منطق سے بے اعتنائی متزلزل زندگی

خطیب احمد  جمعرات 22 اگست 2019
منطق سے بے اعتنائی کی وجہ سے ہماری زندگی متزلزل ہوچکی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

منطق سے بے اعتنائی کی وجہ سے ہماری زندگی متزلزل ہوچکی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مجھ درویش بے نشاں کو کورے کاغذ پر خامہ فرسائی کرنے کا ربع صدی جتنا تجربہ نہیں ہے۔ لیکن اضطرابی کیفیت سے پھوٹنے والا ناشدنی خیال پیچیدہ معاملات کی کہانیاں سلجھانے میں بھی مفید ثابت ہوجاتا ہے۔ اگر ہم معاشرتی اقدار کی پیداکرہ پیچیدگیوں کے نقائص تلاش کرنے کے بجائے ان کی اصلیت کو عقلیت کے تناظر میں پرکھیں، تو ہم مثبت پہلو سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔

زندگی متزلزل ہونے کی اہم وجہ منطقی سوچ سے بے اعتنائی ہے۔ کیونکہ ہم پیچیدگیوں کو ان کی اصلیت کی ساخت کو پرکھنے کے بجائے عجلت سے کام لیتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری زندگی میں مسائل کا انبار لگا رہتا ہے۔ چونکہ تمام مسائل کا مرکز و محور منطق سے بے اعتنائی پر منحصر ہے، تو ہمیں منطق کے بارے میں جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ آخر یہ کیا ہے۔ دنیا میں بے شمار فلسفی ہیں، اگر ان کے بارے میں تحقیق کی جائے، تو ان کی تعداد کثیر ہے، جو ناقابل بیان ہے۔ لغت کے اعتبار سے منطق کے معنی گفتگو کرنا ہے۔ اصطلاحی طور پر اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے، وہ معلومات یا مفروضات جن کو غور و فکر کرکے دماغ کو غلطی سے بچانا۔

منطق کا کام قول کی صداقت کو پرکھ کر ہر قسم کے مغالطوں سے پاک کرنا ہوتا ہے۔ چونکہ زندگی میں منطق سے بے اعتنائی کی وجہ سے ہماری زندگی متزلزل ہوچکی ہے؛ اور غیر یقینی ہوتی جارہی ہے۔ بالکل اسی طرح عملی زندگی میں بھی حقیقت کا ادراک انسان کی ذندگی کے ہر پہلو کا متقاضی ہے۔ چنانچہ منطق کی اہمیت زندگی میں ہماری سوچ پر منحصر ہے، جس وجہ سےکچھ لوگ منطق کو اہمیت دیئے بغیر کسی بھی شے کی اصلیت کا ادراک کیے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں۔ انسانی اقدار کے اصولوں پر انحصار کرتے ہوئے ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں، لیکن ان ہی اقدار کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنی زندگی کے معاملات کو پیچیدہ کردیتے ہیں۔

جس کی اہم وجہ حقیقت سے آشنائی نہ ہونا ہے، اس لیے منطق سے آشنا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ منطق کا مقصد طرز فکر کا صحیح ہونا ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ تصورات اور تصدیقات کو حاصل کرنے کےلیے فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ ہر فکر درست نہیں ہوتی، بلکہ فکر میں عموماً غلطی واقع ہوجاتی ہے، اس غلطی سے بچنا انتہائی ضروری ہے؛ اور غلطی سے ہم اس وقت بچ سکیں گے جب ہمیں فکر کے قوانین کا علم ہو۔ چنانچہ یہ ہی فکر کے قوانین غلطی کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان قوانین سے آشنائی ہمیں علم منطق کی بدولت ہی ممکن ہے۔ جس کا ہماری زندگی کو پیچیدہ مسائل سے بچانے میں کلیدی کردار ہے۔ چونکہ منطق کا ہماری زندگی میں کلیدی کردار ہے، جس پر انحصار کرتے ہم معاشرتی مغالطوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ یہ ایسا پیچیدہ نظام ہے کہ ایک چھوٹی سی تبدیلی کب کسی سانحے کا باعث بن جائے کوئی نہیں جانتا، کیونکہ چھان پھٹک کرنے والے افراد اپنے اعتقاد سے پیچیدہ معاملات کو جاننے کی سعی کرتے ہیں؛ اور ہمیں کئی مفروضات سے آگاہ کردیتے ہیں۔

مزید آگے بڑھیں، تو بسا اوقات ہم اس مغالطے کا شکار ہوتے ہیں کہ منطقی قوانین ہر مسئلے میں یکساں ہیں، تو ہم غلطی کرتے ہیں۔ منطق کا اطلاق صرف اور صرف کسی خاص ’’معلوم‘‘ کے قواعد اور قوانین پر ہوتا ہے۔ اگرچہ علم و ادب کے اصولوں پر قائم کی گئی منطق اگر کسی دوسرے علم و ادب کے اصولوں پر نہ اترے، تو اس کو ہم آسان زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ منطق صرف معلوم پر چلتی ہے۔ جب معلوم ختم ہوجائے، تو یہ منطق غیر معتبر ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس کوئی یہ کہے کہ منطق یا منطقی بات من و عن ہر معاملات انسان کی اپنی مرضی سے ایک جیسی لائقِ اطلاق ہے، تو یہ ایک ناقابل قبول بات ہے۔

مثال کے ذریعے سہل الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر اپنے حواسِ خمسہ ( پانچ حواس ظاہری؛ باصرہ، سامعہ، شامہ، ذائقہ، لامسہ) سے جانیں، تو دن اور رات ایک دوسرے کی ضد ہیں، اور ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک وقت میں یا تو دن ہوگا یا رات ہوگی۔ ایسا قطعی ممکن نہیں کہ ایک ہی وقت میں دن اور رات دونوں موجود ہوں۔ یہ منطق ہے جو اجتماعی متضاد چیزوں اور باتوں کی روک تھام کرتی ہے۔ یعنی منطق یہ شعور بیدار کرتی ہے کہ دو متضاد چیزیں کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں، یعنی دن اور رات ایک وقت میں جمع ہونا ممکن نہیں۔ لیکن جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ منطق ”معلوم“ کی حدود کے اندر لائقِ اطلاق ہے۔ اگر اس سے باہر جائیں گے، تو وہی منطق غیر معتبر ہوجائے گی۔ اگر ہم اس حد سے باہر نکل گئے، تو دن رات کی نفی کرنا چھوڑ دے گا۔ دن اور رات ایک دوسرے کے ضد نہیں رہیں گے۔ کیونکہ جہاں دن اور رات ایک دوسرے کی نفی کرتے تھے، اگر حد کو پار کردیا، تو اب نہ تو دن ہے، نہ رات ہے۔

اختصار کے ساتھ اتنے پیچیدہ مفروضات کو انسان کی عقل تک پہنچانا کافی کٹھن مرحلہ ہے۔ لہٰذا اپنی برق رفتار زندگیوں کے معاملات کو شعوری طور سلجھائیے تاکہ ذہن صحیح اور غلط فکروں میں موازنہ کرکے شکوک و شبہات سے بچ جائے۔ اس کے ساتھ قوت ارادی میں بھی مزید اضافہ ہوجائے گا؛ اور پیچیدہ معاملات کو جانفشانی، استدلال کے ساتھ حل کرنے کی صلاحیت بھی جنم لے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خطیب احمد

خطیب احمد

بلاگر طالب علم ہیں، صحافت اور اردو ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں، سماجی مسائل پر باقاعدگی سے لکھتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ فنِ خطابت سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔