’’بھارتی سپریم کورٹ آرٹیکل 370 ختم کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے‘‘ ، اے جی نورانی

سید عاصم محمود  اتوار 25 اگست 2019
بھارت میں آئینی امور کے ممتاز ماہر،اے جی نورانی کی انکشاف انگیز اور چشم کشا باتیں

بھارت میں آئینی امور کے ممتاز ماہر،اے جی نورانی کی انکشاف انگیز اور چشم کشا باتیں

چھیاسی سالہ عبدالغفور نورانی پاک و ہند میں اے جی نورانی کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کا شمار آئینی امور کے ماہر اہم ترین بھارتی وکلا میں ہوتا ہے۔ بھارت کے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں وکالت کرچکے۔ وکیل ہونے کے علاوہ تاریخ داں، کالم نگار اور ماہر علم سیاسیات بھی ہیں۔

ہمارے ممدوح کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے مسئلہ کشمیر اور ہندو قوم پرستی پر نہایت مدلل اور پُر مغز کتب تحریرکی ہیں۔ 5 اگست 2019ء کو مودی حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کا بٹوارا کر ڈالا۔ نورانی صاحب نے اس اقدام کی شدید مذمت کی۔ اس موضوع پر بھارتی میڈیا میں ان کے جوابات،نظریات و خیالات سامنے آتے رہے۔ قارئین کے لیے ان کا خلاصہ سوال جواب کی صورت پیش خدمت  ہے۔

سوال: بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی تھی۔ مودی حکومت نے اس آرٹیکل کا خاتمہ کر ڈالا۔ جب آپ نے یہ اعلان سنا، تو آپ کے کیا جذبات تھے؟

جواب: یہ سراسر اور واضح طور پر غیر آئینی اقدام ہے۔ مودی حکومت نے فریب اور دغا بازی سے یہ غیر آئینی حرکت انجام دی۔ یہ اقدام کرنے سے قبل کشمیر کا گورنر اور دیگر وزرا یہ جھوٹ بول کر اپنی قوم کو گمراہ کرتے رہے کہ دہشت گرد کشمیر میں حملہ کرنے والے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ بھارتی فوج کے چیف نے بھی افواہیں پھیلانے میں مودی حکومت کا ساتھ دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان سے درانداز کشمیر میں گھس آئے ہیں۔ یہ سب باتیں جھوٹ تھیں۔مودی حکومت نے اس طرح فوج کو سیاسی بنا ڈالا۔ یہ بھی غیر آئینی بات ہے۔ میں تو گزشتہ کئی برس سے کہہ رہا ہوں کہ آر ایس ایس اپنے کیسری ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ اس نے پہلے بابری مسجد شہید کرائی، پھر ہندو مذہبی روایات بھارتی قوم پر ٹھونس دیں اور اب آرٹیکل 370 کا قتل کر ڈالا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ رام مندر کی کیونکر تعمیر کرتے ہیں۔

سوال: اس آرٹیکل کو کالعدم قرار دینے کا حکومتی فیصلہ بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاچکا۔ آپ کے خیال میں اس کا کیا فیصلہ آئے گا؟

جواب: یہ اقدام سراسر غیر آئینی ہے۔ سپریم کورٹ کو حکومتی اقدام  مسترد کردینا چاہیے ۔

سوال: حکومت کا کہنا ہے کہ صدر یہ دفعہ ختم کرنے کا مجاز ہے۔

جواب: اب یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں ہوگا کہ حکومتی دلائل غلط ہیں یا صحیح۔

سوال: اگر بھارتی سپریم کورٹ نے مودی حکومت کا فیصلہ برقرار رکھا تو آرٹیکل 370 بحال کرنے کے لیے کیا کوئی اور طریقہ بھی ہے؟

جواب: ریاست جموں و کشمیر میں ایک بار الیکشن ہوگئے تو نئی اسمبلی بنے گی۔ یہ اسمبلی آرٹیکل 370 بحال کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔

سوال: آپ نے ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ پر کتب تحریر کی ہیں۔  تاریخ کشمیر  کے ایسے گوشے بتائیے جو اب تک  عام لوگوں کے سامنے نہیں آسکے۔

جواب: ریاست جموں و کشمیر میں صحیح طور پہ اسلام 1321ء کے بعد پھیلا جب وہاں کا بدھی راجا، رنجن مسلمان ہوگیا۔ اس کے بعد مسلم صوفیاء کی تبلیغ سے ریاست میں اسلام پھیلنے لگا۔ بہت سے بت پرست اور بدھ مت کے پیروکار مسلمان ہوئے۔ ریاست میں برہمن (ہندو)اس نئے مذہب کے سب سے بڑے مخالف تھے اور انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔مثال کے طور پر 1600ء کے لگ بھگ کسی کشمیری برہمن نے ’’بہارستان شاہی‘‘ نامی ایک کتاب لکھی۔ اس میں کشمیری مسلم حکمرانوں کے متعلق بے سروپا داستانیں لکھ دی گئیں۔ مثلاً سلطان سکندر (1389ء تا 1413ء) کو برہمنوں کا دشمن قراردیا گیا کیونکہ اس نے کئی مندر ڈھا دیئے۔ نیز برہمنوں کا قتل عام کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سلطان سکندر کے دور میں کئی ٹوٹے پھوٹے مندر تعمیر کیے گئے اور برہمنوں کو رعایتیں دیں۔

سچ  یہ ہے کہ کشمیری مسلم حکمران بہت روادار اور فراخ دل تھے۔ انہوں نے کبھی غیر مسلموں کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوششیں نہیں کیں۔ 1585ء میں مغل حکمرانوں نے ریاست فتح کرلی۔ انہوں نے تو کشمیری برہمنوں کو حکومت میں اعلیٰ مناصب عطا کیے۔ حتیٰ کہ مغل بادشاہ، محمد شاہ (1719ء تا 1747ء) نے کشمیری برہمنوں کو ’’پنڈت‘‘ کا خطاب دے ڈالا۔ ایسا کشمیری برہمنوں کی فرمائش پر کیا گیا تاکہ وہ دیگر ہندوستانی علاقوں کے برہمنوں سے اپنے آپ کو ممتاز کرسکیں۔ یوں ریاست کے برہمن ’’کشمیری پنڈت‘‘ کہلانے لگے۔1751ء میں احمد شاہ ابدالی نے ریاست جموں و کشمیر فتح کرلی۔ تب تک کشمیری پنڈت مقامی حکومت سے بہت دخل ہوچکے تھے۔ انہوں نے اپنی چرب زبانی اور عیاری کی بدولت افغانوں کو بھی اپنے دام میں پھنسالیا۔ حکومت میں رہنے کے باعث ریاست میں پنڈتوں کا اثرورسوخ بڑھتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ 1793ء میں ایک کشمیری پنڈت، نندرام افغان حکومت کا وزیراعظم بن بیٹھا۔

1800ء کے بعد ذاتی مفادات، انا اور عدم اتفاق کے باعث افغان حکومت زبردست انتشار کا شکار ہوگئی۔ اس انتشار سے کشمیری پنڈتوں نے فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے کرائے کے فوجی بھرتی کیے اور اپنی فوج کا سپہ سالار، بیربل دھر نامی کشمیری پنڈت کو بنایا۔ یہ فوج مگر افغانوں کو شکست نہیں دے سکی۔ تبھی 1819ء میں کشمیری پنڈتوں نے پنجاب کے سکھ حکمران، رنجیت سنگھ کو جموں و کشمیر پر حملے کی دعوت دے دی۔ رنجیت سنگھ افغانوں کا کٹر دشمن تھا۔ مگر وہ کشمیر پر حملہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کشمیری پنڈتوں نے اسے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا تو رنجیت سنگھ نے حملہ کیا اور ریاست پر قبضہ کرلیا۔ یوں ریاست سے مسلم دور حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا۔

ہندو راجپوت (ڈوگرا) گلاب سنگھ جموں کا راجا تھا۔ 1846ء میں انگریزوں اور سکھوں کی لڑائی کے بعد ریاست کشمیر برطانوی راج میں شامل ہوگئی۔ اسی سال انگریزوں نے ریاست گلاب سنگھ کو فروخت کر ڈالی۔ یوں جموں و کشمیر کے پورے علاقے پر ہندوؤں کا قبضہ ہوگیا حالانکہ وہ اس ریاست میں اقلیت کا درجہ رکھتے تھے۔ اب حکومتی نظام میں کشمیری پنڈتوں کا عمل دخل بہت بڑھ گیا۔ انہوں نے دانستہ ایسی پالیسیاں بنائیں جن کے ذریعے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کیا جاسکے۔

ڈوگرا حکومت نے خصوصاً مسلم عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کردی۔ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کھیتی باڑی کرتی یا شالیں بناتی تھی۔ ان پر متفرق قسم کے ٹیکس تھوپ دیئے گئے جنہوں نے مسلمانوں کو ادھ موا کرڈالا۔ 29 اپریل 1865ء کو سری نگر میں کئی سو مسلمان شال بافوں نے سرکاری ٹیکسوں کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ ڈوگرا حکومت نے فوج بلاکر شال بافوں پر گولیاں چلادیں۔ اٹھائیس مسلمان شہید ہوئے۔ یہ ڈوگرا حکومت کا پہلا عوامی قتل عام تھا۔ حکومت پھر کشمیری مسلمانوں پر مزید ظلم ڈھانے لگی تاکہ وہ خوفزدہ ہوکر احتجاج کے قابل نہ رہیں۔

انگریزوں نے 1901ء میں ریاست جموں و کشمیر میں بھی مردم شماری کرائی۔ اس کے مطابق ریاست میں 29 لاکھ 5 ہزار 578 نفوس آباد تھے۔اس آبادی کا 74.16 فیصد حصہ (21 لاکھ 54 ہزار 695) مسلمان تھا۔ 23.72 فیصد حصہ (6 لاکھ 89 ہزار 73) ہندووں پہ مشتمل نکلا ۔ 0.89 فیصد  باشندے (25 ہزار 882) سکھ اور 1.21 فیصد (35 ہزار 047) بدھ مت کے پیروکار تھے۔ ریاست میں ہندوؤں کی تقریباً 91 فیصد آبادی جموں کے علاقے میں آباد تھی۔ آج بھی وادی کشمیر میں مسلم آبادی کی اکثریت 94 فیصد ہے۔ جموں کی 33 فیصد جبکہ لداخ کی 46 فیصد آبادی مسلمان ہے۔

سوال: آپ نے تاریخ کشمیر کی اہم معلومات سے آگاہ کیا۔ یہ فرمائیے کہ آرٹیکل 370 کن حالات میں ظہور پذیر ہوا۔

جواب: یہ سوال بھی تفصیل سے جواب کا متقاضی ہے۔ بیسویں صدی میں ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے ڈوگرا راج کے خلاف تحریک آزادی برپا کردی۔ اس تحریک سے جو کشمیری رہنما نمایاں ہوئے ان میں شیخ عبداللہ بھی شامل تھے۔ جب ہندوستان تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوا تو شیخ عبداللہ ریاست  آزاد و خود مختار بناکر اس کا حکمران بننے کی کوشش کرنے لگے۔ مگر ڈوگرا مہاراجا ہری سنگھ کو یہ ہرگز منظور نہ تھا۔وہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنا چاہتا تھا۔ چناں چہ دونوں کے مابین ٹسل شروع ہوگئی۔ مہاراجا نے مئی 1946ء میں شیخ عبداللہ کو قید کردیا۔ مشہور بھارتی صحافی پریم شنکر  جہا نے اپنی کتاب ”Kashmir 1947: Rival Versions of History” میں انکشاف کیا ہے کہ مہاراجا ہری سنگھ نے اپریل 1947ء ہی میں فیصلہ کرلیا تھا کہ اگر وہ ریاست کو آزاد و خودمختار نہیں رکھ سکا تو اسے بھارت میں ضم کردے گا۔

جب  ہری سنگھ نے پاکستان میں شامل نہ ہونے کے لیے تاخیری ہتھکنڈے استعمال کیے تو اگست 1947ء میں وادی کشمیر کے علاقے،پونچھ میں آباد عوام نے ڈوگرا حکومت کے خلاف بغاوت کردی۔ وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان اور پاکستانی جرنیلوں کی خواہش تھی کہ اس تحریک آزادی  میں کشمیریوں کا ساتھ دیا جائے مگر پاکستانی فوج کی کمان ایک انگریز جنرل فرینک میسروی کے ہاتھوں میں تھی۔ اس نے ریاست کشمیر میں فوج بھجوانے سے انکار کردیا۔

تبھی فیصلہ ہوا کہ کشمیر میں قبائلی لشکر بھجوا دیا جائے۔ قبائلیوں نے 20 اکتوبر 1947ء کو کشمیر پر حملہ کردیا۔ تاہم وہ سری نگر پہنچنے میں ناکام رہے۔ اس کی بنیادی وجہ لشکر کی سست رفتار پیش قدمی تھی۔

قبائلی لشکر کی آمد کا سن کر مہاراجا ہری سنگھ جموں فرار ہوگیا اور بھارت سے فوجی مدد کا طلبگار ہوا۔ بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے تھا۔ وہ شروع سے  ریاست کو بھارت کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ مگر پنڈت نہرو، دیگر بھارتی لیڈر اور برطانوی رہنما خوب جانتے تھے کہ ریاست کے مسلم اکثریتی علاقوں میں آباد بیشتر مسلمان ریاست کا الحاق پاکستان سے چاہتے ہیں۔ ریاست میں کرنل ڈبلیو ایف ویب (WF WEBB) برٹش ریزیڈینٹ تھا۔ وہ متواتر رپورٹیں بھیج رہا تھا کہ ریاست کی مسلم آبادی پاکستان سے الحاق چاہتی ہے۔ اس کے باوجود جب مہاراجا ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کرنا چاہا، تو پنڈت نہرو نے اس کی درخواست قبول کرلی۔ ہری سنگھ نے 24 اکتوبر 1947ء کو الحاق کی درخواست دی تھی۔

26 اکتوبر 1947ء کو صبح گیارہ بجے بھارتی کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس میں مہاراجا ہری سنگھ کی درخواست الحاق زیر غور آئی۔ سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ ریاست کے مسلمان بھارت سے الحاق کے متمنی نہیں تھے۔میٹنگ میں شامل کشمیری رہنما،گوپال سوامی آئنگر ریاست کا دیوان رہ چکاتھا۔ اس نے کابینہ کو بتایا کہ اگر مہاراجا کی درخواست الحاق منظور کرلی گئی تو ریاست میں مزید خون خرابا ہوگا کیونکہ مسلمان بھارت میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔ مگر پنڈت نہرو نے بہت پہلے سے ریاست جموں و کشمیر کو ’’ہر قیمت پر‘‘ بھارت میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

17 جون 1947ء کو پنڈت نہرو نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے نام ایک طویل نوٹ میں لکھا ’’ریاست کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بن سکتی، کیونکہ (شیخ عبداللہ کی جماعت) مسلم کانفرنس اور مہاراجا، دونوں ایسا نہیں چاہتے۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ بن جائے۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان ایسا ہونے پر کسی قسم کا احتجاج نہیں کرے گا۔‘‘(Selected works of Jawaharlal Nehru, Volume 3,Page 229)گویا 5 جون 1947ء کو تقسیم ہند کا اعلان ہوتے ہی پنڈت نہرو نے فیصلہ کرلیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر ہر حال میں بھارت کا حصہ بن کر رہے گی۔

شیخ عبداللہ 1938ء سے پنڈت نہرو کے دوست چلے آرہے تھے۔ انہوں نے پنڈت نہرو پر یہ تاثر قائم کررکھا تھا کہ وہ ریاست کے مشہور ترین لیڈر ہیں۔ مگر حقیقت میں (قائداعظم)محمد علی جناح اور (مسلم نیشنل کانفرنس کے لیڈر) غلام عباس بھی کشمیری مسلمانوں میں بہت مقبول تھے۔ کشمیری اپنی دکانوں میں ان تینوں لیڈروں کی تصاویر لگاتے تھے۔ اس بات کا اقرار دور جدید میں بھارت کے مشہور مورخ چترلیکھا زتشی نے اپنی کتاب ”Kashmir’s Contested Pasts, Narratives, Geographies and the Historical Imagination” میں کیا ہے۔ حقائق سے عیاں ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی اکثریت بھارت سے الحاق کے حق میں نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے، بھارت کا گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن محمد علی جناح سے بغض و عناد رکھنے کے باوجود بھارتی ڈیفنس کمیٹی سے ایک مطالبہ منوانے پر مجبور ہوگیا۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن پاکستان کا بھی گورنر جنرل بننا چاہتا تھا مگر قائداعظم نے اس کی یہ خواہش پوری نہ ہونے دی۔ اس پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو اتنا شدید غصہ آیا کہ اس نے سر ریڈکلف پر دباؤ ڈال کر پنجاب میں سرحد کی حد بندی ہی تبدیل کرادی۔ اس کی ایما پر ضلع گرداسپور کی تین تحصیلیں (پٹھان کوٹ، گرداسپور اور بٹالہ) اور فیروز پور اور زیرا کی تحصیلیں بھی بھارت کو دے دی گئیں۔ پنجاب کی ان پانچوں تحصیلوں میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی۔ پٹھان کوٹ تحصیل ملنے سے بھارت کو ریاست جموں و کشمیر جانے والا واحد ارضی راستہ ہاتھ آ  گیا۔ مشہور بھارتی قانون داں، ہرمز جی مانک جی نے اپنی تحقیقی کتاب ”Partition of India, Legend and Realty” میں ماؤنٹ بیٹن کے مکارانہ کھیل کا بڑی خوبی سے پول کھولا ہے۔

26 اکتوبر 1947ء کی صبح مگر بھارتی کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کے اجلاس میں پیش ہونے والے تمام شواہد یہ سچائی عیاں کررہے تھے کہ ریاست جموں و کشمیر کے بیشتر مسلمان بھارت سے الحاق نہیں چاہتے۔ اسی لیے  جناح اور پاکستان سے دشمنی رکھنے کے باوجود ماؤنٹ بیٹن کے اصرار پہ ریاست جموں و کشمیر کا بھارت سے الحاق اس ’’شرط‘‘پر کیا گیا کہ جب حالات معمول پر آئیں گے تو ریاست میں عوامی ریفرنڈم کرایا جائے گا۔ اس ریفرنڈم میں کشمیری عوام سے پوچھا جائے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ یا ریاست کو آزاد و خود مختار دیکھنا چاہتے ہیں۔

گویا ریاست کا بھارت سے الحاق ’’عارضی‘‘ تھا۔ ادیب و صحافی،پریم شنکر جہا اپنی کتاب ”Kashmir 1947: Rival Versions of History” میں لکھتے ہیں: ’’26 اکتوبر 1947ء کو ڈیفنس کمیٹی نے وزارت داخلہ کو ہدایت دی کہ مہاراجا ہری سنگھ کے نام ایک خط تیار کیا جائے تاکہ انہیں اطلاع دی جاسکے کہ دستاویز الحاق ’’عارضی‘‘ طور پر منظور کرلی گئی ہے۔‘‘جنوری 1948ء میں برطانوی وزیر، آرتھر ہینڈرسن بھارت کے دورے پر آئے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے انہیں بتایا کہ بھارت کے ساتھ کشمیر کا الحاق عارضی ہے۔ انگریز مورخ، ڈاکٹر لیونل کارٹر نے اس ملاقات کا احوال اپنی کتاب ’’Partition Observed: British Official Reports From South Asia, (14 August-15 October 1947), ( 16 October – 31 December 1947) (2 Vols. Set) ‘‘میں لکھا ہے۔

اس کے بعد پنڈت نہرو، شیخ عبداللہ اور بھارتی وزیر داخلہ سردار پٹیل نے خفیہ طور پر یہ معاہدہ کرلیا کہ ریاست میں عوامی ریفرنڈم نہ کرایا جائے… کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کی اکثریت پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ دے گی۔ صرف ایک ماہ بعد 21 نومبر 1947ء کو پنڈت نہرو نے شیخ عبداللہ کے نام ایک خط میں اپنا خفیہ منصوبہ طشت ازبام کردیا۔ وہ لکھتے ہیں ’’آپ جانتے ہیں کہ عوامی ریفرنڈم نہ کرانے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں۔ ہم نے دنیا کے سامنے ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اگر ہم اس وعدے سے پیچھے ہٹ گئے تو اقوام متحدہ میں پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوجائے گی۔ لیکن ریفرنڈم ہوا تو معاملات ہمارے ہاتھوں سے نکل سکتے ہیں۔‘‘ (Selected works ofJawaharlal Nehru)

پنڈت نہرو کے دباؤ پر مہاراجا ہری سنگھ نے شیخ عبداللہ کو ریاست جموں و کشمیر کا وزیراعظم بنادیا۔ شیخ عبداللہ نے 30 اکتوبر 1947ء کو اپنا عہدہ سنبھالا۔ وزیراعظم بنتے ہی وہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وفاق بھارت میں ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ مل جائے تاکہ وہ بلا شرکت غیرے ریاست میں حکومت کرسکیں۔ چناں چہ نومبر 1947ء ہی سے یہ خصوصی درجہ پانے کے لیے پنڈت نہرو اور شیخ عبداللہ کے مابین مذاکرات ہونے لگے۔ اسی گفت و شنید سے آرٹیکل 370 نے جنم لیا۔

دراصل 5 جون 1947ء سے قبل ہندوستان میں 565 ریاستیں واقع تھیں۔ رفتہ رفتہ یہ ریاستیں بھارت یا پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کرنے لگیں۔ شروع میں یہ طے پایا کہ بھارت (یا پاکستان) ان ریاستوں کے صرف تین امور… دفاع، خارجہ اور مواصلات (کمیونیکیشنز) سنبھالے گا۔ ریاستوں میں بقیہ امور مقامی آئین کے مطابق چلائے جائیں گے۔ لیکن مئی 1949ء تک بیشتر ریاستوں نے اس امر پر اتفاق کرلیا کہ علیحدہ سے آئین بنانے کی ضرورت نہیں، وہاں بھارت کے وفاقی آئین کے مطابق ہی تمام امور چلائے جائیں گے۔

مہاراجا جموں و کشمیر نے مگر ریاست کے درج بالا تین امور (دفاع، خارجہ اور مواصلات) ہی بھارتی حکومت کے سپرد کیے تھے۔ شیخ عبداللہ چاہتے تھے کہ ریاست جموں و کشمیر میں بھارت صرف انہی تین امور سے واسطہ رکھے۔کانگریس کے قوم پرست ہندو رہنما خصوصاً سردار پٹیل، شیام پرشاد مکرجی، راجندر پرشاد وغیرہ ریاست میں بھارتی حکومت کا مکمل عمل دخل چاہتے تھے۔ مگر پنڈت نہرو ریاست کو خصوصی درجہ دینے کو تیار تھے۔نہرو حکومت اور شیخ عبداللہ کے مابین مذاکرات طویل عرصہ جاری رہے۔

آخر اواخر 1949ء میں معاہدہ طے پاگیا۔ چناں چہ 26 جنوری 1950ء کو بھارت کا آئین نافذ ہوا تو اس میں آرٹیکل 370 شامل تھا۔ اس کے ذریعے طے پایا کہ بھارت ریاست جموں و کشمیر میں صرف دفاع، خارجہ اور مواصلات کے امور سنبھالے گا۔ بقیہ حکومتی امور ریاستی آئین کے مطابق چلائے جائیں گے۔کہا جا سکتا ہے کہ یہ آرٹیکل 370 ’’عارضی بندوست‘‘ تھا۔ جب ریاست کا آئین بن جاتا تو پھر اس کی ضرورت نہ رہتی۔ آئین ساز اسمبلی کی تشکیل کے لیے اگست ستمبر 1951ء میں ریاست جموں و کشمیر میں الیکشن ہوئے۔ الیکشن میں بدترین دھاندلی کی گئی تاکہ صرف شیخ عبداللہ کی جماعت کے نمائندے ہی جیت سکے۔ اس اسمبلی نے ریاستی آئین تیار کیا جو 26 جنوری 1957ء کو نافذ ہوا۔ اسی دن آئین ساز اسمبلی نے خود کو تحلیل کرلیا۔ اس اسمبلی میں مگر آرٹیکل 370 ختم یا ترمیم کرنے کی کوئی قرارداد پیش نہیں ہوئی۔ اسی لیے قانوناً آرٹیکل 370 بھارتی آئین کا مستقل حصہ بن گیا۔

آرٹیکل 370 کی شق 3 میں درج ہے کہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی تجویز پر بھارتی صدر آرٹیکل 370 ختم کرسکتا ہے۔ گویا ریاست میں دوبارہ آئین ساز اسمبلی کا اجلاس ہو اور اس میں آرٹیکل 370 کالعدم کرنے کی قرارداد آئے تو تبھی بھارتی صدر اسے ختم کرنے کا مجاز ہے۔ لیکن بھارتی پارلیمنٹ نے یک طرفہ طور پر یہ آرٹیکل ختم کر ڈالا۔ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ عدالت عالیہ کو قراردینا چاہیے کہ آرٹیکل 370 کی شق 3 بھارتی مملکت اور ریاست جموں و کشمیر کے مابین تعلق و رشتے کو واضح کرتی ہے۔ لہٰذا اس بنیاد پر آرٹیکل 370 کو بھارتی صدر یا  پارلیمنٹ یک طرفہ طور پر کالعدم نہیں کرسکتے۔

بھارت میں آرٹیکل 370 سے یہ ایک بڑی دیو مالا وابستہ ہے کہ اس کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کو خود مختاری مل گئی۔ امور دفاع، خارجہ اور مواصلات کے علاوہ وہ بقیہ حکومتی معاملات میں آزاد و خود مختار ہے۔ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 1950ء سے لے کر اب تک ’’پچاس صدارتی حکم ناموں‘‘ کے ذریعے بھارتی حکمرانوں نے آرٹیکل 370 کا تیاپانچہ کر ڈالا۔ جب 5 اگست کو مودی حکومت نے اسے ختم کیا، تو حقیقی آرٹیکل 370 کا حلیہ بگڑ چکا تھا۔ یوں سمجھیے کہ وہ اب محض ایک نیم زندہ لاش تھا۔

درج بالا پچاس صدارتی حکم ناموں کے ذریعے مرکزی حکومت کو بذریعہ آئین دیئے گئے 97 امور میں سے 95 امور ریاست جموں و کشمیر پر لاگو کردیئے گئے۔ اسی طرح بھارتی آئین کی 395 میں سے 260 شقیں ریاست میں نافذ کردی گئیں۔ یوں بھارتی حکمرانوں نے اصل منصوبے کے مطابق رفتہ رفتہ اپنے اصول و قوانین ریاست پر تھونپ دیئے اور مقامی آبادی کو بڑی چالاکی و عیاری سے اپنا مطیع و غلام بنالیا۔ آرٹیکل 370 کی اہمیت بس اتنی رہ گئی تھی کہ کوئی غیر کشمیری ریاست میں جائیداد نہیں خرید سکتا تھا۔ تعجب خیز بات یہ کہ تمام صدارتی حکم نامے زبردستی، آمرانہ انداز میں نافذ کیے گئے۔ ریاست جموں و کشمیر کی آئینی اسمبلی یا ریاستی حکومت کی مرضی اس عمل میں شامل نہیں تھی۔

سوال: مودی حکومت نے آرٹیکل 370 ختم کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس کی وجہ سے ریاست جموں و کشمیر میں ترقی و خوشحالی نہیں آسکی۔ یہ بات درست ہے؟

جواب: جین دریز (Jean Drèze) مشہور بھارتی ماہر معاشیات ہے۔ وہ نوبل انعام یافتہ ماہرین مثلاً امرتاسین اور آنگن ڈیسٹن کے ساتھ مل کر کتب تحریر کرچکا۔ اس نے حال ہی میں ریاست جموں و کشمیر اور ریاست گجرات کا معاشی طور پر تقابلی جائزہ لیا۔ اس جائزے سے انکشاف ہوا کہ ریاست جموں و کشمیر روزگار، تعلیم، صحت، معاشی ترقی اور دیگر شعبوں میں ریاست گجرات سے بہتر پائی گئی جہاں نریندر طویل طویل عرصہ وزیراعلیٰ رہے تھے۔ غرض یہ بھارتی حکومت کا صریح جھوٹ ہے کہ آرٹیکل 370 کے باعث ریاست جموںو کشمیر میں معاشی ترقی نہ ہوسکی۔

سوال: نئی پیش رفت سے ریاست میں کس قسم کے سیاسی حالات جنم لیں گے۔

جواب: آرٹیکل 370 کے خاتمے سے ریاست میں بھارت کی حامی سیاسی جماعتوں کو کاری ضرب لگی ہے۔ حتیٰ کہ ان جماعتوں کے قائدین یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ بھارتی حکمرانوں کی حمایت کرنا ان کے اجداد کی غلطی تھی۔ اب خصوصاً وادی کشمیر اور جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بھارت سے علیحدگی کی تحریک مزید زور پکڑے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والی نئی تنظیمیں وجود میں آجائیں۔

کشمیری پنڈت، پریم ناتھ بزاز مشہور دانشور اور سیاست داں گزرا ہے۔ اس نے 1954ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب’’The History of Struggle for Freedom in Kashmir: Cultural and Political, from the Earliest Times to the Present Day‘‘ میں لکھا تھا ’’اگر حکومت بھارت نے زبردستی کشمیریوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کی، تو ریاست میں کبھی امن و امان نہیں رہے گا۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ بھارتی حکمران فوجی طاقت کے ذریعے کشمیریوں کا سر جھکانا چاہتے ہیں۔ انہی بھارتی حکمرانوں نے ماضی میں برطانوی استعمار کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ مگر اب وہ کشمیریوں کو محکوم بنالینا چاہتے ہیں۔‘‘

اشوک مترا بھارت کے ممتازدانشور گزرے ہیں۔ بھارتی حکومت کے چیف اکنامک ایڈوائزر رہے۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر ایک مضمون لکھا جو 27 اگست 2010ء کو دی ٹیلی گراف اخبار میں شائع ہوا۔ وہ لکھتے ہیں ’’ریاست جموں و کشمیر آئینی طور پر بھارت کا حصہ ہے۔ مگر یہ محض دھوکے کی ٹٹی ہے… اس کے پیچھے یہ سچائی پوشیدہ ہے کہ بھارت نے وادی کشمیر پر قبضہ کررکھا ہے۔ ذرا وہاں سے سکیورٹی فورسز کے لاکھوں جوان تو ہٹائیے، کوئی نہیں جانتا کہ اگلے لمحے کیا لاوا پھٹ پڑے گا۔ پتھر پھینکنے والے کچھ نوجوان پاکستان کے حامی ہیں۔ بعض آزادی چاہتے ہیں لیکن وہ سب بھارت کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی کشمیری بھارت میں اپنے آپ کو اجنبی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح بھارتی قوم بھی کشمیریوں کو اپنا نہیں سکی۔ ‘‘

۔۔۔

عبدالغفور عبدالمجید نورانی المعروف بہ اے جی نورانی 16ستمبر 1930 ء کو بمبئی ،ہندوستان میں پیدا ہوئے۔گورنمنٹ لا کالج،بمبئی سے وکالت کی ڈگری لی۔پچھلے چونسٹھ سال سے بھارتی عدالتوں میں حق وانصاف کا پرچم بلند کر رہے ہیں۔آپ کو دلیر،جری اور ہمیشہ سچ بولنے والا وکیل سمجھا جاتا ہے۔ظلم کا شکار غریب ولاچار بھارتیوں کی کسی غرض کے بغیر مدد کرتے ہیں۔آئینی امور میں ماہر وکیل ہونے کے علاوہ تاریخ داں،سوانح نگار، ماہر امور سیاسیات اور کالم نگار بھی ہیں۔اب تک آپ کی پندرہ کتب شائع ہو چکیں جن میں نمایاں یہ ہیں:
٭ Article 370: A Constitutional History of Jammu and Kashmir
٭ The Kashmir Dispute 1947-2012, 2 Volume set
٭ The RSS and the BJP:A Division of Labour
٭ Constitutional Questions and Citizens’ Rights
٭ Savarkar and Hindutva
٭ The Muslims of India: A Documentary Record

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔