اپنا ٹائم آئے گا!!

شیریں حیدر  اتوار 25 اگست 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

کون بولا مجھ سے نہ ہو پائے گا؟ کون بولا، کون بولا؟

اپنا ٹائم آئے گا!

اٹھ جا اپنی راکھ سے، تو اڑ جا اب تلاش میں

پرواز دیکھ پروانے کی، آسمان بھی سراٹھائے گا

آئے گا، اپنا ٹائم آئے گا!

میرے جیسا شانا لالہ، تجھے نہ مل پائے گا

یہ شبھدوں کا جوالا، میری بیڑیاں پگھلائے گا

ایسا میرا خواب ہے، جو ڈر کو بھی ستائے گا

زندہ میرا خواب، اب کیسے تو دفنائے گا

اب حوصلے سے جینے دے، اب خوف نہیں ہے سینے میں

ہر راستے کو چیریں گے، ہم کامیابی چھینیں گے

سب کچھ ملا پسینے سے، مطلب بنا اب جینے میں، کیوں ؟

کیونکہ اپنا ٹائم آئے گا…

کسی کا ہاتھ نہیں سر پر، یہاں پر آیا خود کی محنت سے میں

جتنی طاقت قسمت میں نہیں، اتنی رحمت میں ہے

پھر بھی لڑکا سہمت نہیں ہے

ضرورت یہاں مرضی کی اور ضرورت کی ہے

طاقت کی ہے، آفت کی ہے، حماقت کی، عبادت کی

عدالت یہاں ہے چاہت کی، محبت کی ، امانت کی

جیتنے کی اب عادت کی، یہ شہرت کی اب لالچ نہیں ہے

اس حرکت نے بھی برکت دی ہے ، کیوں ؟

کیونکہ اپنا ٹائم آئے گا!

چند ماہ قبل ہونے والی، ایک ہندوستانی فلم، ’’گلی بوائے‘‘ کا یہ گانا، ایسے ہی گانوں میں سے ایک ہے جن کا کوئی سر پیر ہوتا ہے نہ مطلب مگر یہ نوجوان نسل میں بہت مقبول ہیں اور انھیں rap کا نام دیا جاتا ہے۔ اس گانے کے ٹائٹل بول… تمہاری اس شرٹ پر لکھے ہوئے تھے، جانے اس طرح کی شرٹ کتنے ہی نوجوان پہنے گھوم رہے ہیں ۔ تم گزشتہ ہفتے سے پہلے تک دل میں امنگیں رکھنے والے ایک سولہ، سترہ سالہ نوجوان تھے، تمہارا نام ریحان تھا اور تم خدا آباد کالونی میں رہنے والے ایک نوجوان تھے۔ جانے کن حالات کا شکار تھے، کیسی صحبت میں پڑ گئے اور کیا اصل حقیقت ہے کہ تم پر اس انتہا کا تشدد کیا گیا؟ کسی بھی شہری کو ، کسی بھی طرح کے حالات میں ، کسی ملزم یا مجرم کے خلاف بھی، سزا دینے کا اختیار ہے نہ قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا ۔

تمہارے والد کا کہنا ہے کہ تم نے عید قربان پر، قصاب کا کام کیا تھا اور اپنے والد کو گھر سے جاتے ہوئے بتایا تھا کہ تم اسی سلسلے میں رقم کی وصولی کے لیے جا رہے تھے جب کہ بعد ازاں بہادر آباد کے علاقے میں، ایک رہائشی کالونی میں تمہیں کسی اور نوجوان کے ساتھ چوری کی واردات کرنے کے شبہ میں دھر لیا گیا۔ تمہارا ساتھی تو فرار ہو گیا، مگر تمہارا ٹائم آ چکا تھا کہ اس کوٹھی کے مالک نے تم پر اور لوگوں کے ساتھ مل کر، تمہارے ہاتھ باندھ کر، دفاع کی ہر ممکنہ صورت کو ناکام بنا کر، تمہیں برہنہ کر دیا اور اتنا تشدد کیا کہ تمہاری روح نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا… میں نے اس rap میں ایک فقرہ حذف کیا ہے… ’’ تو ننگا ہی تو آیا تھا!! ‘‘ دیکھ لو، تمہیں کس حال میں کر دیا دنیا سے بھیجنے والوں نے!! زندگی میں تم نے شہرت کے خواب دیکھے ہوں گے، وہ خواب جنھیں تم نے زندہ بھی سمجھا ہو گا، تمہارے ان خوابوں کو زندہ دفنا دیا گیا اور جو شہرت تم نے سوچی بھی نہ ہو گی، وہ تمہیں مر کر مل گئی۔

اسrap کا ایک ایک لفظ مجھے تمہاری سوچ، چہرے، عمل اور انجام کا عکاس لگا ہے۔ تم نے کیا سوچ کر یہ شرٹ لی ہو گی، کیا سوچ کر اسے اس روز پہنا ہو گا، کیا قدرت نے تمہیں اشارہ دے دیا تھا کہ آج تمہارا وقت آن پہنچا ہے؟ تم بھی دو دن پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ’’ خبر ‘‘ بن گئے تھے ریحان اور اب وقت کی دھول تمہاری خبر پر پڑ جائے گی۔ کوئی اور خبر سوشل میڈیا کا گرما گرم موضوع بن جائے گی اور لوگ تمہیںاور تمہارے ساتھ ہونے والے ظلم کو بھول جائیں گے کیا؟ کیا کوئی سوچے گا کہ تمہارا پس منظر کیا ہے، کن حالات نے تمہیں مجبور کیا کہ تم اس گھر میں چوری کی نیت سے گئے… گئے بھی یا شبے میں پکڑے گئے؟ اس گھر کے مالکوں کو کس نے یہ اختیار دیا کہ وہ تمہیں پکڑ کر پولیس کے حوالے کرنے کی بجائے خود ہی عدالت لگا کر بیٹھ گئے اور تمہیں چوری کے الزام میں سزائے موت سنا دی؟ پھر سوچتی ہوں کہ کوئی بااختیار لوگ ہی ہوں گے، وہ پکڑ کر پولیس کے حوالے کرتے تو پولیس والے بھی تمہارے ساتھ کچھ کم نہ کرتے، ان کے ہاتھ آیا ہوا شکار کہاں سہولت سے نکل پاتا ہے۔ اس کا بھی ’’ ٹائم ‘‘ آیا ہوتا ہے۔

اس گھر کے مکینوں نے تو تمہیں بے رحمی سے مار مار کر موت کی آغوش میں پہنچا دیا، پولیس والے ہوتے تو تمہارے ساتھ تمہارے گھر کے باقی لوگ بھی ’’ مجرم کی پشت پناہی ‘‘ کے الزام میں جانے کتنی راتیں تھانے میں تشدد میں گزارتے ، اس پر بھی شکر کرو!

تمہارے خواب اتنے بلند تھے، تم اتنی اونچی پرواز کرنا چاہتے تھے کہ آسمان بھی تمہیں سر اٹھا کر دیکھتا مگر تمہیں اندازہ ہی نہ تھا کہ اصل میں اس ملک میں طاقت کا منبع کہاں ہے، کون لوگ اصل میں طاقت ور ہیں۔ جسے تم طاقت سمجھتے ہو، جذبوں اور سوچوں کی اور پرواز کی، اس طاقت کو توڑنے کے لیے تو ملک کا عام شہری بھی خود ہی منصف بن کر فیصلہ کرتا ہے اور کہتا ہے، ’’ مجرم ریحان کو، ہاتھ باندھ کر، برہنہ کر کے، اس وقت تک مارو، جب تک کہ اس کے جسم سے آخری سانس بھی نہ نکل جائے!‘‘

دہائی ہے دہائی … میں تو ڈر گئی ہوں ریحان!! تمہیں شاید کوئی ڈر نہیں ہو گا مگر میں ڈر گئی ہوں۔ ا س ملک کی ہر ماں کو ڈرنا چاہیے ۔ کسی کا بھی بچہ، کسی کے بہکاوے میں آ کر ، حالات سے گھبر ا کر، ایسی کوئی غلطی کر دے کہ جس کی ذمے داری اصل میں اس معاشرے پر آتی ہو تو اسے لوگ مل کر جان سے مار دیں گے؟ کیا ہم کسی جنگل میں رہتے ہیں؟ کوئی ہے جو ایسے مجرموں پر ہاتھ ڈالے، کوئی ہے جو جاننے کی کوشش کرے کہ ریحان جیسے بچے کیوں مجرم بنتے ہیں، اس معاشرے کی ناانصافیوں اور عدم اعتدال نے نوجوانوں میں فرسٹریشن پیدا کر دی ہے اور انھیں جرم کا راستہ آسان لگنے لگتا ہے۔

دنیا کے کس معاشرے، کس مذہب، کس قانون اور کس قاعدے سے چوری کی سزا موت مقرر کی گئی ہے؟ کسی کے پاس اس سوال کا جواب ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔