کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 25 اگست 2019
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

غزل


حسن کے وسوسے سے باہر مل
تو مجھے آئینے سے باہر مل
رکھ بھرم کچھ تو بے لباسی کا
شرم کے دائرے سے باہر مل
ماورا نظم کی ہو بندش سے
تو مجھے قافیے سے باہر مل
وجد کی کیفیت میں چھو مجھ کو
ہوش کے دائرے سے باہر مل
کھینچ لے وقت کی طنابوں کو
جسم کے فاصلے سے باہر مل
خاک پر پھینک دے انگوٹھی کو
گھر کے اس فیصلے سے باہر مل
بے خطر ہاتھ تھام راہب کا
خوف کے سلسلے سے باہر مل
( عمران راہب۔ بھکر)

۔۔۔
غزل


یہ جملہ خوب صورت ہے
کہ دنیا خوب صورت ہے
بساؤں گا اسے دل میں
وہ چہرہ خوب صورت ہے
تجھے کیسے بتاؤں میں
تو کتنا خوب صورت ہے
وہ کچھ کم بولتا ہے نا
زیادہ خوب صورت ہے
کسی کے دل میں رہنے کی
تمنا خوب صورت ہے
مسلسل پوچھتی ہے کیوں؟
کہا نا! خوب صورت ہے!
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ)

۔۔۔
غزل


اس سے پہلے کہ جائے خاموشی
کوئی مصرع اٹھائے خاموشی
رات کی سیڑھیوں پہ بیٹھے ہیں
میں، تری یاد، چائے، خاموشی
پھر اداسی نے میرے ہونٹوں پر
پڑھ کے پھونکی دعائے خاموشی
اس کے جاتے ہی اوڑھ لیتی ہے
میری دنیا ردائے خاموشی
شور برپا ہے جو مرے اندر
اس کو لگ جائے ہائے خاموشی
دھوپ بیساکھیاں اتارے تو
میرا کمرہ دکھائے خاموشی
میرے آنگن میں چار سو پھیلے
اک بجھی رات، سائے، خاموشی
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔
غزل


کس خواہش کو مَن میں دبا کے روتی ہو
تم کوئی تو بات چھپا کے روتی ہو
بولو اتنی پاک محبت کس سے ہے
کر کے سجدہ ساتھ دعاکے روتی ہو
کیا ہے پتھر دار سے ایسا ناتا کہ
گھر میں بکھرے کانچ اٹھا کے روتی ہو
جن زلفوں سے سنگ تراشے جاتے تھے
ان زلفوں میں پھول سجا کے روتی ہو
قدغن میرے نام کی ایسی عائد ہے
چولھے میں اب پھونک لگا کے روتی ہو
ساگر، اپنے باپ کی حرمت رکھنے کو
کمرے میں زنجیر لگا کے روتی ہو
(ساگر حضورپوری۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


کب کسی شخص کے گمان میں ہے
درد اتنا ترے جہان میں ہے
ایک لشکر ابھی مقابل ہے
تیر بھی آخری کمان میں ہے
مجھ کو میں بھی یہاں نہیں ملتا
کون رہتا مرے مکان میں ہے؟
اپنے اندر سفر کیا میں نے
اک عجب سا مزہ تکان میں ہے
وقت سنتا ہے غور سے تجھ کو
کوئی جادو تری زبان میں ہے
میں کہاں سے اسے اٹھا لاؤں؟
کیا محبت کسی دکان میں ہے
(بدر سیماب۔ چیچہ وطنی)

۔۔۔
غزل


اپنا وجود کھو دیا رب کی تلاش میں
پھر آ لیا کہ موت تھی کب کی تلاش میں
کیا چپ لگی وصال کے دوران جانِ من
گویائی کے لیے رہے لب کی تلاش میں
وعدہ تھا کوئی ملنے کا ہم سے تمہارا یار
ہم عمر بھر رہے ہیں سبب کی تلاش میں
اس نے کہا تھا شب کو ملاقات بھی ہو گی
اور ہم بھٹک گئے اسی شب کی تلاش میں
پہلو نشیں ہوئے تھے ہمارے کہ پوچھ مت
کرتے کلام کیا! تھے ادب کی تلاش میں
اک دوست ہم کو ہی نہ ملا سیف عمر بھر
کس درجہ لوگ دیکھے ہیں رب کی تلاش میں
(سیف علی عدیل۔ حافظ آباد)

۔۔۔
غزل


تمام فتنے بنام شباب اٹھائے گئے
ہمارے ہوش پلا کر شراب اڑائے گئے
کسی کی سیج پہ کانٹے بچھا دیے مل کر
گلاب قبر پہ تازہ کہیں چڑھائے گئے
نہ پوچھیے کہ وہ آئے تو پھر کدھر کو گئے
انا کے گھوڑے پہ آئے جناب آئے گئے
وہ آ رہے تھے سرِ بزمِ اہلِ دل زدگاں
سو دل زدہ بھی اسی بزم میں بٹھائے گئے
ذرا سی پی کے بتایا گیا حرام ہے یہ
ذرا سا جھوم کے خطبے بڑے سنائے گئے
ہم ایسے مکتبِ بے فیض کے ہیں طالبِ علم
سبق ہمارے ہمیں ہی جہاں پڑھائے گئے
ہوا تھا خوب ہی واویلا مرگِ نجمی پہ
جی خوب آنسو مگرمچھ کے بہائے گئے
(نجم الحسن نجمی۔ جھامرہ، چکوال)

۔۔۔
غزل


کچھ اس طرح سے ہوئی زندگی تباہ میاں
دعا کرو کہ نہ لگ جائے تم کو آہ میاں
کسی کے ساتھ تو راتوں کو بھی اجالا تھا
کسی کے بعد تو دن بھی ہوئے سیاہ میاں
ابھی تو ہے یہ شروعات، حوصلہ رکھو
یہ مشکلوں کا سفر ہے، کٹھن ہے راہ میاں
ہمارے درد کی تعظیم بھی تو لازم ہے
ہمارے شعر پہ ایسے کرو نہ واہ میاں
اک ایسے شہر میں اب ہوگئے ہیں ہم داخل
کوئی بھی دیتا نہیں ہے ہمیں پناہ میاں
یہ ساری دنیا تو خود غرض ہے بتا یاسر
ہمارے ساتھ کرے گا کوئی نباہ میاں؟
( یاسر پاروی۔ اسکردو، بلتستان)

۔۔۔
غزل


زمانے کی ہم مختصر سوچتے ہیں
تجھے آج کل اس قدر سوچتے ہیں
کبھی تجھ سے شہرِ وفا میں ملیں گے
یہی رات دن بے خبر سوچتے ہیں
سجائے نہیں خواب محلوں کے ہم نے
تیرے دل میں بس ایک گھر سوچتے ہیں
تیری چاہتیں جو میسر ہوئی ہیں
ہم آہِ جگر کا اثر سوچتے ہیں
ترے نام کر دیں سخن کی ریاست
کچھ ایسا ہم اہلِ ہنر سوچتے ہیں
ترے بِن سحر زندگی کو فقط ہم
ادھورا حیاتِ سفر سوچتے ہیں
(سحر نورین سحر۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


شبنمی ہے ہر ایک صبح کی آنکھ
میں کوئی رات کھل کے رویا تھا
صحن میں پتھروں کا ہے انبار
پھل تو ان بیریوں کا کچا تھا
جن دنوں مجھ پہ وقت اچھا تھا
وہ سر شام لوٹ آتا تھا
رات دستک پہ دیکھتا ہوں کیا
میری چوکھٹ پہ چاند رکھا تھا
چھوڑ آیا ہوں وہ نگر جس کی
ہر گلی کا فقیر سچا تھا
(راول حسین۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


چپکے سے تم کسی اور کے ہو گئے
چاہتے جو اگر فون ہو سکتا تھا
تُو نے چن ہی لیا ہے چھلا سادہ سا
ہاتھ میں یار زرقون ہو سکتا تھا
یوں لپٹ کر ترے سینے سے زندگی
میں ترے تکیے کی اُون ہو سکتا تھا
تو ملا جو نہیں دل سمجھ ہی گیا
جنوری میں کہاں جون ہو سکتا تھا
حسرتِ دل رہی ساتھ جیتا ترے
ساتھ ہی یار مدفون ہو سکتا تھا
اب مجھے ہوگا سرطانِ عشق و بلا
پچھلے وقتوں میں طاعون ہو سکتا تھا
(ابرار انجم ساقی۔ حضور پور، سرگودھا)

۔۔۔
غزل


روشنی کا نہیں نشاں یارو
زندگی ہے دھواں دھواں یارو
منزلوں پر غبار چھایا ہے
ہے کہاں اپنا کارواں یارو
مشکلات حیات اتنی ہیں
موت بھی اب ہے بدگماں یارو
مسکرا کر کسی کو کیا دیکھا
بن گئی ایک داستاں یارو
بھول جائیں اسے تو اچھا ہے
آرزو اب نہیں جواں یارو
وہ نہ آیا کنول کے خوابوں میں
دل کا خالی رہا مکاں یارو
(محمد حسین کنول۔ بہاول پور)

۔۔۔
غزل


حسن پر تیرے بات ہو جائے
پھر حسیں کتنی رات ہو جائے
تجھ کو دیکھوں، تجھے سنواروں میں
عمر میری دراز ہو جائے
تجھ سے گر میرا نام جڑ جائے
منفرد میری ذات ہو جائے
حور و غلماں کا تذکرہ چھوڑو
جانِ جاناں کی بات ہو جائے
کھیلنے پر اگر وہ آجائیں
اچھے اچھوں کو مات ہو جائے
(ذیشان خاکسار۔ لاہور)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔