سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 25 اگست 2019
بہرحال اس وقت تو جمہوریت کو سب ہی چاہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

بہرحال اس وقت تو جمہوریت کو سب ہی چاہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

خانہ پُری
ہے کوئی جو کراچی کے ’’نالوں‘‘ کو دیکھے۔۔۔!
ر۔ ط۔ م

وفاقی وزیر برائے بحری امور سید علی زیدی نے بارش اور گندگی کے بعد کراچی کے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جس شخص کو بھی کچرا پھینکتے ہوئے دیکھیں، فوراً اس کی تصویر کھینچ کر جگہ اور نام کے ساتھ سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) پر مشتہر کر دیں۔

اس بات پر ہمیں تو چھوٹتے ہی ان کی جماعت کے رکن قومی اسمبلی عالمگیر محسود (جنہوں نے گٹر کے ڈھکنوں کے حوالے سے شہرت پائی) کا خیال آگیا، جو احتجاجاً بہت سارا کچرا اٹھا کر وزیراعلیٰ ہاؤس پھینکنے لے گئے، پھر دھینگا مشتی کے بعد حوالات کی ہوا کھا کر لوٹے۔۔۔ یقیناً علی زیدی کو اس مشورت میں عالمگیر کا خیال نہیں رہا ہوگا۔۔۔ اب زبان ہی تو ہے، پھسل جاتی ہے۔ 2015ء میں بلدیاتی انتخابات کے بعد بھی انہوں نے کراچی میں ’ایک سیاسی جماعت‘ کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’اسے ووٹ دینے والوں کو شرم آنا چاہیے۔۔۔‘ اور اسی سانس میں انہوں نے اپنے ’مینڈیٹ چوری‘ کا شکوہ بھی کیا، یعنی ووٹروں نے ’ایک سیاسی جماعت‘ کو ووٹ دے کر اُن کا مینڈیٹ چوری کیا۔۔۔؟

جانے دیجیے، کہ یہ تو اُس زمانے کا قصہ ہوا، جب وہ ایک دوسری سیاسی ’جماعت‘ کے ساتھ ’’دو جماعتی اتحاد‘‘ تلے شہر کے ’میئر‘ بننے کا سپنا دیکھتے تھے۔۔۔ بس، ان کی قسمت نے وفا کی اور وہ ہار گئے۔۔۔ ظاہر ہے ’یونین کونسل‘ کا انتخاب جیت کر وہ میئر بنتے یا نہ بنتے، لیکن 2018ء میں وہ قومی اسمبلی کی نشست جیت کر بحری امور کے وفاقی وزیر تو بن گئے نا۔۔۔ یہی نہیں وہ ’پہلی‘ سیاسی جماعت جو تب ’دہشت گرد‘ قرار دی تھی، اب اسے ایک نہیں دو، دو وزارتیں دے کر اقتدار کے سنگھاسن پر ہم رکاب بھی کیے ہوئے ہیں۔۔۔

علی زیدی نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ سوال بھی کیا کہ ’’کیا نالے صاف کرنا وزیر بحری امور کا کام ہے؟‘‘ بھئی سچ پوچھیے تو کراچی کے ندی نالوں کے ساتھ ’نالے‘ (آہ وفغاں) بھی کوئی نہیں دیکھ رہا۔۔۔ یا جو دیکھ بھی رہا ہے، تو اس میں بولنے کا یارا نہیں۔۔۔! ویسے بحری امور کے وزیر ہوتے ہوئے آپ نے 14 اگست تک کراچی صاف کرنے کا اعلان بھی تو کیا تھا۔۔۔ علی زیدی نے کراچی کے شہریوں کو یہ ’’پیش کش‘‘ بھی کی کہ ’’کہیں‘‘ کچرا دیکھیں، تو ہمیں بتائیں، ہم صفائی کے لیے متعلقہ ضلع کو مطلع کریں گے۔

یعنی علی زیدی کو کراچی میں بیٹھ کر بھی شہر میں ’’کہیں‘‘ کچرا دکھائی نہیں دیا۔۔۔؟ یعنی حد ہی ہوگئی نا! اب ’باہر‘ سے کراچی دیکھنے والوں سے تو ہم ’’حد نگاہ‘‘ کا شکوہ بھی کر لیتے ہیں، لیکن کیا انہوں نے بھی کراچی کو ’اسلام آباد‘ کے چشمے سے دیکھنا چاہا۔۔۔؟ اور تو اور بلاول بھٹو نے بھی کمال فرمایا، بولے کہ تاریخ میں کراچی سے اتنے جلدی پانی کبھی صاف نہیں ہوا۔۔۔!

رہی بات میئر کراچی وسیم اختر کی، تو وہ ہمیں موسلا دھار بارش کے بعد بہ مشکل جاگتے ہوئے سے لگے تھے، ہڑبڑا کر اٹھے، صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر خوب گرجے برسے، شہر کے کنٹونمنٹس کی بھی خبر لے ڈالی۔۔۔ کرنٹ لگنے کے واقعات پر ’کے الیکٹرک‘ پر بھی چڑھائی کی، ہمیں لگا، چلو دیر آئے مگر درست آئے، کے مصداق انہیں یاد تو آیا کہ بے اختیار، اور ’بِنا لندن‘ کے ہی سہی، مگر کراچی کے میئر تو اب بھی وہی ہیں۔۔۔ مگر یہ کیا صاحب۔۔۔ وہ تو جھاگ اڑا کر فوراً ہی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے، شاید کراچی کی جھیل کا منظر پیش کرتی ہوئی کسی ’’شان دار‘‘ نشیبی سڑک کے کنارے چائے پراٹھے سے لطف اٹھانے بیٹھ گئے ہوں، بشرطے کہ عید قرباں کی باقیات یا اُبلتے ہوئے گٹروں نے اس ’جوہڑ‘ کو تعفن زدہ نہ کیا ہو، ورنہ برسات کے ہفتے بھر بعد بھی بہتیری سڑکوں پر برسات کا پانی جوں کا توں رہا۔ اب پتا نہیں گورنر سندھ عمران اسمعیل پچھلی بار کی طرح اس پارٹی میں ان کے ساتھ ہوں یا نہیں۔۔۔

اور ہاں یاد آیا کراچی تو وفاق کا ہی نہیں بلکہ صوبہ سندھ کا بھی ’اٹوٹ انگ‘ ہے، اور کہتے ہیں کہ اسے ’کوئی‘ سندھ سے الگ بھی نہیں کر سکتا، اس اعتبار سے ’حکومت سندھ‘ کی ’حدود‘ میں یہ شہر بھی تو لگتا ہوگا۔۔۔ ابھی نقشہ پھر دیکھا ’کراچی‘ سندھ میں ہی واقع ہے۔۔۔ لیکن ’حکومت سندھ‘ میں ہے یا نہیں، یہ معلوم نہیں۔۔۔ ارے ہاں، یاد آیا بلدیاتی۔۔۔ بلدیاتی کر کے ایک وزارت بھی ہے، جی، جی سعید غنی سے ابھی بدل کر ناصر حسین شاہ کو جس کی زمام سونپی گئی ہے۔

جی بالکل وہی ناصر حسین شاہ جن کی علی زیدی اور وسیم اختر کے ساتھ تصویر دیکھ کر بہ یک وقت کچرے، اندھیرے اور پانی میں ڈوبا ہوا کراچی اَش اَش ’کر کے‘ اٹھا تھا۔۔۔ لیکن صاحب، لگتا ہے کہ ہر صاحب اقتدار کو یقین کامل ہے کہ اب کراچی کو مکمل جمود کا شکار کر دیا گیا ہے۔۔۔ بارشوں کے بعد بھیانک بدانتظامی اور غلاظتوں کے انبار تلے دبتا ہوا کراچی وبائی امراض کے دہانے پر ہے۔۔۔ مگر کوئی آواز ہی نہیں، جو سنائی دے۔۔۔ کل ہی دفتر سے نکلتے ہوئے سامنے ایک دیوہیکل اشتہار دیکھ رہا تھا، لکھا ہوا تھا ’’ایک قوم ایک آواز۔۔۔!‘‘ یہ پڑھ ہی رہا تھا کہ ایک گاڑی چَھناکے سے پہلے سے زیادہ گہرے ہونے والے گڑھے میں پانی سے گزر گئی۔۔۔ برا ہوا۔۔۔! اب یہ بات ہی کچھ ایسی تھی کہ چھینٹیں ہی آنا تھیں، اِسے اب گھر جا کر ہی صاف کریں گے، (اگر پانی اور بجلی میسر ہوئی) فی الحال آپ کراچی پر بھانت بھانت کے بقراطوں کے ’جبری مشورے‘ پڑھیے۔۔۔ شاید کراچی کے لیے سب ہی کو رائے دینے کا حق ہے۔۔۔ سوائے اہل کراچی کے۔۔۔!!

۔۔۔

اپنا غم صرف اپنے ذات کے کنویں میں پھینکنا چاہیے۔۔۔!
مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر
خوشی تو سنبل کے پھول جیسی ہوتی ہے۔ بنجر اور بے برگ شاخوں کے پھیلے ہوئے ہاتھوں میں انتظار کے روشن چراغوں کی مانند! جو دیکھنے والوں کی نظروں کو سکون، تازگی اور احساس جمیل بخشتے ہیں۔

اور غم۔۔۔؟ غم بھاری پتھر ہوتے ہیں انہیں ہمیشہ اپنی ذات کے کنویں میں پھینکنا چاہیے۔ دنیا کو، دیکھنے والوں کو آنسوؤں سے بھیگے، بے بسی سے دہکتے، رگ جاں کے ٹوٹتے تاروں سے الجھتے، کرب سے سر ٹکراتے انسانوں کا نظارہ افسردہ کرے نہ کرے، وہ اس غم کو کم قیمت کر دیتے ہیں۔ اور میرے غم فقط میرے ہیں۔ میرے دل پہ جدائی کے سیاہ داغ ہیں، وہ قیمتی ترین غم جس کے آنسو فقط میری آنکھوں کو پگھلانے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ جس کی تپش، جس کی بے بسی میری شہ رگ کو بھینچتی ہے اور میرے خالی ہاتھوں میں فقط لمس کی پرچھائیں جو رہ گئی ہے وہ مجھے دیوار سے سر ٹکرانے پر مجبور کر دیتی ہے، وہ غم جو میری آخری سانس تک میرے خون میں پلنا ہے، جس کی آب یاری میں نے اپنے لہو سے کرنا ہے وہ میں کسی کو دکھا نہیں سکتی۔ اے غم دینے والے! جلد ملیں گے کسی اور کائنات میں۔۔۔ یہ مجھے یقین ہے!

۔۔۔

کچھ اَن مول سی باتیں۔۔۔
مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
*جب احساس ندامت سے میرا ایک آنسو ٹپکا تو کہیں سے آواز آئی، آنسو بہائے جا کہ روح کی برکھا یہی ہے۔
*چاند اور سورج کے جلوئوں کا حجاب اٹھ گیا، تو اور تو من کے آنگن میں یوں ہولے ہولے داخل ہوا ’’جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے۔‘‘
*میں نے ایک کیاری میں پھول لگائے، پھر دیکھا کہ پتیاں کانپ رہی ہیں، تتلیاں بے چین ہیں، کلیاں انگڑائیاں لے لے کر جاگ رہی ہیں اور مجھے یقین ہوگیا کہ ہر شے اپنی تکمیل کے لیے بے تاب ہے۔
*جگنو نے پوچھا ’’تو اس تاریک رات میں کہاں جا رہا ہے؟‘‘
میں نے کہا ’’اُس کی تلاش میں۔‘‘
وہ بولا ’’یہ لے ایک شعلہ اور پہلے اپنے آپ کو تلاش کر!‘‘
*وہ زندگی سے بھاگ کر پہاڑوں میں روپوش ہو گیا۔ دوسری صبح جاگا، تو زندگی اس کے آنگن میں ناچ رہی تھی!
*اللہ سے رابطہ قائم نہ ہو تو شخصیت کھوکھلی ہو جاتی ہے اور صورت بگڑ جاتی ہے۔
*دنیا میں لاکھ گھومیے، ہزار اسباب عیش مہیا فرمائیے۔۔۔ محل بنائیے، گاڑی خریدیے، کچھ کیجیے، لیکن سکون کبھی حاصل نہیں ہو گا۔ یہ نعمت عظمیٰ صرف ایک مقام سے مل سکتی ہے اور وہ مقام ہے ’’مَن کی دنیا‘‘
(ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی تصنیف ’مَن کی دنیا‘ سے چُنا گیا)

۔۔۔

صد لفظی کتھا
ماضی
رضوان طاہر مبین
’’یہ بارش بھی کون کون سی باتیں یاد دلا دیتی ہے۔۔۔‘‘
ثمر چھتری بند کرتا ہوا اندر داخل ہوا۔
’’بالکل، ساون کی رُتیں اکثر بھولا بِسرا ماضی تازہ کر ہی دیتی ہیں۔‘‘
اَمر ایک آنکھ مِیچتے ہوئے معنی خیز انداز میں بولا۔
’’ارے میں سیاسی تاریخ کی بات کر رہا ہوں۔۔۔!‘‘
ثمر نے سنجیدگی سے کہا۔
’’اب برسات جیسے رومانوی موسم میں بھلا سیاسی تاریخ کا کیا لینا دینا۔۔۔؟‘‘
اَمر کو اچنبھا ہوا۔
’’تم سمجھے نہیں۔۔۔
دراصل لگاتار برستے مینہ کے بعد شہر کی دیواروں نے برسوں پرانی باتیں، دعوے اور نعرے اُگل دیے ہیں۔۔۔!‘‘
ثمر نے جواب دیا۔

۔۔۔

کون ملنے آیا تھا۔۔۔؟
ظہیر انجم تبسم، خوشاب
بابا بندو ساری عمر دیہات میں زمین داری کرتا رہا، بہت کم شہر میں جاتا، لیکن اس نے اپنے بچے کو اعلیٰ تعلیم دلوائی، جو برطانیہ سے ڈاکٹر بن کر ایک اسپتال کا ایم ایس ہوگیا۔ بابا بندو ہر ہفتہ اپنے اکلوتے بیٹے کو خط لکھتا تھا۔ کافی عرصہ ہوگیا بیٹے نے گائوں کا چکر نہ لگایا۔ بابا بندو کا دل بیٹے سے ملنے کو چاہ رہا تھا۔

اس نے دیسی گھی کا حلوہ تیار کیا اور بیٹے سے ملنے شہر کے ایک بڑی میڈیکل یونیورسٹی چل دیا۔ اس کا بیٹا ایک میٹنگ میں مصروف تھا۔ اس نے کھڑکی کے شیشے سے والد کو آتا ہوا دیکھا کہ اس کا والد سر پر کپڑا ڈالے، تہمد پہنے، دیہاتی چپل میں چلے آرہے ہیں۔ ڈاکٹر نے چوکی دار کو بلا کر کہا وہ جو بابا آرہا ہے، اس کو کہنا ڈاکٹر صاحب موجود نہیں ہیں۔ چوکی دار کو بابا بندو پر بہت ترس آیا۔ وہ بہت دور سے سفر کر کے ڈاکٹر صاحب سے ملنے آرہا تھا۔ اس نے بابا بندو کو پانی پلایا اور کہنے لگا جب ڈاکٹر صاحب آئیں گے، تو میں ان کو آپ کا پیغام دے دوں گا، آپ اپنا نام بتائیں کہ میں اس سے کیا کہوں کہ کون ملنے آیا تھا؟ بابا بندو نے کہا ڈاکٹر آئے تو اس سے کہنا تیری ماں کا خصم ملنے آیا تھا۔

۔۔۔

’سوشل ازم‘ کڑوا حلوہ ہے۔۔۔!
مرسلہ: سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی
کھیر پر ہمیں یاد آیا کہ ایک مرتبہ مولانا مودودی نے کچھ حلوے کی بات کی تھی۔ حلوے کی کیا بات ہے۔ اس کے نام سے منہ میں پانی بھر آتا ہے، مگر مولانا مودودی کو شکایت یہ تھی کہ سوشل ازم کڑوا حلوہ ہے۔ اصل میں ہر آدمی کا اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے۔ مولویوں کو حلوے سے نسبت خاص چلی آتی ہے اور بھٹو صاحب کو کباب زیادہ مرغوب ہونے چاہییں، مگر جب جمہوریت چپلی کباب نہیں ہے، سوشل ازم کڑوا حلوہ ہے، تو پھر بھوکے کیا کریں گے۔

جس کسی نے جمہوریت کو چپلی کباب سمجھا تھا، اس نے کیا غلط سمجھا۔ بھوکے سے کسی نے پوچھا کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں۔ اس نے جواب دیا ’’چار روٹیاں‘‘ جمہوریت کا جیسا سہانا نقشہ لیڈروں نے کھینچا تھا اس سے نادانوں نے یہی سمجھا کہ یہ کوئی کھانے کی چیز ہے۔ اب پتا چلا کہ جمہوریت اور آئین تو کھانے کی چیزیں نہیں ہیں۔ جمہوریت اور آئین کا غم کھایا جا سکتا ہے۔ جمہوریت اور آئین کو نہیں کھایا جاسکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ ایوب خان دونوں کو کھا گئے اور ڈکار نہیں لی۔

اس پر ایک بھوکے نے جل کر پوچھا کہ پھر کیا جمہوریت اور آئین سونگھنے کی چیز ہیں۔ اس پر ہمیں نظیر اکبر آبادی کی نظم یاد آگئی جس میں کہنے والا کہتا ہے کہ

ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو سب نظر آتی ہیں روٹیاں

بہرحال اس وقت تو جمہوریت کو سب ہی چاہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسلام پسند بھی اور سوشلسٹ بھی، لیکن مولانا مودودی اور بھٹو صاحب والی بات سے ہم نے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ کون جمہوریت کو کس طرح چاہتا ہے۔ ایک کہانی، جس میں بادشاہ نے اپنی بیٹیوں سے سوال کیا کہ تم مجھے کیسا چاہتی ہو۔ کسی نے کہا کہ میں جہاں پناہ کو ایسا چاہتی جیسا حلوے کو چاہتی ہوں۔ حلوے سے اشارہ لے کر مختلف بیٹیاں میٹھی چیزوں کے نام گنواتی چلی گئیں، مگر ایک بیٹی یہ بولی کہ میں آ پ کو نمک جتنا چاہتی ہوں، جس کے بغیر ہر پکوان ادھورا ہے۔
(انتظار حسین کی تصنیف ’قطرے میں دریا‘ سے ایک اقتباس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔