ایران کی جی سیون سربراہ کانفرنس میں غیر متوقع شرکت

ایڈیٹوریل  بدھ 28 اگست 2019
جی سیون اجلاس میں جاکر ایران نے اچھا کارڈ کھیلا ہے جس کے نتائج بھی اچھے ہوسکتے ہیں۔ فوٹو : فائل

جی سیون اجلاس میں جاکر ایران نے اچھا کارڈ کھیلا ہے جس کے نتائج بھی اچھے ہوسکتے ہیں۔ فوٹو : فائل

ایران کے ساتھ امریکا نے گزشتہ برس ایٹمی سمجھوتہ کیا تھا جس میں دنیا کی بعض دیگر طاقتیں جیسا کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی بھی شامل تھیں مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر اس جوہری سمجھوتے سے اپنا پہلو چھڑا لیا جس کا ایران کو نہ صرف سخت رنج ہوا بلکہ ایران کے لیے امریکا کا یہ فیصلہ نہایت تعجب خیز بھی تھا۔

یہ تلخی مزید بڑھ کر اس واقعہ تک پہنچ گئی جب ایران نے ایک امریکی ڈرون طیارے کو گرا لیا کیونکہ ایران کے بقول اس امریکی ڈرون نے ایرانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی جب کہ امریکا کا دعویٰ تھا کہ امریکی ڈرون نے ایرانی فضائی حدود کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ وہ بین الاقوامی فضائی حدود میں پرواز کر رہا تھا۔

ڈرون گرنے کا واقعہ جون کے مہینے میں پیش آیا جس کے بعد برطانیہ نے جبرالٹر (اصل نام جبل الطارق) سے ایرانی آئل ٹینکر کو قبضے میں لے لیا جواب میں تہران نے بھی آبنائے ہرمز میں ایک برطانوی تیل کے ٹینکر پر قبضہ کر لیا اور جواز یہ پیش کیا کہ مذکورہ آئل ٹینکر ایرانی آبی حدود کی خلاف ورزی کر رہا تھا تاہم مبصرین جانتے ہیں کہ اس معاملے میں ادلے کا بدلہ لیا جا رہا ہے لیکن جب امریکا کی طرف سے بھی اس معاملے پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا گیا تو کشیدگی میں کمی ہو گئی۔ کشیدگی میں کمی کی بڑی وجہ فرانس میں منعقد ہونے والی جی سیون سربراہ کانفرنس تھی۔

جس میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف غیر متوقع طور پر شریک ہو گئے۔ جواد ظریف کی جی سیون سربراہ کانفرنس میں شرکت فرانس کے لیے بھی غیر متوقع تھی تاہم ایران کے اس اقدام نے مذاکرات کے لیے سانس لینے کی جگہ یقینی طور پر پیدا کر دی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یورپی ممالک کا ایران کے بارے میں رویہ امریکا کی نسبت کہیں زیادہ محتاط ہے جب کہ امریکا کے انداز سے لگتا ہے جسے وہ بلاسوچے سمجھے اقدامات کر رہا ہے جس کا نتیجہ کھلی جنگ کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔

غالباً یورپی ممالک سمجھ رہے ہیں کہ اگر ایران کے بارے میں اس طرح سے غیرمحتاط اقدامات کیے جاتے رہے تو ان کا نتیجہ خطرناک بھی ہو سکتا ہے اور کشیدگی میں اضافے کی وجہ سے خطے میں جنگ کے بادل بھی چھا سکتے ہیں۔

جنگ کے عالمی اقتصادیات پر مضر اثرات مرتب ہونگے، ان کا فی الوقت درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس کے نتیجے میں صرف عالمی معیشت ہی تباہ برباد نہیں ہو گی بلکہ عالمی امن و امان بھی خواب و خیال بن جائے گا۔

امریکا کی طرف سے ایران کے بارے میں جو بیانات جاری کیے جا رہے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ مبہم اور غیر واضح ہیں بلکہ ان کا غلط مطلب بھی لیا جا سکتا ہے حالانکہ صورتحال کی نزاکت اس امر کی متقاضی ہے کہ ہر قدم خوب سوچ بچار کے ساتھ اٹھایا جائے تا کہ حالات خراب سے خراب تر نہ ہوں۔ بہرحال جی سیون اجلاس میں جاکر ایران نے اچھا کارڈ کھیلا ہے جس کے نتائج بھی اچھے ہوسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔