بھارتی میڈیا کی بے بنیاد رپورٹیں

ایڈیٹوریل  اتوار 25 اگست 2019
بھارت بھرپورکوششوں کے باوجود ایشیاء پیسیفک گروپ میں پاکستان کا درجہ کم کرانے میں ناکام رہا۔ فوٹو:فائل

بھارت بھرپورکوششوں کے باوجود ایشیاء پیسیفک گروپ میں پاکستان کا درجہ کم کرانے میں ناکام رہا۔ فوٹو:فائل

کشمیر کی غیر انسانی اور ظالمانہ صورت حال سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش میں بھارتی سفارتی پھرتی اور بے بنیاد پروپیگنڈا پھر سے ناکام ہو گیا۔

میڈیا کے مطابق ایشیاء پیسیفک اجلاس میں پاکستان کے خلاف بھارت کی تمام کوششیں ایک مرتبہ پھرناکامی سے دوچار ہو گئیں، بھارت پاکستان کا درجہ کم نہ کرا سکا، اور اس کی اس افواہ نے بھی دم توڑ دیا کہ ایشیاء پیسفک گروپ نے پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کر دیا ہے حالانکہ بات صرف اتنی تھی کہ اے پی جی نے پاکستان کا نام ایک سال کے لیے اپنی توسیعی مانیٹرنگ لسٹ میں شامل کر لیا ہے جب کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کرنے کا جھوٹا دعوٰی کر دیا، وزارت خزانہ نے بھارتی خبروں کو مستردکر دیا.

ادھر ایف اے ٹی ایف ایشیا پیسفک گروپ کا بھی کہنا ہے کہ اے پی جی کی جانب سے کسی بھی ملک کو بلیک لسٹ میں شامل نہیںکیا جاتا، اب ایف اے ٹی ایف ٹیم کے ساتھ پانچ ستمبرکو مذاکرات ہوںگے۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ایشیاء پیسفک گروپ کا بائیسواں سالانہ اجلاس آسٹریلیا میں منعقد ہوا۔ اجلاس 18 سے 23 اگست تک جاری رہا۔ اجلاس میں 46 جوریسڈکشن سے 520 سینئر اراکین اور 13 بین الاقوامی تنظیموں کے وفود نے شرکت کی۔

اجلاس میں بھارت کی جانب سے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو نیچا دکھانے کی بد نیتی بھارت کی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے، اسے جموں وکشمیر کی صورتحال کے فال آؤٹ نے بوکھلا دیا ہے۔ اس وقت مودی کے سفارتکاروں اور بھارتی میڈیا کے درمیان پوری کوشش دروغ گوئی پر مبنی جھوٹی خبریں چلانے پر ہے، اگرچہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کی جائزہ رپورٹ کی منظوری دی جا چکی ہے اور مخالفین کی قیاس آرائیوں اور اقتصادی مبصرین کے خدشات کے باوجود پاکستان اس آزمائش میں اپنی کمٹمنٹ پر پورا اترا، فیٹف اب اکتوبر میں اپنے اجلاس میں پاکستان کے معاملات کا اجائزہ لے گا مگر بھارتی ’’جعلی سراغرسانوں‘‘ کی بے قراری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، جو اس بات کے کوشاں ہیں کہ کہیں سے کوئی جھوٹی خبر مل جائے تو اسے رائی کا پہاڑ بنا لیا جائے۔

معاشی ذرایع کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف اور اے پی جی ایسے اداروں کے حوالے سے سنجیدہ طرز عمل کا مظاہرہ ہونا چاہیے اور مبالغہ آمیزی اور افواہ سازی سے گریز کرنا چاہیے، ذرایع کے مطابق اجلاس میں شریک بھارتی مندوب نے شرکاء کوگمراہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بھارت کی یہ کوشش پاکستان کی جانب سے مکمل ہوم ورک کرنے اورکارکردگی دکھانے کے باعث ناکام ہو گئی۔ سفارتی ذرایع کاکہنا ہے کہ ایشیاء پیسفک گروپ کسی بھی ملک کو بلیک لسٹ قرارنہیں دیا جا سکتا۔ اس فورم کا مینڈیٹ صرف سفارشات اور اقدامات کا جائزہ لینا ہے۔ بھارتی میڈیا میں آنے والی رپورٹس بے بنیاد ہیں۔

ذرایع کا کہنا ہے کہ حقیقت سے دور یہ رپورٹس بھارت کے پاکستان کے خلاف مذموم پروپیگنڈا مہم کا حصہ ہیں۔ بھارت بھرپورکوششوں کے باوجود ایشیاء پیسیفک گروپ میں پاکستان کا درجہ کم کرانے میں ناکام رہا۔ مزید برآں اجلاس کے دوران پاکستان کی تیسری باہمی جائزہ رپورٹ منظورکر لی گئی تاہم رپورٹ میں ٹیرازم فنانسنگ کی روک تھام کے فریم ورک میں مانیٹرنگ، انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن سے متعلق خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جنھیں دورکرنا ہوگا اور ان خامیوں کے دورکرنے سے متعلق اے پی جی کے جائزہ اجلاس ہوںگے، پاکستان کو ایک سال کے لیے توسیعی مانیٹرنگ لسٹ میں رکھا گیا ہے، اگلے سال کی پہلی سہہ ماہی میں ان خامیوں کو دور کرنے سے متعلق پہلی توسیعی مانیٹرنگ رپورٹ پیش کرنا ہوگی تاہم اگلے ماہ پانچ ستمبرکو فیٹف کی ٹیم کے ساتھ مذاکرات ہوںگے، نومبر میں پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالنے یا بلیک لسٹ میں شامل کرنے بارے کوئی فیصلہ متوقع ہے۔

اے پی جی کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اجلاس کے دوران ممبران نے 6 اہم جائزہ رپورٹس منظورکیں۔ اعلامیے کے مطابق چین، چینی تائپے، ہانگ کانگ، پاکستان، فلپائن اور جزائر سلیمان سے متعلق رپورٹس کا دو روز تک جائزہ لیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ رپورٹس اکتوبر 2019ء کے شروع میں اے پی جی کی ویب سائٹ پرشایع ہوں گی۔ پاکستانی وزارت خزانہ کے مطابق منی لانڈرنگ سے متعلق ایشیا پیسیفک گروپ نے پاکستان کی تیسری رپورٹ منظورکر کے اپنے’میوچیول ایوالیوایشن پروسیجر‘ میں شامل کرلیا ہے۔

یہ رپورٹ فروری سے اکتوبر 2018ء کے دورانیے پرمشتمل تھی اور اس میں منی لانڈرنگ اورٹیرر فنانسگ روکنے کے لیے درکار مزید اقدامات کا ذکر تھا تاہم رپورٹ میں اکتوبر 2018ء کے بعد کے عرصے کا احاطہ نہیں کیا گیا، جس کے دوران پاکستان نے ایف اے ٹی ایف پلان پر عملدرآمد میںکافی پیش رفت کی ہے۔ میڈیا کے ریکارڈ پر ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقرکی قیادت میں اجلاس میں شریک پاکستانی وفد نے سائیڈ لائن ملاقاتیں بھی کیں جن میں ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان پر ممبران کو آگاہ کیا گیا۔ اس کے بعد بھارتی ذرایع کی بے سروپا اطلاعات اور شرانگیزی سوائے عالمی میڈیا کو گمراہ کرنے کا اور کچھ بھی نہیں ۔ تاہم اس بھارتی سرگرمی کے پیچھے ایک گھناؤنی منطق ہے جس کا مقصد پاکستان کے خلاف مخاصمانہ اور معاندانہ پروپیگنڈے کو تسلسل کے ساتھ بھارتی میڈیا میں اچھالنا ہے۔

امریکا کے موقر اخبار نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں چپ کا آتش فشاں پھٹنے کے قریب ہے جہاں منتخب نمایندوں سمیت 2 ہزار سے زاید کشمریوں کو بغیر الزام گرفتار کیا جاچکا ہے، 14 سالہ لڑکے بھی اس میں شامل ہیں اور قیدیوں کو دوسرے صوبوں کی جیلوں اور حراستی مراکز میں رکھا جارہا ہے۔ سخت کرفیو میں بھی مظاہرے پھوٹ رہے ہیں،بھارتی فوج سے ان کی جھڑپیں ہوئی، یہ ابتدا ہے، بھارتی میڈیا مظاہرین کو پاکستانی دہشت گرد یا علیحدگی پسند قراردیتا ہے۔

وزیراعظم کی عالمی مدبرین سے رابطہ کی مہم جاری ہے، فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر زور دیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان سے مذاکرات کریں، میکرون نے عمران خان سے بھی بات کرنے کا یقین دلایا ہے۔ عمران نے جرمن چانسلر انجیلا مرکل کو فون کیا اور انھیں اس خطرہ سے آگا ہ کیا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جعلی فلیگ آپریشن کرسکتا ہے، بھارتی اقدامات سلامتی کونسل کی قراردادوں، بین الاقوامی قانون سے براہ راست متصادم ہیں۔

بیرون ملک پارلیمانی وفود بھیجے جا رہے ہیں، ایرانی پارلیمنٹ میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے قرارداد پیش کی گئی، اس سے پہلے عالمی برادری تک کشمیر کا دکھ اس شدت کے ساتھ کسی حکومت نے نہیں پہنچایا۔ آج دنیا بھر میں جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے یو این کمشنر انسانی حقوق کو خط لکھا ہے جس میںجموں و کشمیر میں بتدریج ابتر ہوتی ہوئی صورت حال کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

اس تناظر میں بنیادی اور ملین ڈالر سوال عمران خان کا مودی سے بات نہ کرنے کا فیصلہ ہے ۔ ایک معاصر انگریزی اخبار نے استدلال پیش کیا ہے کہ بھارت سے مذاکرات کا دروزہ بند کرنے سے کشمیریوں کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں،جب کہ مذاکرات کے مشکل مرحلوں سے گزر کر مدبران سیاست عالم نے کئی مسائل کا حل تلاش کیا ہے، اس طرح بات چیت کا آپشن کھلا رکھنا مسئلے کے منصفانہ حل کی طرف پیش قدمی کی کلید بھی بن سکتا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔