اونچی ہیل۔۔۔ فیشن، ضرورت یا شوق

تحریم قاضی  اتوار 25 اگست 2019
آج ہیل پہن کر جازب نظر آنے کی کوشش ہر عورت کا خواب نہیں رہا

آج ہیل پہن کر جازب نظر آنے کی کوشش ہر عورت کا خواب نہیں رہا

انسان فطری طور پر حسن پرست ہے۔ خوبصورت تخلیق کو پسند کرتا ہے۔ ہر اک کا حسن کو سراہنے کا انداز جدا ہے۔ صنفی اعتبار سے دیکھا جائے تو خواتین مرد حضرات کی نسبت  زیادہ حسن پرست واقع ہوئی ہیں۔

ایک انگریزی کہاوت ہے کہ ’’عورت‘‘ اپنے حسن کی اسیر ہے۔ دیکھا جائے تو یہ بات کچھ غلط بھی معلوم نہیں ہوتی۔ صنف نازک اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لئے بڑے جتن کرتی دیکھائی دیتی ہے۔کبھی ابٹن تو کبھی فیشل‘ کلنیزنگ سکربینگ‘ ماسک اور ٹوٹکے یہ سب کر کے وہ اپنے حسن کو چار چاند لگانے کی تگ و دو میں مصروف رہتی ہے۔ خوبصورتی اور بناؤ سنگھار کا سلسلہ صرف چہرے تک محدود نہیں۔ ہاتھ پاؤں ‘ بال‘ کپڑے جوتے، ہینڈبیگ ،کاسمیٹکس اور نجانے کون کون سی اشیاء اس فہرست میں شامل ہو چکی ہیں۔

آئے روز نت نئی پروڈکٹس مارکیٹ میں انٹرڈویوکروائی جاتی ہے جن کا مقصد خاص طور پر خواتین کی شخصیت کو پر کشش بنانا ہے۔ خواتین اکثر اوقات ا پنے پیروں اور ان میں پہننے والے جوتوں کے حوالے سے بے حد متفکر دیکھائی دیتی ہیں۔ اس ضمن میں جوتوں کی پسند ایک اہم مرحلہ ہے۔ خواتین میں اونچی ایڑھی والے جوتوں کو خصوصی طور پر پسند کیا جاتا ہے یہ خواتین کے نسوانی نازو ادا اور جنسی کشش کو نمایاں کرنے کا باعث بنتی ہیں۔

ہیل والی جوتی کو پسند کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ کہ عموماً چھوٹے قد کی خواتین اونچی ایڑھی والے جوتے پہن کر اس احساس کمتری سے نکلنے کی کوشش کرتی اور خود اعتمادی محسوس کرتی ہیں۔

ہیلز عموماً مختلف سائز اور سٹائل کی ہوتی ہیں‘ کوئی تو خمردار نوکیلی تو کوئی چوکور مگر ان اونچی اونچی ہیلز سے کمر اور ریڑھ کی ہڈی پہ کیا اثرات مرتب ہوں گے اس سے قطع نظر خواتین انہیں خریدنا اور پہننا پسند کرتی ہیں۔ جہاں تک پسندیدگی کی بات ہے تووہ الگ معاملہ ہے جس میں ہیلز کو کب کہاں اور کتنی دیر پہننا ہے اس کا انحصار خود پہننے والی شخصیت پر ہے مگر حیران کن بات یہ ہے کہ کچھ ممالک میں 6 سے 12سینٹی میٹر تک کی ہیل ڈیس کورڈ کا حصہ ہے جیسے پہننا اور اس کی پابندی کرنا ناگزیر ہے۔

اس سے قبل کے ہم اس اصولِ لازم پہ بات کریں یہ جاننا بھی بے حد ضروری ہے کہ آخر خواتین کے دل میں کیا آن سمائی کہ وہ لمبی لمبی ہیلز پہ فرستہ ہو بیٹھیں تو جناب انڈسٹریل ریولوشن کے بعد سے مینیفکچرنگ انڈسٹری نے اپنی پروڈکٹس مارکیٹ میں رکھی تو خریداروں کا رجحان اپنے طے کردہ احداف کے مطابق نہ پایا۔ جس سے نمٹنے کا بہترین طریقہ تشہر کی صورت تلاش کیا جیسے جیسے یہ سلسلہ شروع ہوا خریداروں میں نئی چیزوں کا رجحان ابھرا جس سے انہیں تو نہیں مگر پروڈیوسرز کو بے حد فائدہ ملا۔ یوں بات کمپئشن تک جا پہنچی ۔

مارکیٹ میں برانڈ کی ہوا چل پڑی جس میں ہر خاص و عام اس دوڑ میںکود پڑا اور اس کا سب سے اہم شکار خواتین ہوئیں جو کہ اپنے حسنِ و انداز کو بہتر سے بہتر بنانے کی جدوجہد میں لگی رہتی ہیں اور اس ضمن میں بے دریغ پیسہ لٹانے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ اس کا بنیادی محرک ایڈوٹائزرز کی جانب سے تیار کردہ وہ پیغام ہوتا ہے جو کہ ایڈز اور ریمپ شوز کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔ گز بھر کی لمبی خمردار ہیلز پہن کر دلکش ماڈلز جب کیٹ واک کرتی  واہ واہ سمیٹتی ہیں تو خواتین کے دل میں بھی انہیں پہننے کی چاہت پیدا ہوتی ہے۔

دراصل ہیلز کو خوبصورت چال ڈھال کا ائکون (ICON) بنا کر پیش کرنے والوں نے بڑی محنت سے یہ گیم کھیلی ہے جس کا انہیں بے حد فائدہ ہوا ہے ۔ مگر یہ فیشن کی دلدادہ معصوم خواتین اس بات سے قطعاً نا آشنا ہیں کہ ان ہیلز پہ ہزاروں روپے خرچ کرکے بھی وہ چند گھنٹوں کے لئے ہی انہیں استعمال کر سکتی ہیں۔ یہ حالات صرف وہاں ہیں جہاںخواتین پہ ہیلز پہننے کے سلسلے میں کوئی پابندی عائد نہیں۔

حال ہی میں سوشل میڈیا پہ ایک جاپانی خاتون کی جانب سے ہائی ہیلز ے خلاف KUTOO نامی ایک مہم چلائی گئی جس کو بے حد پذیرائی ملی۔ جاپان کے شہر ٹوکیو کی رہائشی یامی ایشکا وا لکھاری اور اداکارہ ہونے کے ساتھ جزوقتی طور پر ایک جنازہ گاہ میں آٹھ گھنٹوں کی ڈیوٹی کرتی ہیں۔ جہاں ان کو مخصوص ڈریس کورڈ کو فالو کرنا پڑتا ہے۔

جس میں مرد حضرات سیاہ رنگ کے بوٹ اور خواتین سیاہ ہیل والے جوتے پہننا ضروری ہے۔ ایشکا وا نے اس صنفی عدم مساوات کے خلاف آواز اٹھائی وہ مسلسل کئی مہینوں سے ٹانگوں میں شدید درد‘ پیروں پہ چھالوں اور رستے خون سے پریشان تھی جس کا محرک مسلسل آٹھ گھنٹوں تک 6سے 7 سینٹی میٹر اونچی ہیل والے جوتے تھے۔ ایشکا وہ نے جرأت و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہائی ہیلز کو خواتین کیلئے لازمی قرار دینے پر آواز اٹھائی۔

ایک روز جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے ساتھی مرد حضرات فلیٹ جوتے پہن کر آسانی سے چلتے پھرتے اور کام نمٹاتے ہیں تو ان کے ذہن میں سوال اٹھا کہ خواتین پر کیوں یہ بوجھ مسلط کیا گیا ہے جس سے ان کے لئے کام کرنا دوبھر ہوجاتاہے۔ اپنے ان خیالات کا اظہار ایشکاوہ نے اپنے ٹوئیٹر اکاونٹ پہ کیا جس پر د وسری خواتین نے بھی اظہارے رائے دیتے ہوئے ہمدردی ظاہر کی۔

ان کی ٹویٹ  پر 67,000 لائک ملی جبکہ 30,000 افراد نے ری ٹوئیٹ کیا۔ ایشکاوہ نے وزیر برائے صحت محنت و فلاحی بہبود کو اپنی درخواست جمع کروائی جس میں خواتین کو ورک پلیس پہ ہائی ہیلز پہننے کے مجبور کیا جانے پر شکایت کا اظہار کیا۔ جس پر ان کو ڈریس کورڈ کی خلاف ورزی کرنے پر ساتھ دینے کا عندیہ دیا گیا۔اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ’’معاشرتی طور پر خواتین کا ورک پلیس پہ ہائی ہیلز پہننا قابل قبول ہے‘ ‘۔ اس پر تحریک کے سپوٹرز کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ اور یہ بحث پارلیمنٹ تک پہنچ گئی۔ جب ایشکاوہ سے اس بابت سوال کیا گیا توانہوںنے کہا کہ ان کی KUTOO #تحریک ہائی ہیلز کے خلاف نہیں بلکہ اس ضمن میں ہے کہ ہر ایک کو آزادی دی جائے کہ وہ کیا پہننا چاہتا ہے۔ جاپانی میڈیا کی نظر میں اسے صرف ایک جوتوں کا مسئلہ سمجھا گیا۔

جبکہ انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق یہ صرف جوتوں کا نہیں بلکہ صنفی عدم مساوات کا مسئلہ ہے اور وہاں ایشکا وا کو خواتین کے حقوق کا علمبردار تصور کیا گیا ۔ اونچی ہیل نے ایک مسئلے کو مقامی‘ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا۔ غیر جانب داری سے دیکھا جائے تو ایشکاوا بھی غلط نہیں اور ڈریس کورڈ ورکرز کی سہولت و آسانی کے لئے بنایا جانا چاہئے نہ کہ انہیں تکلیف میں مبتلا کر کے صرف ایک شو پیس بنا کر پیش کرنے کے لئے آج ایک تحریک جاپان میں زور پکڑ رہی ہے کیونکہ وہاں کی عورت نے محسوس کیا ہے کہ ہائی ہلیز اس کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث بننے نہ بنے اس کے کام میں روکاوٹ اور اس کی صحت کی بربادی کا سبب بن رہی ہے۔

جنوب مشرقی ایشیا کی عورت ابھی تک اس ہائی ہیلز کے سحر سے آزاد ہی نہیں ہو پائی اور اپنے لئے مسائل کے انبار کھڑے کرنے میں مصروف ہے ۔ جوتوں کا مقصد آرام پہنچانا ہے نہ کہ پہننے والے کے لئے مشکلات کھڑی کرنا ہے۔ ماہرین کے خیال میں اونچی ایڑھی والے جوتے پہننے والی خواتین کو ریڑھ کی ہڈی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں خطرناک بات یہ ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کے ٹیڑھے ہو جانے کا بھی خد شہ ہے۔

اس کے علاوہ اونچی ہیل پہننے سے خواتین کے کولہے باہر کی طرف نکل آتے ہیں اور گھٹنے ٹیڑھے ہو جانے سے ٹانگوں میں درد کی شکایت رہتی ہے۔ خاص طور پر نو عمر لڑکیاں جب ہائی ہیلز پہن کر چلتی ہیں تو ان کی جسمانی ساخت بری طرح متاثر ہوتی ہے جس سے مستقبل میں انہیں کمر درد اور بیک بون کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کو اس معاملے میں سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوتے کے انتخاب میں ہائی ہیلز سے اجتناب برتنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو ہائی ہیلز سے گریز کریں اور آرام دہ جوتا خریدیں جسے پہن کر وہ آسانی سے چل پھر سکیں اور اپنے معمول کے کاموں کو انجام دے سکیں۔ وہ مشہور مقولہ تو سب نے سن رکھا ہو گا ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے لئے بہترین چیز کا انتخاب کریں۔ فیشن آپ کو وقتی خوشی تو دے سکتا ہے مگر وہ آپ کی کھوئی ہوئی صحت نہیں لوٹا سکتا۔

اونچی ہیل کا تاریخی پس منظر

تاریخ کے اوراق کا جا ئزہ لیا جا ئے تو ا ونچی ایڑھی والے جوتوں کو پندرھویں صدی میں ایرانی گھڑ سوار استعمال کیا کرتے تھے۔ جی ہاں شاید آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو کہ اونچی ایڑھی والے جوتے مرد استعمال کیا کرتے تھے۔ جس کا بنیادی مقصد ناہموار راستوں پر آسانی سے قدم جما پانا اور خصوصا شہہ سواروں کا اپنے پیر رکاب میں جمائے رکھنا تھا۔ ایرانی شہہ سواروں کی جانب سے متعارف کروائے جانے والا یہ رواج سترہویں صدی میں یورپ میں بے حد مقبول ہوا۔سولہویں صدی میں یورپی اشرافیہ اونچی ہیل والے جوتے پہننا اعلیٰ مرتبے کی علامت سمجھتے تھے۔

جن قارئین کا یہ خیال ہے کہ اونچی ہیل خواتین کے لئے تیار کی گئی تھی تو وہ اس کو درست کر سکتے ہیں۔ فرانس کے بادشاہ لوئس XIV نے سرخ ہیل والے جوتے متعارف کروائے اور اس کے دور میں اونچی ایڑھی کو طاقت و جرات کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ حکمران طبقے کے لئے اونچی سیاونچی ہیل کو باعث افتخار سمجھا جاتا تھا۔  سترہویں صدی میں طوائفوں نے اپنے بناؤ سنگھار اور جسمانی خدوخال کو نمایاں کرنے کے لئے اونچی ایڑھی والے جوتوں کا استعمال شروع کر دیا۔

حیرت انگیز طور پر خواتین نے وہ انداز واطوار اپنا لئے جو خالصتاً مردوں سے منسوب تھے جیسے کہ چھوٹے بال رکھنا‘ مردانہ ساخت کے ہٹ اور اونچی ایڑھی والے جوتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہیل والے جوتوں کو خواتین کے لئے مخصوص سمجھا جانے لگا اور مردوں نے بغیر ہیل کے جوتے پہننے شروع کر دیئے۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ فیشن بدل جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔