کرپشن اور سیاست دان؟

جمیل مرغز  پير 26 اگست 2019

سرمایہ داری کے دادا ایڈم اسمتھ نے اپنی کتاب “Wealth of Nation” میں سرمایہ داری کا فلسفہ اور اس کے فوائد بیان کیے ہیں‘ان کا فلسفہ ’’فری مارکیٹ‘‘ کا ہے۔ e laissez fairکا نظریہ ہی سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہے‘ اس فلسفے کے مطابق ایڈم اسمتھ کہتا ہے کہ ’’(Let do and let pass,the world goes on by itself)۔کاروبار‘مارکیٹ کے اصولوں اور سرمایہ کے حصول میں کسی قسم کی پابندی نہیں ہونی چائیے‘ دنیا خود اپنے لیے اصول وضع کرتی ہے‘‘۔

حکومت کو کاروبار وغیرہ میں کسی قسم کی مداخلت سے منع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ منافع خوری‘دولت کمانا‘ کاروباری ہیر پھیر‘ آزاد مارکیٹ کے اصول ہیں اور ان میں کوئی مداخلت نہیں ہونی چائیے۔ اپنی کتاب Wealth of Nationsمیں انھوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے اصول وضع کیے ہیں۔ کرپشن یا دیگر ذرایع مثلا جوا‘بھتہ خوری ‘اسمگلنگ اور سود وغیرہ سے پیسے کمانا اور ان کو کاروبار میں لگانا بھی سرمایہ داری کا لازمی جزو ہے ‘سرمایہ داری نظام کا مقصد ہر ذریعے سے پیسہ کمانا ہوتا ہے‘اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ کرپشن‘سرمایہ داری کے اصولوں کے مطابق ہے۔

کرپشن پر ایک سیمینار میں جب میرا نمبر آیا تو تمام وہ افسران پہلی صف میں براجمان تھے جن کے متعلق عام خیال یہی تھا کہ ان کا ریکارڈ صحیح نہیں ہے‘ یہ افسران جمعے کی نماز میں بھی اگلی صف میں بیٹھتے ہیں‘ بہرحال میں نے بات یہاں سے شروع کی کہ تمام لوگ جو کسی بھی قسم کے کرپشن میں ملوث ہیں وہ سب کرپشن کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ بقول شاعر۔

؎ تما م رات جو خند ق میں ر یت بھر تا ر ہا

ا سی کو شہر کی خا طر اداس بھی دیکھا

اس لیے کرپشن سے زیادہ مظلوم اس ملک میں کوئی اور نہیں ہے‘اس لیے میں آج کرپشن کے حق میں بات کروں گا۔کرپشن کے بے شمار فائدے ہوتے ہیں‘ خاص کر سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی ناجائز منافع خوری اور کرپشن پر ہوتی ہے۔میں ایک مثال سے بات واضح کرنے کی کو شش کروں گا‘ایک ایس ڈی او اگر اپنی تنخواہ پر گزارہ کرے تو بچوں کی تعلیم‘اسپتال کا خرچہ اور گھر کا خرچ نہیں چلا سکتا۔ اسی صاحب کے دو بنگلے حیات آباد میں زیر تعمیر ہیں‘ ان بنگلوں کی وجہ سے کم از کم پچاس مزدور اور کاریگر برسر روزگار ہیں‘ ہزاروں بوری سیمنٹ خریدی جا رہی ہے۔

سریا اور دوسرا سامان لاکھوں کا فروخت ہو رہا ہے‘رنگ روغن والوں کاکاروبار بھی چل پڑا ہے‘پک اپ اور ٹرک بھی سامان لانے لے جانے میں جتے ہوئے ہیں‘اس طرح ہی معیشت کا پہیہ چلتا ہے اگر یہ سب نہ ہوتو ملک تباہ ہوجائے گا۔اس کا دوسرا رخ دیکھیے‘ایک ٹھیکیدار بتا رہا تھا کہ جب ٹھیکہ ملتا ہے تو جس نے سفارش کی ہوتی ہے تو وہ ایڈوانس میں اپنا حصہ 12 فی صد لے لیتا ہے جس کو عرف عام میں Acceptence کہتے ہیں‘اس کے بعد محکمے کے افسران اور اہلکاروں کا نمبر آتا ہے۔

وہ اپنا حصہ بقدر 15فی صد لے لیتے ہیں‘پھر انکم ٹیکس کا 12فی صد کٹ جاتا ہے ‘ٹھیکیدارکا منافع 8 فی صد ہوتا ہے‘اس کے بعد جو تھوڑی بہت رقم بچ جاتی ہے اس سے کام چلایا جاتا ہے یعنی اگر ایک لاکھ کا ٹھیکہ توکام کے لیے ایک لاکھ سے 47 ہزار منہا کر کے 53 ہزار بچ جاتے ہیں‘اس طرح ایک لاکھ کے کام کے لیے صرف 50 ہزار بچتے ہیں‘ قومی نقصان تو ہوتا ہے لیکن کتنے گھرانے اس ٹھیکے سے فیض یاب ہوئے اس کا حساب بھی کرنا چائیے۔

امریکا میں الیکشن مہم کے لیے لاکھوں ڈالر کی رقم چندے کے نام پر لینا کیا کرپشن نہیں ہے۔ایک امریکی ناول ہے جس میں امریکا کے نظام حکومت کے راز ظاہر کیے گئے ہیں‘کتاب کا نام ہے -“Washington behind closed doors”اس کے مصنف کا نام معلوم نہیں‘اس کتاب پر ایک ٹی وی سیریز بھی بن چکی ہے۔ صدر  صاحب اپنے دفتر میں تشریف فرما ہیں‘  صدارتی انتخابات کا موسم ہے۔ایک پارٹی کو وقت دیا ہے‘تین افراد آتے ہیں اور بات چیت کے بعد فیصلہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ صدر کو انتخابات کے لیے 5 کروڑ ڈالر دیں گے اور جواب میں صدر صاحب کامیابی کی صورت میں ان کو پورے امریکی ہوائی اڈوں پر پڑے ہوئے ایئر فورس کے کباڑ کو ان کی کمپنی کو فروخت کریں گے۔ اس ڈیل پر باقاعدہ معاہدہ لکھا جا تا ہے۔

کرپشن پر سارے ملک کا کاروبار چل رہا ہے‘ پاکستان میں ایک عجیب رسم شروع کی گئی ہے کہ جو سیاستدان تابعداری نہیں کرتا وہ کرپشن کا ملزم گردانا جاتا ہے۔ کیا یہ ایک مطلق سچائی (Absolute truth) ہے کہ صرف سیاستدان ہی کرپشن کرتے ہیں‘آخر ایک مخصوص وقت کے بعد صرف سیاستدانوں کی کرپشن کے قصے ہی کیوں مشہور ہوتے ہیں بلکہ آ ج تو حکومت کے ہر مخالف کے خلاف کرپشن کی تلوار استعمال کی جا رہی ہے۔ جنرل مشرف کے دور اقتدار میں کیا کیا عیاشیاں اور کرپشن نہیں ہوئی‘کسی بھی قسم کا سکینڈل اس دور کا نہیں بنا۔جب بھی جمہوری حکومت آتی ہے ایک خاص عرصے کے بعد ایسی کہانیاں شروع ہوجاتی ہیںلوگ سمجھ جاتے ہیں کہ ہوا کا رخ تبدیل ہونے والا ہے۔

کیا پاکستان کے دیگر طبقے کرپشن میں ملوث نہیں ہے۔کیا پٹواری سے لے کر SMBR تک پورا محکمہ مال کرپشن میں ملوث نہیں ہے؟کیا ایک سب انجینئر سے لے کر چیف انجینئر تک سب مال کمانے میں نہیں لگے ہوئے؟ کیا بغیر ٹینڈر کے بڑے بڑے منصوبوں کے ٹھیکے لیناکرپشن نہیں ہے؟ کیا ڈاکٹر حضرات‘ کمپنیوں اور لیبارٹریوں کی پارٹنرشپ جائز ہے؟ کیا کچھ صحافی حضرات کا دامن سو فیصد پاک ہے؟

کیا سول اور دوسری نوکر شاہی سرکاری خزانے کو دونوں ہاتھوں سے نہیں لوٹ رہے‘آخر کون سا  وہ طبقہ ہے جو پاکستان کی جڑوں کو نہیں کاٹ رہا۔ جب حکومت کے اکابرین‘وزراء اور اعلیٰ افسر رشوت کو قانون بنادیں تو پھر نچلے طبقے کے ملازمین سے رشوت نہ لینے کی توقع کی جا سکتی ہے‘اگر ایمانداری سے سروے کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ اسلام آباد میں کتنے پلاٹ اور بنگلے سیاستدانوں کے ہیں اور کتنے نوکر شاہی کے دیگر لوگوں کے۔NRO میںبھی سیاستدان کم اور سرکاری اہلکار زیادہ تھے۔

سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب سول یا جمہوری حکومت آتی ہے تو اس کے ساتھ ہی کرپشن کے قصے عام ہونے لگتے ہیں‘اس کی بڑی وجہ تو میرٹ کا نہ ہونا ہے‘ہر سیاسی ورکر‘ایم پی اے اور ایم این اے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بھرتی کریں‘اس طریقہ کار سے کرپشن کی ابتداء ہوتی ہے‘وزیروں کے چہیتے اکثر ضرورت مندوں سے بڑی رقوم لے کر ان کو ملازمت دلواتے ہیں‘ ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے بیچے جاتے ہیں‘ سرکاری ملازمین اور ارکان اسمبلی سب مل کر ترقیاتی اسکیموں کے لیے الاٹ شدہ رقوم کا بڑا حصہ کمیشن کی شکل میں کھا جاتے ہیں۔

نتیجہ جو سڑک ‘ اسکول یا عمارت بنتی ہے ناپائیدار ہوتی ہے۔ یہ لالچی اور رشوت کے اصولوں سے نابلد لوگ ایسے بھونڈے طریقے سے کرپشن کرتے ہیں کہ اس کی خبریں فوراً پھیل جاتی ہیں‘مزے کی بات یہ ہے کہ غیر جمہوری حکومت میں اچانک رشوت کے ریٹ بڑھ جاتے ہیں‘ہر طرف افراتفری اور آئین و قانون کی دھجیاں اڑادی جاتی ہیں۔پچھلے 72سال سے یہ چکر چل رہا ہے‘خدا عمران کو خیریت سے اپنی مدت پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔کولہو کے بیل کا خیال ہوتا ہے کہ وہ صبح سے شام تک چلتا رہا ہے تو اس نے ہزاروں میل کا فاصلہ طے کیا ہوگا‘حالانکہ وہ صبح سے شام تک ایک محدود دائرے کے اندر ہی چلتا رہتا ہے۔

یہ حال پاکستان کا ہے جمہوری اور غیرجمہوری حکومتوں کے درمیان اس چکرکی وجہ سے ملک آگے بڑھنے کے بجائے ایک محدود دائرے میں چکر کھا رہا ہے۔کرپشن کے خاتمے کے نام پر مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے یا سسٹم کو پٹڑی سے اتارنے کے بجائے ایک ایسا فول پروف نظام وضع کیا جائے جس میں کرپٹ افراد کے بچنے کی گنجائش نہ ہو‘اس کے لیے پارلیمنٹ‘عدلیہ اور فوج تینوں ادارے بیٹھ کر قانون بنا سکتے ہیں۔کسی ایک فرد کے جانے یا آنے سے کرپشن کا عفریت ختم نہیں ہو سکتا‘چارٹر آف ڈیموکریسی پر عمل در آمد سے شاید یہ مسئلے حل ہو سکتے تھے‘ اگر عوام واقعی کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں تو پھر سرمایہ داری کو ختم کرکے ایک عوامی انقلاب برپا کرنا ہوگا‘سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی کرپشن پر کھڑی ہے‘ البتہ بہتر قوانین سے اس کو محدود کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔