پاکستانی جمہوریت

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 24 اگست 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

جمہوریت کو متعارف کرانے والوں کے تصور سے اگر پاکستانی جمہوریت گزر جاتی تو وہ تو یہ کرکے معذرت چاہتے اور آنے والی نسلوں کو نصیحت کرتے کہ پاکستانی جمہوریت کے قریب سے بھی نہ گزرنا کیونکہ پاکستانی جمہوریت میں سب کچھ ہے جمہوریت نہیں ہے۔

ہماری عاشقان جمہوریت پاکستان کی تاریخ میں راندۂ جمہوریت ہوتے ہوئے جمہوریت کے اس قدر دلدادہ ہیں کہ ہر روز اس جمہوریت کی گاڑیوں پرگلاب کے پھول چڑھاتے ہیں۔ پاکستانی جمہوریت کے مزار پر اب تک منوں گلاب بلکہ ٹنوں گلاب چڑھائے جا چکے ہیں۔ اگر اسے گلابی جمہوریت کہا جائے تو حقیقت کے قریب ہوگا جب سے ’’جمہوریت کے مجاوروں‘‘ پر برا وقت آیا ہے دو کام عاشقان جمہوریت بڑی پابندی سے کر رہے ہیں ۔ایک یہ کہ کسی بہانے میڈیا میں جمہوریت کی بحالی کے حوالے سے کوئی نہ کوئی بھاشن ضرور دیتے ہیں اور بڑی شدت سے عوام کو جمہوریت سے عشق کا یقین دلاتے ہیں۔

جب تک سیاسی سرگرمیاں جاری تھیں فیتے کاٹنے کا شغل جاری رہتا۔ اب اس فن جیب تراشی کے نتیجے میں جب جیب تلاشی کے دور میں داخل ہوئے ہیں تو اپنی مقبولیت کو عوام تک پہنچانے کے لیے ان عقل تراشوں نے یہ کام شروع کیا ہے کہ جب محل سے عدالت جانے کے لیے نکلتے ہیں تو اپنی کروڑوں روپوں کی گاڑیوں پر گلاب چڑھاتے ہیں بلکہ گاڑیوں کو گلاب سے ڈھانک دیتے ہیں۔

گاڑیوں کو عموماً دلہوں کی بارات کے لیے پھولوں سے سجایا جاتا ہے لیکن ان بے بارات کے دلہاؤں کی گاڑیاں عوام سے محروم ہوتی ہیں، سو ملازمین یا کرائے کے بندوں سے گاڑیوں پر گلاب نچھاور کیے جاتے ہیں اور وہ بھی منوں کے حساب سے۔ اس کا مقصد یہ بتایا جاتا ہے کہ عوام میں رہنماؤں کی مقبولیت کو برقرار رکھا جائے اور یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب عوام کا سایہ لیڈروں کے سر سے اٹھ جاتا ہے اور سروں میں جمہوریت کے سُروں کی سرگم گم ہوجاتی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کچھ میڈیا والوں کو بھاری معاوضے پر اس بات کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے کہ وہ لیڈروں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے دکھائیں لیکن عوام لیڈروں کے سائے سے بھی دور رہتے ہیں۔

ایسی حالت تک پہنچنے کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ عوام انھیں اپنے مسائل حل کرنے کے لیے ووٹ دیتے ہیں اور یہ رہنما ووٹ لے کر عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے نوٹ بلکہ نوٹوں کی بوریوں کے پیچھے بھاگتے پائے جاتے ہیں اور آج نیب ان کے پیچھے اس لیے بھاگ رہی ہے کہ ان کے بینک اکاؤنٹس کا وزن کم کیا جائے۔ جب سے عوام کا سایہ رہنماؤں کے سروں سے اٹھ گیا ہے یہ لنڈورے ہوکر رہ گئے ہیں ۔ان کے مزاجوں کی تبدیلی کا عالم یہ ہے کہ بچوں اور نوجوان طالب علموں کو ٹولیوں کی شکل میں اسکولوں اورکالجوں کی طرف جاتے دیکھتے ہیں تو ہاتھ ہلانے لگ جاتے ہیں۔

اس حوالے سے ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ خلائی مخلوق نے جب کسی ایویں بندے کو مقبول عوام بنانے کا ارادہ کیا تو ان کے جلسوں کا اہتمام کیا جانے لگا۔ لیکن ان مقبول عوام رہنماؤں کی ہر دلعزیزی کا عالم یہ تھا کہ جلسے میں صرف ٹینٹ اور کرسیاں اٹھانے والے ہوتے تھے مشکل یہ تھی کہ ’’لاکھوں‘‘ کے ان جلسوں میں صرف ڈیکوریشن والے ہوتے تو مجمع بڑا مشکل ہوجاتا۔ اس مسئلے کا یہ حل نکالا گیا کہ لیڈر کو تو تقریر دل پذیر کرتے دکھایا جاتا لیڈر جوش میں بھی آجاتا ہاتھ بھی ہلاتا لیکن کیمرہ ایک منٹ کے لیے بھی لیڈر کے مکھڑے سے الگ نہیں ہوتا بس لیڈر کی آواز کے زیر و بم سے سامعین اندازہ لگا لیتے کہ جلسے میں ’’لاکھوں عوام‘‘ تشریف رکھتے ہیں۔ یہ ٹرکیں بڑی کامیاب ہوئیں اور رہنما کی پاپولیرٹی صرف کیمرے کی آنکھ میں بند ہوتی کیونکہ لیڈر کے مکھڑے سے کیمرہ ہٹتا ہی نہیں۔

اس کے برعکس ماضی میں بھٹو جیسا لیڈر بھی گزرا ہے جس کے استقبال کے لیے عوام دو دو دن ریلوے اسٹیشنوں پر ڈیرہ جما لیتے تھے کہ ایک جھلک بھٹو کی دیکھ لیں۔ بھٹو کے بعد عمران خان کے جلسوں میں بھٹو کی جھلک دکھائی دیتی تھی لیکن عمران خان نے عوام کے مسائل میں بے تحاشا اضافہ کرکے بھٹو جیسی مقبولیت کا کونڈا کردیا اب جلسے کرنا ہی چھوڑ دیا۔

بات چلی تھی گلابوں کی، عوام اپنے مقبول رہنماؤں کے نعروں کے ساتھ گلابوں سے استقبال کرتے ہیں۔ اب عوام اپنے رہنماؤں کو صبح صبح نیب کورٹ جاتے دیکھتے ہیں تو ان کی ساری ’’چاہت‘‘ ساری ہمدردیاں دور بھاگ جاتی ہیں۔ ایسے لیڈر سب نہیں صرف کرپشن میں ڈوبے ہوئے لیڈر ہی ’’مقبولیت‘‘ کی اس منزل تک پہنچے ہوئے ہیں۔ یہ شرفا اب تک اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ اب بھی مقبول عوام لیڈر ہیں ۔

بلاشبہ ایسے لیڈر گزرے ہیں جن کی زندگی کا ہر لمحہ عوام کی خدمت میں گزرا ہے۔ ایسے لیڈر خوشبو کی طرح پسندیدہ ہوتے ہیں، دولت کے انبار کے لیے یہ لیڈر زندہ نہیں ہوتے بلکہ دولت ان کے جوتوں کی نوک پر ہوتی ہے ایسے لیڈروں کو میڈیا کوریج کے لیے میڈیا کے کارکنوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے خوشامد کرنا نہیں پڑتا۔ میڈیا کے کارکن ایسے مخلص اور عوام دوست لیڈروں کے جلسوں جلوسوں کی کوریج کے لیے دل سے تیار رہتے ہیں۔ رات دیکھتے ہیں نہ دن عوام دوست رہنماؤں کے لیے دن رات ایک کردیتے ہیں،گاڑیوں وہ بھی کروڑوں مالیت کی گاڑیوں کو ’’منوں گلاب نچھاور‘‘ کرکے انھیں اپنی مقبولیت ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔