- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
عمر کے خاص عرصے کا بلڈ پریشر مستقبل کی دماغی کیفیت پر اثرانداز ہوتا ہے
لندن: ایک نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ انسانی عمر کے 30 برس اور 40 برس کے پورے عشرے میں بلڈ پریشر میں جو بھی اتار چڑھاؤ واقع ہوتا ہے وہ مستقبل کی دماغی صحت پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے ماہرین نے لگ بھگ 40 برس تک لوگوں کا بغور مطالعہ کیا ہے۔
اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر عمر کے اس حصے میں فشارِ خون میں کمی بیشی ہوتی ہے تو شاید مرتے دم تک اس کے دماغ پر ہونے والے اثرات جاری رہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عمر کے کس حصے میں بلڈ پریشر کا خیال رکھنا چاہیے اور کیوں؟
واضح رہے کہ بلڈ پریشر کے مرض کو خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے۔ اگر فشارِ خون قابو میں نہ رہے تو اس سے دل کے امراض، فالج اور دیگر بیماریاں جنم لیتی ہیں جن میں گردوں کے امراض بھی عام ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جسم کی سب سے ذیادہ آکسیجن اور خون بھی دماغ کو درکار ہوتی ہے۔
دماغ میں خون کی 15 سے 20 فیصد مقدار موجود رہتی ہے اور اگر خون کی فراہمی معمولی بھی متاثر ہوجائے تو دماغ جیسا حساس ترین عضو بھی شدید متاثر ہوتا ہے۔ دماغ کو خون کی فراہمی معطل ہوجائے تو فالج کا دورہ پڑسکتا ہے۔
اس سے قبل ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی تھی کی وسطی عمر یا مڈل ایج میں فشارِ خون کی سسٹولک ریڈنگ کو 120 سے کم رکھا جائے تو آگے کی عمر میں دماغ میں سفید مادے (وائٹ میٹر) کا بڑھاؤ سست رفتار ہوتا ہے۔ دماغ میں سفید مادے کے ابھار اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ انسان تیزی سے بوڑھا ہورہا ہے اور اس کے نتیجے میں مجموعی طور پر تمام دماغی اور ذہنی صلاحیتیں زوال کی جانب آمادہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں 40 سال کی عمر کے بعد بلڈ پریشر کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور لوگ ازخود اپنے بلڈ پریشر پرنظررکھتےہیں۔
اب برطانیہ کے پروفیسر جوناتھن شوٹ 46 ڈیٹا سیٹ میں سے 502 افراد کا ڈیٹا حاصل کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر عمر کے درمیانے حصے میں بلڈ پریشربڑھا ہوا ہو تو اس سے آگے چل کر ڈیمنشیا اور دیگر امراض کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ یہ تحقیقات سائنسی جریدے لینسٹ نیورولوجی میں شائع ہوئی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر وسطی عمر میں بلڈ پریشر میں غیرمعمولی اتار چڑھاؤ کا مرض لاحق ہوجاتا ہے تو اس سے 60 سال میں دماغی کمزوری اور کئی امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔ سروے شروع کرتے وقت خواتین و مرد کی عمریں، 36، 43، 60 سے 65 برس اور 69 سال تھی اور جب وہ 70 برس تک پہنچے تب تک ان کے پی ای ٹی ایم آر آئی کئے جاتے رہے۔
تحقیق نے بتایا کہ اگر 36 سے 43 اور 43 سے 53 سال کی عمر میں بلڈ پریشر بڑھے کا مسلسل مرض لاحق ہوجائے تو اگلی ایک دو دہائیوں میں دماغ کا حجم سکڑسکتا ہے۔ اسی طرح دماغ میں یادداشت کے اہم مرکز ہیپوکیمپس بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس طرح ایک تعلق قائم ہوا جو بتاتا ہے کہ اگر 53 سال کی عمر میں بڑھا ہوا بلڈ پریشر معمول بن جائے تو اس سے دماغ میں سفید مادے کی افزائش میں سات فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ لیکن 43 برس سے 53 سال کی اوسط عمر سے بگڑنے والا فشارِ خون اس شرح کو بڑھا کر15 فیصد تک بڑھاسکتا ہے۔
اس طویل تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ بلڈ پریشر دماغ کو بہت حد تک نقصان پہنچاتا ہے جس کے واضح اثرات عمر کے آخری حصے میں سامنے آتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔