کوئی’’سمجھوتہ‘‘کرنے کی فکر میں ہے، اس لیے ایک ڈنڈا جماتے ہوئے کہا آگے بڑھ ہمیں ’’ٹٹوئینوں‘‘کے سمجھوتے سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ اس سمجھوتے کی تحقیق کرنا چاہتے ہیں جو شوبز کی دنیا میں بدنام زمانہ و زنانہ ہے۔

منہ بناتے ہوئے بولا۔دونوں میں فرق بھی کیاہے بھلے ہی شکل وصورت الگ الگ ہو لیکن ’’سمجھوتہ‘‘ تو دونوں کے درمیان قدرمشترک ہے خیربڑی مشکل سے اس کی توجہ تحقیق پڑوسی کی ٹٹوئین سے ہٹاکر ہم اپنی مہم پر چل پڑے صرف ایک مسکین سی ماں جس کے منہ پر بیٹی نے دروازہ بند کیاتھا اور ایک دوپٹہ اور جسے پیچھے اڑاگیا تھا یہی دو کلیو ہمارے پاس تھے لیکن دوپٹہ اور ماں میں تو بڑا فرق ہے اس  لیے یہ دونوں وہ سمجھوتہ نہیں ہوسکتے وہ کوئی اور ہی سمجھوتہ ہے،جس کے پیچھے لوگ خصوصاً شوبز میں’’کیرئیر‘‘بنانے والی محترمائیں پڑی ہوئی ہیں۔

جو باتھ ٹب سے لے کر ٹوتھ پیسٹ تک اور شیمپو سے لے کر صابن تک ہرچیز میں موجود ہے۔لیکن دکھائی نہیں دیتا صرف سنائی دیتاہے کہ بس اب کوئی سمجھوتہ نہیں۔لیکن ہم افسوس سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ پہلی مرتبہ ہمیں ایک تحقیق میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کہ اس ’’سمجھوتے‘‘کا کوئی سراغ ہمیں نہیں ملا۔ جسے ’’توڑنے‘‘ کا شور تو ہے لیکن دکھائی کہیں نہیں دیتا۔یاشاید وہ ان کپڑوں اعضاء اور چیزوں میں تھا جو ’’کوئی سمجھوتہ نہیں‘‘کی آندھی میں نہ جانے کہاں اڑگئی ہیں اور جب وہ چیزیں ہی نہیں رہیں تو بیچارا سمجھوتہ کہاں بچ پائے گا اس کا تو اب ککھ بھی نہیں رہا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔