ان بندھے ہاتھوں سے جو کرسکیں

سید معظم حئی  جمعـء 23 اگست 2019
moazzamhai@hotmail.com

[email protected]

ہم کشمیریوں کی ’’ جدوجہد آزادی ‘‘ کی حمایت کر رہے ہیں مگر ہم کشمیریوں کی ’’جنگ آزادی‘‘ میں ان کی مدد نہیں کرسکتے کہ ہمارے سروں پہ ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف جیسی تلواریں لٹکی ہیں۔ ہم سلامتی کونسل میں کشمیریوں کے خلاف بھارت کی ریاستی دہشتگردی کے خلاف قرارداد توکیا مشترکہ اعلامیہ بھی منظور نہیں کروا سکتے، بھارتی اتحادی فرانس اور امریکا ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

مسلمان ممالک کشمیر پہ ہماری عملی تو کیا زبانی کلامی مدد بھی نہیں کریں گے۔ ویسے بھی ایک طرف ہمارے برادر اسلامی ممالک بھارت کی کھلم کھلا حمایت اور مدد کر رہے ہیں تو دوسری طرف بھارت کے برادر اتحادی مسلمان ملک افغانستان اور ایران ہیں جو ٹی ٹی پی، کلبھوشن یادیو اور عذیر بلوچ جیسوں سے پاکستان میں اپنے برادر ملک بھارت کے لیے دہشتگردی کرواتے رہے ہیں۔

ہم جنگ سے بھی کشمیر آزاد نہیں کرا سکتے ہمارے پاس جنگی اخراجات پورے کرنے کو پیسے نہیں۔ آپ جہاں سے دیکھیں آپ کو ہمارے ہاتھ بندھے نظر آئیں گے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ کیسے بندھے اور پھر یہ کہ ہم ان بندھے ہاتھوں سے کشمیر کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔

کشمیر میں موجودہ تحریک آزادی کا آغاز 1988-89ء میں ہوا جب بھارت کا اتحادی سوویت یونین افغانستان سے شکست خوردہ واپس جا رہا تھا۔ بھارت میں ایک طرف 1984ء سے جاری سکھوں کی تحریک آزادی کی جنگ زوروں پہ تھی تو دوسری طرف کشمیریوں کی تحریک آزادی بھی شروع ہوچکی تھی مگر پاکستان ، کشمیریوں اور سکھوں کی بدقسمتی کہ اس موقع پہ امریکا نے جنرل ضیا الحق سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں پیپلز پارٹی کو حکومت دلوا دی۔ 1989ء میں راجیو گاندھی خالصتان کی جنگ آزادی کی کمر توڑ دی۔

اگر آپ واقعاتی لحاظ سے دیکھیں تو عجیب اتفاق ملے گا کہ 1989ء میں راجیو گاندھی کے اسلام آباد کے دورے اور پاکستانی وزیر اعظم بینظیر بھٹو سے ون آن ون ملاقات اور اس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی حکومت کے وزیر داخلہ اعتزاز احسن کے بھارت کے دورے کے بعد اچانک بھارتی فوج اور پیراملٹری فورسز کو سکھ حریت پسندوں کے خلاف پے درپے کامیابیاں ملنے لگیں اور انھوں نے چن چن کر سکھ حریت پسندوں کا صفایا کردیا۔

سکھوں کی تحریک آزادی کے خاتمے سے بھارت ایک طرف کشمیر میں اپنی بھرپور فوجی توانائی جھونکنے کے قابل ہوا تو دوسری طرف اس نے کشمیرکا بدلہ کراچی میں لینا شروع کردیا۔ 1990ء کی دہائی میں کراچی میں کی جانے والی سیکڑوں ہڑتالوں کی تاریخوں کا اگر آپ بغور جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ جس دن مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال ہوتی تھی ٹھیک ایک دن بعد یا دوسرے دن ہی کراچی میں ہڑتال کی جاتی تھی۔ اس سلسلے کا آغاز 5 فروری 1990ء میں پورے ملک میں یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پہ کی جانے والی ہڑتال کے ایک دن بعد 7 فروری 1990ء کوکراچی میں پر تشدد ہڑتال کرکے کیا گیا۔

آپ کمال دیکھیے کہ کوٹہ سسٹم کے خلاف نعرے پہ ابھرنے والی تنظیم نے اپنے بانی اور کارکنوں کے لیے سیکڑوں ہڑتالیں کیں مگر کوٹہ سسٹم کے خاتمے، پاکستان بنانے والوں کی اولادوں کے لیے ملازمتوں، کراچی کے لیے ترقیاتی فنڈز، کراچی کی صنعتوں کی بحالی، کراچی کے لیے پانی کی فراہمی جیسے مطالبوں پہ آج تک ایک ہڑتال نہیں کی۔

1990ء کی دہائی میں وقت تھا کہ جنگ آزادی کشمیر کی ہر طرح مدد کی جاتی مگر طاقتور ریاستی ادارے اور سیاسی حکومتیں اپنے اپنے گیم کھیلتے رہے۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے کارگل کی ناقص منصوبہ بندی والی نقصان دہ لڑائی سے پاکستان کو پوری دنیا میں کشمیر پہ جارح اور بھارت کو مظلوم بنا دیا۔ 2001 9/11ء کے بعد جنرل پرویز مشرف نے پورا پاکستان امریکا کے حوالے کردیا مگر جواب میں اپنے ذاتی اقتدارکے سوا امریکا سے کچھ حاصل نہ کیا بلکہ الٹا کشمیر کی جنگ آزادی پہ دہشتگردی کا ٹھپہ لگوا دیا۔

اہم ریاستی اداروں کی 1947-48ء میں اپنے اعلیٰ ترین انگریز افسر کے ذاتی مفادات کی پاسداری اور اس کی اطاعت میں بانی پاکستان قائد اعظم کے کشمیر پہ ایکشن لینے کا حکم ماننے سے صاف انکار سے لے کر 1971ء میں اپنے اعلیٰ ترین افسر کی مزید اقتدار کی ہوس اور مغربی پاکستان کے جاگیرداروں، سیاستدانوں سے گٹھ جوڑ سے مشرقی پاکستان علیحدہ کروانے کے عمل میں اپنے اعلیٰ ترین اور غالباً عیاش ترین افسر کی اندھی اطاعت سے لے کر 2007ء میں اپنے اعلیٰ ترین افسران کے ذاتی ومالی مفادات کے لیے این آر او کروا کر ملک پہ بد ترین کرپٹ ، نا اہل اور جرائم پیشہ لوگوں کو مسلط کرنے تک اہم ریاستی اداروں نے تقریباً ہمیشہ ہی اپنے اعلیٰ ترین افسران کے ذاتی و مالی مفادات کو ملک کے مفادات پہ ترجیح دی ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ صرف پچھلے دس سال میں پاکستان پہ 30 ہزار ارب روپوں کا قرضہ چڑھ گیا ہے، صنعتیں ویران ہوچکی ہیں، برآمدات درآمدات کی نصف رہ گئی ہیں، تقریباً تمام سویلین ادارے سیاسی ولسانی بھرتیوں اورکرپشن سے تباہ ہوچکے ہیں، اٹھارہویں آئینی ترمیم کرکے سیاسی مافیاؤں نے صوبے کو اپنے خود مختار ذاتی راجواڑوں میں تبدیل کرکے وفاق کو کمزور کردیا ہے۔

پاکستان کی تباہی کے لیے پاکستان کی معیشت کی تباہی ضروری تھی اور پاکستانی معیشت کی تباہی کے لیے پاکستان کی معیشت کے انجن کراچی کی تباہی ضروری تھی چنانچہ 1990ء کی دہائی میں شہری سندھ کی لسانی پارٹی ہر ہفتے کئی کئی دن کی ہڑتالوں، بھتوں، ٹارگٹ کلنگز اور تعلیم کی تباہی سے کراچی کو بڑی حد تک برباد کردیا۔ 2008ء سے دیہی سندھ کی لسانی پارٹی کے دور حکومت میں کراچی کی تباہی کا مشن مکمل کردیا گیا۔کراچی کو فنڈز، پانی، ترقیاتی منصوبوں، سرکاری ملازمتوں سب ہی سے محروم کردیا گیا۔

گینگ وار کو ایک چھتری تلے متحد کرکے کراچی کے لوگوں کو لوٹنے اور مارنے کاٹنے کے لیے مکمل حکومتی سپورٹ فراہم کی گئی۔کراچی سے ہر سال 400 ارب کے لگ بھگ ٹیکس لینے اور وفاقی حکومت سے این ایف سی ایوارڈ میں ہر سال کوئی پانچ سو ارب روپے جس میں سے بیشتر کراچی سے وفاقی حکومت کو دیے گئے ٹیکسوں کے روپے ہوتے ہیں لے کر کراچی کو چھ سال میں 126 ارب روپے دینے کا فخریہ اعلان کرنے والی دیہی سندھ سرکار صوبائی حکومت نے کراچی کو کچرے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ ایک بااختیار شہری حکومت اور اپنے وسائل پہ اختیار حاصل ہونے تک کراچی کچرے کا ڈھیر بنا رہے گا اور پاکستان کی معیشت تباہ حال رہے گی۔

بہرحال اپنے ان بندھے ہاتھوں سے بھی ہم نے کشمیر پہ حالیہ دنوں میں کامیاب سفارت کاری کی ہے۔ ہمیں پوری دنیا میں کشمیریوں اور سکھوں کے ساتھ مل کر سڑکوں سے لے کر میڈیا تک میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف عوامی مہم منظم کرنی ہوگی۔ ملک کے اندر لوٹا ہوا مال برآمد کرانے کے لیے سختی کرنی ہوگی تاکہ ہماری معاشی ہتھکڑیاں ٹوٹ سکیں۔ کیونکہ سب سے اہم سوال اس ضمن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو ریاست اپنا ملک لوٹنے والے اور برباد کرنے والے ملزمان کے جیل اور حوالات کے کمروں سے ایئرکنڈیشنڈ نہیں نکلوا سکتی وہ کشمیر سے بھارت کوکیا نکالے گی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔