مظلوم کشمیری، ہمارے رویے اور عالمِ اسلام کا ردِ عمل

تنویر قیصر شاہد  پير 26 اگست 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

یہ آرام دِہ بس رات گیارہ بجے لاہور سے روانہ ہُوئی اور صبح سوا تین بجے اسلام آباد پہنچی۔ موٹر وے پرسوا چار گھنٹے کے اس سفر میں مسلسل بھارتی فلمیں چلتی اور انڈین گانے بجتے رہے۔مجھے بڑی تکلیف ہو رہی تھی۔

بس کی میزبان خاتون سے مَیں نے پوچھا: کیا یہ فلمیں اور گانے چلانا ضروری ہیں؟کہنے لگی: سر، آپ نے نہیں دیکھنی تو نہ دیکھیں، باقی مسافر تو خاموشی سے اور خوشی سے دیکھ رہے ہیں، دیکھیں کوئی بھی ناراض ہوکر نہیں بول رہا۔ کورا سا جواب سُن کر مَیں بس ڈرائیور کے پاس پہنچا اور اُسے گزارش کی : بھائی، بھارت ہمارے کشمیری بھائیوں پر ظلم کر رہا ہے اور یار آپ لوگ بھارتی فلمیں چلا رہے ہیں، فلم اور گانے ہی چلانے ہیں تو پاکستانی چلا لیں۔ سُن کر بولا:سر جی، پاکستانی فلمیں کون دیکھتا ہے؟ہم مسافروں کی فرمائش پر ہی انڈین فلمیں چلاتے ہیں، اگر سب مسافر کہیں تو ابھی بند کر دیتا ہُوں۔ اب مسافروں سے کون ووٹنگ کرواتا؟ چپ کر کے اپنی سِیٹ پر آکر بیٹھ گیا۔ مظلوم کشمیریوں پر بھارت قیامتیں ڈھا رہا ہے اور ہمارے ایک کرکٹر نے بھارتی لڑکی سے شادی رچا لی ہے۔

جائز طور پر سوال پوچھا جارہا ہے: قومی کرکٹ ٹیم کے اس کھلاڑی کو کیا پاکستان کی 22کروڑ آبادی سے ایک لڑکی بھی نہ مل سکی ؟ بھارت اس وقت بھارتی مسلمانوں اور بے بس کشمیریوں پر ستم کے جو پہاڑ توڑ رہا ہے، ایسے میں کسی بھارتی لڑکی سے ہمارے کرکٹر کی شادی نے کشمیریوں کو کیا پیغام دیا ہے؟ اس خونی موسم میں کیا کوئی بھارتی کرکٹر کسی پاکستانی لڑکی سے شادی کرنے کا رسک لے سکتا تھا؟ ایسا ہوتا تو بھارتی اُس کا جینا حرام کر دیتے۔ حیرانی کی بات ہے کہ ملک بھر میں کشمیریوں کی محبت میں ایک طرف تو بھارت کے خلاف بیانات کے شعلے بھڑکائے جارہے ہیں اور دوسری طرف اِنہی دنوں ایک بھارتی گلوکار( میکا سنگھ) کو پاکستان میں مدعو کیا گیا۔ اُس نے کراچی میں پرفارم بھی کیا، بھارتی گانے بھی گائے اور لاکھوں روپیہ فیس بھی وصول کر کے لے گیا لیکن ہمارے کانوں تک جُوں تک نہ رینگی۔

شنید ہے کہ واہگہ بارڈر پرمیکا سنگھ کا سرکاری سطح پر سواگت کیا گیا اور لاہور کے ایک سرکاری بڑے گھر میں اُسے کھانا بھی دیا گیا۔ سرکاری سطح پر تو ہمیں یہ بتایا جارہا ہے کہ بھارت سے تمام ثقافتی تعلقات منقطع کیے جا چکے ہیں لیکن اس سرکاری اعلان کے باوجود میکا سنگھ ’’صاحب‘‘ کیسے پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں آزادانہ گاتے پھرے؟ ہمارے ہاں تو اس بھارتی گلوکار کے خلاف کوئی خاص ردِ عمل نہیں آیا کہ ہم ٹھہرے فراخ الذہن اور وسیع القلب، لیکن بھارتیوں نے میکا سنگھ کو پاکستان جانے پر معاف نہیں کیا ہے۔ میکا سنگھ نے لندن جا کر بھارتیوں سے معافی بھی مانگی ہے لیکن اُسے معاف نہیں کیا جا رہا۔

کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی کوئی حد نہیں رہی ہے لیکن یہ مظالم بھی ہمارے ہاں کے کئی ’’دانشوروں‘‘ کے دلوں سے بھارتی محبت ختم نہیں کر سکے ہیں۔ چند دن پہلے سابق بھارتی وزیر اور پاکستان مخالف کٹر بی جے پی رکن، سشما سوراج، آنجہانی ہو گئیں تو ہمارے کئی خواتین و حضرات نے اس پر رنج اور سیاپے کا اظہار کیا ہے۔ بھارت سے اتھاہ محبت کرنے والی ہماری ایک دانشور خاتون نے ٹویٹ کیا: ’’سشما آپا کے گزرنے کا بے حد غم ہے۔

میری بیٹی پیدا ہُوئی تو انھوں نے سب سے پہلے اسے گود میں اُٹھایا تھا۔‘‘ ہمارے وزیر اعظم ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہہ رہے ہیں کہ ’’بھارت سے اب ڈائیلاگ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘ یعنی بھارتی ڈھٹائی کیا پہلی بار کھل کر سامنے آئی ہے؟ ہمیں بتایا تو یہ گیا ہے کہ پاکستان نے بھارت کے مسافر طیاروں پر بھی اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ اِنہی مبینہ فضائی پابندیوں کے باوصف 22 اگست2019 کو بھارتی ظالم حکمران و کشمیریوں کا قاتل وزیر اعظم، نریندر مودی، پاکستانی فضاؤں سے گزر کر فرانس جا پہنچا ۔ ظاہر ہے ہمارے حکمرانوں نے اجازت دی ہوگی تو وہ گزرا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ہمارے اس تضاد کی وجہ کیا ہے؟ اگر اجازت نہ دی جاتی تو مودی کے طیارے کو بہت لمبا اور مہنگا چکر کاٹ کر فرانس پہنچنا پڑتا۔ ہم مگر اس کے لیے سہولت کار بن گئے۔

عالمِ اسلام اور عالمِ عرب بھی ہمارے ان رویوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ وہ عالمِ عرب جہاں مودی جی نے فرانس سے فارغ ہو کر تین دن کے لیے قدم رنجہ فرمایا ہے بھارت کے پنجہ استبداد میں بلکتے کشمیریوں کے دلوں پر یہ مناظر چھریاں نہیں چلا رہے ہوں گے؟ رواں ہفتے ہی مودی  فرانس سے واپسی پر خلیجی مسلمان عرب ملک متحدہ عرب امارات پہنچے جہاں انھیں سب سے بڑے سویلین ایوارڈ، زاید ایوارڈ، سے نوازا گیا ہے۔ عرب امارات ہی میں مودی نے عالم عرب کے سب سے بڑے ہندو مندر ( شری ناتھ جی) کا اپنے ہاتھ سے افتتاح کیا ہے، یوں کہ اُن کے ساتھ مسلمان بادشاہ سلامت بھی کھڑے تھے۔

عرب اور مسلم ملک نے یہ ایوارڈ ایسے ایام میں نریندر مودی کو عطا فرمایا ہے جب مقبوضہ کشمیر میں مجبورِ محض مسلمانوں پر بھارتی فوج نے عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے، اُن سے جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جا رہا ہے۔ مودی کو ایوارڈ دیے جانے پر ہم تو بوجوہ خاموش رہے ہیں لیکن برطانوی پارلیمنٹ کی غیرت مند مسلمان رکن، محترمہ ناز شاہ، خاموش نہیں رہ سکی ہیں۔ انھوں نے حج سے واپس بریڈ فورڈ پہنچتے ہی پہلا خط متحدہ عرب امارات کے ولی عہدشیخ محمد بن زاید، جو اماراتی فورسز کے ڈپٹی کمانڈر بھی ہیں، کو لکھا۔ 20اگست کو لکھے گئے۔

اس خط میں ناز شاہ نے یو اے ای کے حکمران کو مخاطب کرتے  ہُوئے کہا ہے کہ جنابِ والا، نریندر مودی ایسے ظالم شخص کو ’’آرڈر آف زاید‘‘ ایوارڈ عطا کرنا ظلم ہے، مودی ایسا شخص ہے جس نے کشمیریوں کی آزادیاں غصب کر لی ہیں، جس نے کشمیریوں کی مرضی کے بغیر کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر ڈالی ہے۔ محترمہ ناز شاہ کے خط کا اثر تو کوئی نہیں ہُوا ہے لیکن ان کی دلیری پر برطانوی مسلمان خاتون سیاستدان کو شاباش دینی چاہیے جنھوں نے کشمیریوں سے یکجہتی کا عملی حق ادا کر دیا ہے۔

ہم تو باتیں ہی کرتے رہ گئے۔متحدہ عرب امارات میں مودی کے دَورے کے دوران میزبان عرب ملک نے بھارت اور مودی کی خوشنودی کے لیے ایک ایسا یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا ہے جس پر مہاتما گاندھی کی تصویر کندہ ہے۔یہاں یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ متحدہ عرب امارات وہ پہلا مسلمان عرب ملک ہے جس کے شاید کسی سفیر نے بھارت کی طرف سے دو آئینی شقوں ( 370 اور35اے) کے خاتمے پر کہا تھا: ’’یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔ اُمید ہے اس اقدام سے بھارت ترقی کرے گا۔‘‘ یو اے ای کے کامیاب دَورے کے بعد مودی جی ایک اور عرب مسلمان ملک، بحرین، پہنچے جہاں اُن کا شاندار سواگت کیا گیا۔

اس دوران میزبان ملک، بحرین، نے کشمیریوں کے بارے میں ایک بھی لفظ ادا نہیں کیا ہے۔اِسی دوران قطر ایسے عرب مسلمان ملک نے چینی مسلمانوں ( یغور) کی تو حمایت کی ہے لیکن مظلوم کشمیریوں کی ہمدردی میں ایک لفظ ادا نہیں کیا۔ اور اِنہی ایام میں ایک اور دولتمند عرب مسلمان ملک نے بھارت میں تیل کے شعبے میں75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ کشمیریوں پر بھارتی ظلم کی موجودگی میں یہ ہے عالمِ عرب کا ردِ عمل۔ ہمارے وفاقی وزیر، فواد چوہدری، نے اِسی پس منظر میں شاید درست ٹویٹ کی ہے : اُمت کی بات چھوڑیں، ہمیں اپنے ملک کی فکر کرنی کرنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔