ہوش کی ضرورت

ظہیر اختر بیدری  پير 26 اگست 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

وہ لوگ جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کے خواہش مند ہیں ، نئے حالات کو دیکھ کر سخت مایوسی کا شکار ہیں۔ ماضی بعید میں ملکوں پر قبضے کی جو سائیکی تھی وہ آج کے جدید دور میں ابھر آئی ہے۔ کشمیر ایک 71 سالہ پرانا تنازعہ ہے، تقسیم کے بعد جب کشمیر کا مسئلہ اٹھا تو دونوں ملکوں نے کشمیر کے دو حصوں پر قبضہ کر لیا۔ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کو آزاد کشمیر کا نام دیا گیا اور بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے علاقے کو مقبوضہ کشمیر کا نام دیا گیا۔ جب یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں گیا تو اقوام متحدہ نے صورتحال جوں کی توں رکھنے کی ہدایت کی۔

پچھلے طویل عرصے میں دونوں ملکوں کے درمیان تین جنگیں بھی ہوئیں لیکن دونوں ملکوں کی تحویل میں جو علاقے تھے وہ انھی کی تحویل میں رہے۔ بھارت نے کشمیرکی متنازعہ حیثیت کے پیش نظر مقبوضہ کشمیرکو بھارتی آئین کے تحت ایک خصوصی حیثیت دی، جس کا حوالہ اس کی شق نمبر 35-A اور 370 میں دیا گیا۔ ان کی ان شقوں کے تحت کشمیر میں کوئی جائیداد نہیں خرید سکتا تھا۔ آئین کی دوسری شق 370 کے تحت کوئی غیرکشمیری ،کشمیر میں سرکاری ملازمت نہیں کر سکتا تھا۔ ان شقوں کے تحت کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت حاصل تھی جو حال تک باقی رہی۔

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارتی عوام میں اپنے آپ کو فاتح ثابت کرنے کے لیے ان شقوں کو ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا اور کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا دیا گیا۔ نریندر مودی نے کشمیر کو بھارت میں ضم کسی جمہوری برتری کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ اس کا مقصد کشمیر کی اس خصوصی حیثیت کو ختم کرنا تھا جو آرٹیکل 35-A اور 370 کے تحت کشمیر کو حاصل تھی۔ نریندر مودی نے یہ قدم کسی نیک ارادے کے تحت نہیں اٹھایا تھا نہ جمہوریت کی بھلائی کے لیے اٹھایا تھا۔ اس کا اصل مقصد کشمیر میں کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا تھا۔

بات صرف کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کی ہی نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ بی جے پی حکومت کی مذہبی انتہا پسندی کا ہے، اب جب کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہو گیا ہے تو اس کی مذہبی انتہا پسندی کے بدترین اثرات صرف کشمیر پر نہیں ہوں گے بلکہ کشمیر کے علاوہ پاکستان بھی اس مذہبی انتہا پسندی کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ ابھی تو تین ہفتوں سے کشمیر میں کرفیو کا نفاذ ہے اس لیے کشمیریوں کا رد عمل سامنے نہیں آ رہا ہے اگر بھارت حکومت جلد کرفیو نہ اٹھا لے تو صرف بھارتی کشمیر ہی میں نہیں آزاد کشمیر اور ممکنہ طور پر پاکستان میں کرفیو اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف بہت شدید ردعمل ہو گا۔ پاکستان کی کٹر مذہبی جماعتیں شدید ردعمل کا اظہار کریں گی اور ڈر ہے کہ اس میں بہت خون خرابہ ہو گا۔ ڈر ہے کہ بھارت کا جنونی ایلیمنٹ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار کرے گا جس کے نتیجے میں بھارت میں رہنے والے مسلمان خون خرابے کا شکار ہو جائیں گے اور اس طرح کا ردعمل شدید سے شدید تر ہو جائے گا۔

سول سوسائٹی کے نام پر بے شمار تنظیمیں عوام کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ایسی تنظیمیں جو خلوص نیت سے قومی اور عالمی مسائل پرکام کر رہی ہیں عوام انھیں پسند کرتے ہیں اور وہ تنظیمیں جن کا مقصد کھانا پینا ہے وہ راندۂ عوام ہو جاتی ہیں۔ پاکستان خاص طور پر کراچی میں سول سوسائٹیز کی تنظیمیں بہت فعال ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے بھی بہت ساری تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ ایک ایسی ہی تنظیم نے تجویز پیش کی ہے کہ دونوں ملکوں کو حالیہ کرائسس سے نکلنے کے لیے تجویز دی ہے کہ ابتدائی اقدام کے طور پر دوستی بس اور سمجھوتہ ایکسپریس کو بحال کریں اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بحال کریں۔ سوسائٹی کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ کرتار پور راہداری کے پروجیکٹ پر بغیر رکاوٹ کے کام ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو آئینی طور پر بھارت میں شامل کرنے کا جو اقدام کیا ہے اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بھی تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں سول سوسائٹیز سمیت جو بھی تنظیمیں آگے بڑھ کر تعلقات کی بہتری میں کوئی کردار ادا کریں گے انھیں خوش آمدید کہا جائے گا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے جن لوگوں نے نمایاں کام کیا ان میں بھارتی بحریہ کے سابق چیف ایڈمرل رام داس اور سماجی کارکن نرملا دیش پانڈے خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔

بھارت میں دانشور ہیں، مفکر ہیں، ادیب ہیں، شاعر ہیں یہ طبقات جذباتی نہیں برد بار اور دوررس نگاہیں رکھنے والے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان طبقات کو متحرک کیا جائے۔ 1947ء کے خون خرابے کے دوران اور بعد میں متحدہ ہندوستان کے ادیبوں شاعروں نے بہت کام کیا اب دونوں ملکوں کے درمیان صورتحال جس قدرگمبھیر ہے، اس کا تقاضا ہے کہ ایسے لوگوں کو آگے لایا جائے جو دل سے دونوں ملکوں کے بگڑے بلکہ انتہائی بگڑے ہوئے تعلقات کو قدم بہ قدم بہتری کی طرف لانے کی کوشش کریں۔ اس خصوص میں بھارت اور پاکستان کے ادیبوں شاعروں دانشوروں پر مشتمل ایسی کمیٹیاں بنائی جائیں جو اس آگ کو ٹھنڈا کرنے میں مخلص ہوں۔

دونوں ملکوں کا میڈیا اس حوالے سے بہت مثبت کردار ادا کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے ہندوستانی قیادت کو انتہا پسندی خاص طور پر مذہبی انتہا پسندی سے باہر آنا پڑے گا۔ نریندر مودی نے جس پلان جس منصوبے کے تحت اس قدر عاجلانہ اقدامات کیے ہیں اور بات نو ریٹرن تک لے گئے ہیں اگر وہ برصغیر کے عوام سے مخلص ہیں تو صورتحال کو مزید بدتر بنانے کے بہتری کی طرف لانے کی کوشش کریں اس کے لیے سب سے پہلے مقبوضہ کشمیر کی بد ترین صورتحال کو بہتری کی طرف لانے کے لیے مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھانے کو ترجیح دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔