نیلے پانی کی محافظ بیٹیاں

رانا فیصل جاوید  جمعـء 23 اگست 2019
ہونہار خواتین پاک نیوی کے ساتھ مل کر ملک و قوم کی ترقی میں قابل رشک حصہ ڈال رہی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ہونہار خواتین پاک نیوی کے ساتھ مل کر ملک و قوم کی ترقی میں قابل رشک حصہ ڈال رہی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کی ترقی کے لیے ہر شعبے میں خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا ہوگا، کیونکہ اسی میں پائیدار ترقی کی راہ پنہاں ہے۔ دنیا کا کوئی بھی شعبہ ہو، خواتین کی شمولیت کے بغیر ادھورا ہے۔ اکیسویں صدی میں یہ بات ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے جب ہمیں ایسے شعبوں میں بھی خواتین نظر آتی ہیں جنہیں اس سے قبل صرف مردوں کےلیے ہی مخصوص سمجھا جاتا تھا۔

پاک نیوی کے بارے میں بھی عام تاثر یہی پایا جاتا تھا کہ خواتین نیوی کا حصہ نہیں بن سکتیں، لیکن پاکستان نیوی نے اس تاثر کو رد کرتے ہوئے قائداعظم کے نظریہ و حکومتی پالیسی کا اطلاق کیا اور مختلف کورسز کے ذریعے خواتین کو مواقع فراہم کیے، جس کی بدولت اب خواتین نیوی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ ہیں اور اپنی صلاحیتوں و توانائیوں کے ذریعے سمندری حدود، ساحلی علاقوں کے تحفظ اور ترقی میں پیش پیش ہیں۔ نیوی سے وابستہ خواتین نے حوصلے اور انتھک جدوجہد کی مثال قائم کی اور پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔ خواتین نیوی کے شارٹ سروس کورس کے بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی، میڈیکل، تعلیم، تعلقات عامہ، فوجی انتظام و انصرام، سپلائی چین سمیت کئی شعبہ جات میں اپنا مثبت کردار بخوبی ادا کر رہی ہیں۔ ٹریننگ کے دوران خواتین بھی مردوں کی طرح سخت تربیتی مراحل سے گزرتی ہیں۔ خواتین کو بھی تیراکی، جہاز رانی اور چھوٹے ہتھیار استعمال کرنے کی تربیت دی جاتی ہے جبکہ وہ عملی سرگرمیوں میں قائدانہ کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔

ملک کی بہتری کےلیے بہت سی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جن میں سے ایک نیوی میں خواتین کے بڑھتے کردار کی صورت میں وقوع پذیر ہورہی ہے۔ پاکستان نیوی میں خواتین تعلیم اور صحت کے شعبے میں سب سے زیادہ خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ بلوچستان بالعموم اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کی ترقی میں پاکستان نیوی کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

قیامِ پاکستان کے تناظر میں بات کی جائے تو پاکستان کو آغاز سے ہی بہت سنگین مسائل کا سامنا رہا، جن میں سے صحت و تعلیم ایسے سیکٹر تھے جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ خاص طورپر بلوچستان پاکستان کا ایسا صوبہ تھا جو بنیادی سہولیات سے محروم رہا۔ اس صورتحال میں پاکستان نیوی نے حکومتی مشن کو آگے بڑھا کر بلوچستان کو قومی دھارے میں لانے کی کامیاب کاوش کی اور اس کاوش کو عملی جامہ پہنانے میں نیوی سے وابستہ خواتین نے قابلِ ستائش کردار ادا کیا۔ جس سے نہ صرف کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے والے مقامی بلوچوں کو فائدہ ہوا بلکہ مقامی آبادی میں پاکستان نیوی کا مثبت تشخص ابھر کر سامنے آیا۔ پاکستان نیوی نے اسپتال، اسکول، کالج بنانے کے علاوہ روزگار کے مواقع پیدا کیے، جس سے مقامی آبادی کے معیار زندگی میں قدرے بہتری آئی ہے۔

اگر صحت کے شعبے میں فراہم کردہ سہولیات کا جائزہ لیا جائے تو بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ مقامی آبادی کو علاج کےلیے کراچی جانا پڑتا تھا جبکہ عوام میں صحت کے حوالے سے شعور نہ ہونے کے برابر تھا اور بیشتر عوام علاج معالجہ کے اخراجات ادا کرنے کی استعداد بھی نہیں رکھتے تھے۔ اس صورتحال میں پاک نیوی نے اورماڑہ اور تربت میں اسپتال قائم کیے، جس سے اورماڑہ، تربت و دیگر متصل ساحلی علاقوں میں علاج معالجہ کی سہولت ملی۔ اسپتال بننے کے باوجود مسئلہ یہ تھا کہ مقامی لوگ اپنی خواتین کو مرد ڈاکٹر حضرات کے پاس علاج کےلیے بھیجنا معیوب سمجھتے تھے۔ مقامی خواتین کو اسپتال تک لانے کےلیے نیوی کی خواتین ڈاکٹرز، فارماسسٹ، نیوٹریشنسٹ، ڈینٹسٹ، نرسز اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔ مقامی آبادی کو اعتماد دلایا اور یوں خاص طور پر خواتین کو پہلی مرتبہ ساحلی علاقوں میں صحت کی مفت سہولت میسر آئی۔ صحت کی سہولت کو مزید فروغ دینے کےلیے پاک نیوی نے خواتین پر مشتمل پیرامیڈیکل اسٹاف کو بھرتی کیا، جن میں بڑی تعداد بلوچستان سے تعلق رکھنے والی خواتین کی ہے۔

قوم کی تعمیر میں تعلیم وتربیت اولین درجے کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاک بحریہ نے دیگر پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے ساتھ علم کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہوئے ساحلی علاقوں میں مفت تعلیم فراہم کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ساحلی علاقوں میں چار معیاری اسکولز اور کالجز کی بنیاد رکھی، جہاں 1300 سے زائد بلوچ طلبا علم کی روشنی سے منور ہو رہے ہیں۔ ان اسکولوں اور کالجز میں بھی خواتین ٹیچرز کافی تعداد میں فریضہ تدریس نبھاتے ہوئے علم کی شمعیں روشن کررہی ہیں۔ پاک نیوی نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ طلبا کو پڑھانے والا اسٹاف مقامی ہو تاکہ لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہو اور وہ بچے بچیوں کو اسکول و کالج سے تعلیم دلانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کریں۔

پاک بحریہ کے مزید شعبہ جات میں خواتین کے کردار پر نظر دوڑائیں تو وہ نیول لاجسٹک سپورٹ کے شعبے میں عملی طور پر فعال ہیں۔ یہ نیوی کا اہم اور حساس ترین شعبہ ہے جہاں قابلیت و مہارت کا ہونا بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس شعبے میں خواتین ایئرکرافٹ سے لے کر دیگر اہم مشینری کو سنبھالنے، حساس سامان کو سازگار ماحول میں رکھنے سمیت کئی اہم امور کو سرانجام دے کر ثابت کررہی ہیں کہ خواتین کسی سے کم نہیں۔ اسی طرح آئی ٹی برانچ میں بھی خواتین کی بڑی تعداد کام کررہی ہے اور سافٹ ویئر بنانے اور نیوی کے نظام کو ڈیجیٹلائز کرنے کےلیے مصروف عمل ہیں۔ نیوی کی لاء برانچ میں بھی خواتین بطور وکیل نیوی کی نمائندگی کررہی ہیں۔ وہ بحریہ کے قانونی معاملات دیکھنے کے علاوہ اس بات کو بھی یقینی بناتی ہیں کہ نیوی کی پالیسی حکومتی پالیسی کے مطابق بنائی جائے۔ پاک بحریہ کا معاشی شعبہ ہو یا تعلیمی، ہر جگہ خواتین کارکردگی کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہیں۔

ترقی یافتہ شہروں سے لے کر پسماندہ اور روایت پسند علاقوں تک پاکستان نیوی سے وابستہ نڈر، حوصلہ مند، محنتی اور کام سے لگن رکھنے والی خواتین اپنے عزم و حوصلے کے سبب دنیا کی نظروں کا مرکز بنیں اور یہ پیغام دیا کہ وقت بدل رہا ہے، خواتین کی اہمیت کو تسلیم نہ کرنے والوں کو اب اپنا ذہن بدلنا ہوگا۔ بلاشبہ یہ ہونہار خواتین پاک نیوی کے ساتھ مل کر ملک و قوم کی ترقی میں قابل رشک حصہ ڈال رہی ہیں اور ساحلی پٹی کے پسماندہ و درماندہ عوام کی خدمت کرکے ان کو قومی دھارے میں لانے کا باعث ہیں۔ بلاشبہ نیوی کا سفید یونیفارم پہننے والی یہ خواتین پوری قوم کا سر فخر سے بلند کررہی ہیں۔ ہمیں فخر ہے قوم کی ان بیٹیوں پر جو نیلے پانی کی معاشی اہمیت، ساحلوں سے جڑے لوگوں کی اہمیت کا ادارک رکھتی ہیں اور ملک و قوم کےلیے ان کا بہتر استعمال یقینی بنانے کےلیے تندہی سے کوشاں ہیں۔ اے نیلے پانی کی محافظ بیٹیو! آپ قوم کا مان ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔