سوشل میڈیا کا منفی رجحان

ندا ڈھلوں  منگل 27 اگست 2019
سوشل میڈیا کا منفی رحجان ہمارے معاشرے میں بڑھتا جارہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

سوشل میڈیا کا منفی رحجان ہمارے معاشرے میں بڑھتا جارہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

سوشل میڈیا کا استعمال آج کل وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ اتنا وقت تو ہم اپنے ساتھ یا گھر والوں کے ساتھ نہیں گزارتے جتنا ہم سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں۔ سوشل میڈیا ایک اچھی چیز ہے، جس کے ذریعے انسان دوسروں کے ساتھ متوازن تعلقات استوار کرسکتا ہے، مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہم نے اس کا غلط استعمال کرکے اس کو ایک ایسی چیز بنادیا ہے کہ جس سے ہمارے معاشرے میں منفی سوچ اور منفی رحجان جنم لے چکا ہے۔

سوشل میڈیا پر کسی کو گالی دینا یا پھر کسی کی کردارکشی کرنا بہت ہی عام سی بات ہے، کیونکہ صرف چند الفاظ ہی تو لکھنے ہوتے ہیں اور اوکے کا بٹن دبانا ہوتا ہے، جبکہ ٹچ موبائل نے تو اس عمل کو مزید آسان بنادیا ہے۔ سوشل میڈیا کے استعمال کرنے والوں پر سوشل ذمے داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ معاشرے میں اپنے عمل اور الفاظ سے بہتری لے کر آئیں۔ مگر ہم تو اس حوالے سے کسی اور ہی راہ پر چل نکلے ہیں۔

سوشل میڈیا پر میمز بنائی جاتی ہیں، جس میں معروف لوگوں کا دل کھول کر مذاق اڑایا جاتا ہے اور اس حوالے سے کبھی کسی کی نجی زندگی کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی کسی کی پروفشنل زندگی کو۔ اس سارے عمل میں کسی سے بھی اجازت لیے بغیر ان کی شکلوں کو بگاڑا جاتا ہے اور ان میمز کو لوگوں کو ہنسانے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اب تو کوئی بھی کسی بھی طرح کی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیتا ہے، جس کا مقصد صرف اور صرف چند لمحوں کی تفریح ہوتا ہے۔ مگر یہ چند لمحوں کی تفریح کسی کےلیے عمر بھر کا روگ بن سکتی ہے۔

سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈز ایسے بنائے جاتے ہیں کہ جسے پڑھ کر انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ پاکستان کی ویسے تو عموماً سب ہی سیاسی جماعتوں نے اپنے سوشل میڈیا ونگز بنائے ہوئے ہیں مگر بڑی سیاسی پارٹیوں کے سوشل میڈیا ونگز اپنے قائدین کو خوش کرنے کےلیے کسی بھی حد سے گزر جاتے ہیں۔ سیاسی تنقید ضرور ہونی چاہیے مگر اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ مگر یہاں تو سیاسی تنقید کم اور نجی زندگی پر کیچڑ زیادہ اچھالا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر سب سے خطرناک رحجان یہ بھی ہے کہ فوٹوشاپ کے ذریعے تصاویر کو ہی بدل دیا جاتا ہے، پھر ان تصاویر کو سوشل میڈیا پر لگایا جاتا ہے اور لوگ بغیر تحقیق کیے ایسے ایسے کمنٹس کرتے ہیں کہ جنہیں پڑھنا ہی بہت جرأت کا کام ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بناکر آپ نے کسی کی بھی کردارکشی کا لائسنس لے لیا ہے۔ پچھلے دنوں ایک پاکستانی کرکٹر کی شادی کی خبر پھیلی اور ساتھ میں جس لڑکی کی تصاویر کو جاری کیا گیا وہ لڑکی وہ تھی ہی نہیں جس سے کرکٹر کی شادی ہونی تھی، بلکہ وہ لڑکی تو پہلے سے شادی شدہ اور ایک بچے کی ماں نکلی اور خود کرکٹر نے بھی بعد میں پریس کانفرنس کرکے بتایا کہ جس لڑکی سے ان کی شادی ہونے جارہی ہے ان کی تصویر شادی کے بعد جاری کی جائیں گی۔ کہنے کی بات صرف اتنی سی ہے کہ بغیر تصدیق اور تحقیق کے ہی خبریں چلا دی جاتی ہیں، بغیر اجازت تصاویر لگادی جاتی ہیں اور یہاں تک کہ مشہور فنکاروں کی جھوٹی موت کی خبریں دے دی جاتی ہیں اور جب یہ خبریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہیں تو ان کے گھر والےخود آکر تصدیق کرتے ہیں کہ یہ خبر جھوٹی ہے۔ تفریح کےلیے تو یہ باتیں پھر بھی قابل برداشت ہیں مگر صورت حال تب گھمبیر ہوجاتی ہے جب کوئی غلط خبر یا ویڈیو کسی حساس معاملے سے متعلق پھیلائی جائے۔

اسی طرح گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وزیراعظم عمران خان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی۔ جس ویڈیو کو یہ کہہ کر شیئر کیا گیا کہ ’’جموں و کشمیر کے معاملے پر کسی بھی ملک کی حمایت حاصل نہ ہونے کے باعث عمران خان غصے میں ہیں اور اسی غصے میں خان صاحب نے میڈیا والوں سے بدتمیزی کی، اس ویڈیو میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی بھی عمران خان کے ساتھ تھے اور اس ویڈیو کو 20 لاکھ مرتبہ دیکھا گیا۔ بعد میں اس ویڈیو کے حوالے سے بی بی سی اردو نے لکھا کہ ’’ریورس امیج سرچ‘‘ کے مطابق یہ ویڈیو اب کی نہیں ہے بلکہ یہ ویڈیو 2015 کی تھی، جب عمران خان وزیراعظم نہیں تھے اور وہ اس وقت کے ایک جلسہ عام میں میڈیا سے گفتگو کے دوران اپنے حامیوں پر برس پڑے تھے۔

اب آپ خود سوچیں کہ بھارت کی کشمیر میں درندگی کے خلاف پاکستان کتنا اہم کیس لڑ رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے بولے جانے والا ایک ایک لفظ دنیا کےلیے بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس حساس مسئلے پر بھی سوشل میڈیا صارفین نے ذمے داری کا ثبوت نہیں دیا۔ سوشل میڈیا کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں جھوٹی خبریں لگائی جاتی ہیں اور بعد میں ان خبروں کی تردید بھی نہیں کی جاتی۔

سوشل میڈیا کا یہ منفی رحجان ہمارے معاشرے میں بڑھتا جارہا ہے اور یہ خطرناک صورت حال تب اختیار کرلیتا ہے جب اس سے تنگ آکر لوگ اپنی جان تک دے دیتے ہیں۔ آن لائن ٹرولنگ سے ہمارے معاشرے میں ڈپریشن بڑھ رہا ہے۔ لوگ اپنی زند گیوں کا دوسروں کی زندگیوں سے موازنہ کرنا شروع کردیتے ہیں، خود کو ناکام اور دوسروں کو کامیاب سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور اسی ریس میں انسان کا اصل سکون کہیں کھو رہا ہے۔

آخر میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ سوشل میڈیا کو سوشل میڈیا ہی رہنے دیں، اس کو شوشا میڈیا نہ بنائیں۔ اس کا استعمال ضرور کریں مگر سوشل ذمے داری کے ساتھ۔ اگر کوئی بھی خبر آپ تک پہنچتی ہے تو پہلے اس کی تصدیق کریں اور پھر اس کو دنیا کے سامنے لے کر آئیں۔ کوشش کیجئے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے آپ ہمارے معاشرے میں بہتری لے کر آئیں اور منفی رحجانات کو ختم کرسکیں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں مثبت سوچ اور مثبت سوشل میڈیا کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ندا ڈھلوں

ندا ڈھلوں

بلاگر جامعہ پنجاب سے فارغ التحصیل ہیں، مختلف ٹی وی چینلوں سے وابستہ رہ چکی ہیں۔ سیر و سیاحت اور کتب بینی ان کے مشاغل ہیں۔ ان سے ٹوئٹر آئی ڈی @DhillonNida پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔