احساس سے عاری

شہاب احمد خان  پير 26 اگست 2019
کیا ریحان کے والدین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کا بچہ کن سرگرمیوں میں ملوث ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کیا ریحان کے والدین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کا بچہ کن سرگرمیوں میں ملوث ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آج ایک موضوع بہت زیادہ اخبارات کی زینت بن رہا ہے۔ بلاگرز روزانہ ایک سے بڑھ کر ایک بلاگ لکھ رہے ہیں۔ ایک نوجوان جو کہ مبینہ طور پر چوری کررہا تھا اسے پکڑ کر لوگوں نے بیدردی سے زدو کوب کیا اور وہ اپنی جان سے چلا گیا۔ ایک افسوس ناک واقعہ جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ہر کوئی اس نوجوان کی ہمدردی میں آنسو بہارہا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کے ایک خوفناک رخ کی عکاسی کرتا ہے۔ مگر مجھے ہمیشہ تصویر کے دونوں رخ دیکھنے کی عادت رہی ہے۔

کیا ہمارے معاشرے میں ڈاکوؤں کو زندہ جلانے کے واقعات پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ کیا ہمارے معاشرے میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ لوگوں نے قانون کو خود ہاتھ میں لیا ہو؟ ہمیں ان لوگوں کو، جنہوں نے یہ جرم کیا ہے، لعن طعن کرنے سے پہلے ذرا اپنے معاشرے کے دوسرے تلخ حقائق کو بھی نظر میں رکھنا ہوگا۔

کوئی بھی انسان ایک دم اتنا بے حس اور بیدرد نہیں ہوجاتا جب تک خود اس کے ساتھ کچھ ایسا مسلسل نہ ہورہا ہو جو اس کی برداشت سے باہر ہوگیا ہو۔

آج کراچی میں رہنے والے روزانہ کتنے چوروں اور ڈاکوؤں کا سامنا کرتے ہیں، یہ کبھی کسی نے محسوس کرنے کی کوشش کی ہے؟ ان چوروں میں صرف روایتی چور ہی شامل نہیں ہیں، غیر روایتی چور بھی شامل ہیں۔ آپ اپنی گاڑی میں دفتر کےلیے نکلتے ہیں۔ سب سے پہلے سفید وردی میں سڑکوں پر کھڑے چوروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اگر آپ کے پاس تمام کاغذات بھی موجود ہوں تب بھی وہ آپ سے گاڑی میں لگے سی این جی سلینڈر کا فٹنیس سرٹیفکیٹ مانگ کر آپ سے کچھ نہ کچھ وصول کرلیتے ہیں۔ پھر آپ گاڑی کھڑی کرنے کےلیے پہنچتے ہیں تو ایک جعلی رسید لیے ہوئے غیر مقامی نوجوان کھڑا ہوتا ہے، جو آپ سے پارکنگ کے نام پر کچھ وصول کرلیتا ہے۔ آپ اگر کسی کام سے کسی سڑک سے گزر رہے ہیں تو کسی طرف سے موٹر سائیکل پر سوار دو ڈاکو آپ سے آپ کا پرس اور موبائل لے کر انتہائی آسانی سے آپ کو ٹاٹا کرتے ہوئے رخصت ہوجاتے ہیں۔

آپ اپنی فریاد لے کر اگر تھانے پہنچ گئے تو وہاں چوروں کی ایک محفل جمی ہوتی ہے۔ جو آپ کی ایف آئی آر اس وقت تک نہیں کاٹتی جب تک آپ کچھ نذرانہ پیش نہ کریں۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود اس بات کی ایک فیصد امید بھی نہیں ہوتی کہ آپ کا موبائل اور پرس آپ کو واپس مل جائے گا۔

آج اگر کوئی یہ کہے کہ ہمیں تو یہ بات معلوم ہی نہیں ہے کہ ہماری عدالتوں سے کسی چور اور ڈاکو کو سزا نہیں ملتی، تو شاید وہ نیا نیا پاکستان میں رہنے کےلیے آیا ہے۔ اگر آپ کسی چور یا ڈاکو کو پکڑ کر پولیس کے حوالے بھی کر دیتے ہیں تو ننانوے فیصد امکان یہی ہوتا ہے کہ پولیس والے اسے تھانے لے جاکر مک مکا کرکے چھوڑ دیں گے۔

آج پوش علاقوں میں رہنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے آس پاس بنی کچی بستیوں میں سے ہی اکثر چور اور ڈاکو وارداتیں کرنے آتے ہیں، جنھیں پولیس کی پوری سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ ان ہی بستیوں میں رہنے والے خاندانوں کی خواتین دن میں گھروں میں ماسی کے طور پر کام کرتی ہیں اور اکثر معلومات اپنے ان نوجوانوں کو دیتی ہیں جو وارداتیں کرتے ہیں۔ ایسے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں، جن میں پہلے ماسی گھر میں کام کرنے آتی ہے۔ اس کے بعد اسے کوئی بلانے آتا ہے۔ جیسے ہی گھر والے دروازہ کھولتے ہیں ڈاکو گھر میں گھس جاتے ہیں۔ تمام سامان لوٹ کر انتہائی آرام سے فرار بھی ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد پولیس کبھی ان کا سراغ نہیں لگا پاتی، کیونکہ اکثر و بیشتر وہ ڈاکو کسی پولیس والے کے بھائی یا کزن ہی ہوتے ہیں۔

کیا کسی نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ کراچی کے شہریوں سے جو پندرہ سے بیس لاکھ روزانہ ناجائز پارکنگ کی مد میں ہتھیا لیے جاتے ہیں، وہ کس کی جیب میں جاتے ہیں؟

کیا کبھی کسی کو کراچی کے شہریوں کی بے بسی نظر آئی ہے؟ کسی کا دل درد سے اس طرح پھٹا ہے جیسے آج ایک چور کےلیے پھٹ رہا ہے۔

اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ ثابت نہیں ہوا کہ وہ چور تھا، تو کیا یہ ثابت ہوگیا کہ وہ چور نہیں تھا؟

سب سے زیادہ جذبات یہ کہہ کر ابھارے جارہے ہیں کہ اس کی شرٹ پر لکھا تھا کہ اپنا بھی وقت آئے گا۔ تو اس بات کا یہی مطلب کیوں لیا جارہا ہے کہ وہ غریبوں کےلیے کہہ رہا تھا کہ اپنا بھی وقت آئے گا۔ اس بات کا یہ مطلب کیوں نہیں لیا جارہا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ جب میں ہاتھ کی صفائی میں زیادہ پختہ ہوجاؤں گا تو زیادہ دلیری اور زیادہ بڑا گروہ بناکر کراچی کے عوام کو لوٹوں گا۔

آج اس نوجوان کے لواحقین جتنی دہائیاں انصاف کےلیے دے رہے ہیں، کیا اتنی ہی سرگرمی سے انہوں نے یہ جاننے کی کوشش بھی کی تھی کہ ان کا بچہ کن سرگرمیوں میں ملوث ہے؟ یا یہ ان کا کاروبار تھا؟

پڑھنے والوں کو یاد ہوگا کہ کچھ عرص پہلے ایک اجتماعی زیادتی کے واقعے کو بہت زیادہ اچھال کر پاکستان کو پوری دنیا میں بدنام کیا گیا تھا۔ ہر فورم پر اس واقعے کو ہائی لائٹ کیا گیا۔ بعد کے حالات اور واقعات نے ثابت کیا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں تھا، لیکن اس واقعے کی متاثرہ خاتون آج اپنے علاقے کی کروڑ پتی زمیندار بنی ہوئی ہے۔ نام لینا ضروری نہیں ہے۔

کیا ایسی ہی کوشش اس نوجوان کے لواحقین بھی تو نہیں کررہے ہیں؟ جن والدین کو اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ ان کی اولاد دنیا میں کیا کرتی پھررہی ہے، اس کی موت کے بعد اچانک انھیں انصاف یاد آجاتا ہے۔

آج جو کچھ ہورہا ہے کیا یہ اس کا ردعمل نہیں ہے جو کچھ کراچی کے شہریوں سے روز ہوتا ہے۔ ایک چور کو ہیرو بنانے کی عادت ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ چند ایک نام نہاد دانشور ہر ایسے مسئلے کو اچھال کر اپنی خداترسی دنیا کو ضرور دکھاتے ہیں۔ اگر کبھی خود ان کے ساتھ کام کرنے والوں سے ان کے متعلق پوچھا جائے تو بہت مختلف تصویر ان حضرات کی نظر آتی ہے۔

میری دعا ہے کہ الله اب ہماری قوم کو ان چوروں کو ہیرو بنانے والے دانشوروں سے نجات عطا فرمائے۔ (آمین)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہاب احمد خان

شہاب احمد خان

بلاگر اسلامک بینکنگ اور فائنانس میں ماسٹرز کی سند رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔