عثمان بزدار کا ایک سال

مزمل سہروردی  جمعـء 23 اگست 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

تحریک انصاف کی حکومت کا ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ پہلا سال کیسا رہا اس پر بہت بات ہو گئی ہے۔ لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ کا ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔

میرے نزدیک یہ بات زیادہ اہم اس لیے ہے کہ جب انھیں  ایک سال پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب بنا یا گیا تھا تو میرے دانشور دوستوں کا خیال تھا کہ عثمان بزدار کو چند ماہ کے لیے بنایا گیاہے۔ وہ ایک عارضی وزیر اعلیٰ ہیں۔ بظاہر تحریک انصاف کے حا می میرے ان دانشور دوستوں نے سردار عثمان بزدار کے وزارت اعلیٰ سنبھالتے ہیں۔

ان کے جانے کی تاریخیں دینا شروع کر دیں۔ ہر چند کہ سال کے شروع میں ہی ٹاک شوز شروع ہو گئے جن میں روزانہ ان کو گھر بھیجنے کے فیصلہ کا اعلان کیا جاتا۔ میرے دوست روز انھیں گھر بھیج کر اپنے من پسند امیدوار کو وزیر اعلیٰ بنوا کر گھر جاتے۔ اور اگلے دن جب سورج دوبارہ طلوع ہوتا تو عثمان بزدار دوبارہ وزیر اعلیٰ ہوتے۔

اس طرح میرے ان دانشور دوستوں اور عثمان بزدار کے درمیان سارا سال ایک کھیل جاری رہا۔ یہ درست ہے کہ اب اس کھیل کی شدت میں کمی آگئی ہے۔ شاید میرے دوست تھک گئے ہیں۔ ورنہ عثمان بزدار جیسے پہلے دن تھے ویسے ہی آج ہیں۔ ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ قارئین گواہ ہیں میں نے پہلے دن کہا تھا کہ عثمان بزدار کہیں نہیں جا رہے اور وہ پنجاب کے ایک طاقتور ترین وزیر اعلیٰ ہیں۔

میرے دوست عثمان بزدار کی ایک سال کی کارکردگی کی بات بھی اس لیے نہیں کر رہے کہ اگر آج وہ عثمان بزدار کی کارکردگی پر بات کریں تو خود ان کے سر شرم سے جھک جائیں گے۔ جس کو وزیر اعلیٰ بننے کا اہل نہیں سمجھتے تھے وہ کارکردگی کے میدان میں بھی سب سے آگے ہے۔ اس لیے ان کی کارکردگی پر بات نہیں کی جا رہی۔ میں نے ایک دوست سے کہا کہ عثمان بزدار کی ایک سال کی کارکردگی کا سندھ میں مراد علی شاہ کی کارکردگی سے موازنہ کیوں نہیں کرتے۔ وہ مسکرایا۔ میں نے کہا باقی کسی وزیر اعلیٰ سے کرلیں۔ وہ چپ رہا۔ اس کی خاموشی ہی ساری کہانی بیان کر رہی تھی۔

سردار عثمان بزدار نے ایک سال میں سیاسی میدان میں بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ جن پر میں پہلے بھی لکھ چکاہوں۔ اس ایک سال میں انھوں نے اپنے تمام سیاسی حریف میدان سیاست میں چت کر د یے ہیں۔ کہاں ہیں علیم خان۔ کہاں ہے وہ کمیٹی۔ سب ختم۔ عثمان بزدار کے خلاف سازش کرنے والا ان کا ہر سیاسی حریف اب گیم سے باہر ہے ۔ اب ان کے حریف اور مخالف دونوں کہتے ہیں کہ عثمان بزدار اور عمران خان اکٹھے آئے ہیں، اکٹھے جائیں گے۔ ان کو ہٹانے کا خواب دیکھنے والے سب اب توبہ تائب ہو گئے ہیں۔ایک سال میں یہ کامیابی کوئی چھوٹی کامیابی نہیں ہے۔

سیاسی میدان سے ہٹ کر عثمان بزدار کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی حیران کن ہے۔ اس ایک سال میں سردار عثمان بزدار کی ذاتی دلچپسی سے ہونے والوں کاموں کا ہی اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ان میں پنجاب کے 177گیسٹ ہاؤس عوام کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ وہ عمران خان کا ویژن بہترین انداز میں آگے لے کر بڑھے ہیں۔ عثمان بزدار نے بیوروکریسی کی تمام تر مخالفت اور سرخ فیتہ کے باوجود پنجاب کے 177گیسٹ ہاؤس عوام کے لیے کھول دیے ہیں۔ جس کی باقی صوبوںمیں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔

عثمان بزدار کی ذاتی دلچسپی سے میانوالی راجن پور اور اٹک میں مدر چائلڈ اسپتالوں پر کام شروع ہو چکا ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں ان چھوٹے شہروں میں مدر چائلڈ اسپتالوں سے وہاں ماں اور بچہ کی صحت کی سہولیات میں کس قدر اضافہ ہوگا۔ سردار عثمان بزدار کا یہ کام بھی تحریک انصاف اور عمران خان کے منشور کے مطابق ہے۔ پنجاب میں دس ہزار ایکڑ پر مبنی سرکاری زمین پر 9صنعتی زونز قائم کیے جارہے ہیں۔ پنجاب میں روزگار کے نئے مواقعے پیداکرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ عمران خان کا ایک کروڑ نوکریوں کا دعویٰ مکمل کرنے کا بھی یہی صحیح راستہ ہے۔

عثمان بزدار نے دو ارب روپے کے فنڈ سے پنجاب کی جیلوں سے ان سیکڑوں قیدیوں کی بھی رہائی ممکن بنوائی ہے جو صرف جرمانہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے جیلوںمیں قید تھے۔ ویسے تو عثمان بزدار ابھی تک جیل نہیں گئے ہیں۔ لیکن ماضی میں پنجاب میں ایسے حکمران رہے ہیں جو حکمران بننے سے پہلے جیلوں میں رہے ہیں۔ انھیں جیلوں کی بری حالت شاید عثمان بزدار سے زیادہ معلوم تھی۔ لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عثمان بزدار نے جیلوں سے صرف جرمانہ کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے قید سیکڑوں قیدیوں کی رہائی ممکن بنوا کر ایک اچھی روایت قائم کی ہے۔ تحریک انصاف کے حامی دانشور دوستوں نے جو عینک لگا رکھی ہے۔ اس سے انھیں یہ نظر نہیں آسکتا۔

پنجاب میں صنعتی مزدوروں کے لیے لیبرکالونیاں بنائی جاتی ہیں۔ جہاں ان مزدوروں کو سستی رہائش فراہم کی جاتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ سات سال سے ان لیبر کالونیوں میں الاٹمنٹ بند تھی۔ لیکن عثمان بزدار نے سات سالوں کے بعد ان لیبر کالونیوں میں دوبارہ الاٹمنٹ شروع کر دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے پچاس لاکھ گھروں کا جو وعدہ کیا ہے۔ لیبر کالونیوں کا مزید قیام اور ان کی الاٹمنٹ اس سمت میں بھی درست قدم ہے۔

جنوبی پنجاب صوبے کا قیام بھی تحریک انصاف کا انتخابی نعرہ تھا۔ لیکن ملک کے سیاسی حالات اس وقت جنوبی پنجاب کے صوبے کے حق میں نہیں ہیں۔ تاہم عثمان بزدار جنوبی پنجاب کی محرمیوں کو دور کرنے کے لیے جنوبی پنجاب میں ایک الگ سیکریٹریٹ بنا رہے ہیں۔ اس ضمن میں بھی مالی سال میں دو ارب روپے کے فنڈز رکھے گئے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی بیوہ گرانٹ میرج گرانٹ اور بچوں کے لیے وظائف میں اضافہ کیا گیا ہے۔ دس سال میں پہلی دفعہ پنجاب کی نہروں میں ٹیل تک پانی پہنچا ہے۔

اس ایک سال میں پنجاب میں نہری پانی کی چوری کے خلاف ایک بڑا کریک ڈاؤن کیا گیا ہے۔اس ایک سال میں نہری پانی کے چوری کے تین ہزار مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ نہری پانی کی چوری ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہر طاقتور زمیندار کمزور کسان کا پانی چوری کرتا ہے۔ یہ تین ہزار مقدمات ظاہر کر رہے ہیں کہ ہر گاؤں میں طاقتور کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ پنجاب میں 17ارب روپے سے احساس پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ چولستان میں آباد کاری کے لیے زمین کی الاٹمنٹ شروع کی گئی ہے۔ پنجاب میں قبضہ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن میں ایک سال میں ایک لاکھ ایکڑ اراضی واگزار کرائی گئی ہے۔

پنجاب میں 5جدید مویشی منڈیاں بنائی جا رہی ہیں۔ گندے پانی کے تالاب ختم کیے جا رہے ہیں۔ شجرکاری کی مہم جاری ہے۔پنجاب میں ای ٹینڈرنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ٹھیکیداروں کی رجسٹریشن کی جا رہی ہے۔ تاکہ اس میدان میں کرپشن کا بازار بند کیا جا سکے۔ غرض کے پنجاب میں ایک سال میں کافی کام ہوا ہے۔ لیکن نظر نہیں آرہا۔ کیونکہ سب نے تعصب کی ایسی عینک لگا رکھی ہے۔ جس سے نظر نہیں آرہا۔ جو پورا سال عثمان بزدار میں بے وجہ کیڑے نکالتے رہے ہیں۔ اب اس کی کارکردگی کی تعریف کیسے کر دیں۔ وہ مشکل میں ہیں۔ ان کی مشکل کو سمجھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔