- عمران خان کی سعودی عرب سے متعلق بیان پر شیر افضل مروت کی سرزنش
- چین: ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھنے والا 88 سالہ شہری
- یوٹیوب اپ ڈیٹ سے صارفین مسائل کا شکار
- بدلتا موسم مزدوروں میں ذہنی صحت کے مسائل کا سبب قرار
- چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے پروٹوکول واپس کردیا، صرف دو گاڑیاں رہ گئیں
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں فلسطینیوں کو زندہ دفن کرنے کا انکشاف
- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
ایران کی جی سیون سربراہ کانفرنس میں غیر متوقع شرکت
ایران کے ساتھ امریکا نے گزشتہ برس ایٹمی سمجھوتہ کیا تھا جس میں دنیا کی بعض دیگر طاقتیں جیسا کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی بھی شامل تھیں مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر اس جوہری سمجھوتے سے اپنا پہلو چھڑا لیا جس کا ایران کو نہ صرف سخت رنج ہوا بلکہ ایران کے لیے امریکا کا یہ فیصلہ نہایت تعجب خیز بھی تھا۔
یہ تلخی مزید بڑھ کر اس واقعہ تک پہنچ گئی جب ایران نے ایک امریکی ڈرون طیارے کو گرا لیا کیونکہ ایران کے بقول اس امریکی ڈرون نے ایرانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی جب کہ امریکا کا دعویٰ تھا کہ امریکی ڈرون نے ایرانی فضائی حدود کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ وہ بین الاقوامی فضائی حدود میں پرواز کر رہا تھا۔
ڈرون گرنے کا واقعہ جون کے مہینے میں پیش آیا جس کے بعد برطانیہ نے جبرالٹر (اصل نام جبل الطارق) سے ایرانی آئل ٹینکر کو قبضے میں لے لیا جواب میں تہران نے بھی آبنائے ہرمز میں ایک برطانوی تیل کے ٹینکر پر قبضہ کر لیا اور جواز یہ پیش کیا کہ مذکورہ آئل ٹینکر ایرانی آبی حدود کی خلاف ورزی کر رہا تھا تاہم مبصرین جانتے ہیں کہ اس معاملے میں ادلے کا بدلہ لیا جا رہا ہے لیکن جب امریکا کی طرف سے بھی اس معاملے پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا گیا تو کشیدگی میں کمی ہو گئی۔ کشیدگی میں کمی کی بڑی وجہ فرانس میں منعقد ہونے والی جی سیون سربراہ کانفرنس تھی۔
جس میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف غیر متوقع طور پر شریک ہو گئے۔ جواد ظریف کی جی سیون سربراہ کانفرنس میں شرکت فرانس کے لیے بھی غیر متوقع تھی تاہم ایران کے اس اقدام نے مذاکرات کے لیے سانس لینے کی جگہ یقینی طور پر پیدا کر دی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یورپی ممالک کا ایران کے بارے میں رویہ امریکا کی نسبت کہیں زیادہ محتاط ہے جب کہ امریکا کے انداز سے لگتا ہے جسے وہ بلاسوچے سمجھے اقدامات کر رہا ہے جس کا نتیجہ کھلی جنگ کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔
غالباً یورپی ممالک سمجھ رہے ہیں کہ اگر ایران کے بارے میں اس طرح سے غیرمحتاط اقدامات کیے جاتے رہے تو ان کا نتیجہ خطرناک بھی ہو سکتا ہے اور کشیدگی میں اضافے کی وجہ سے خطے میں جنگ کے بادل بھی چھا سکتے ہیں۔
جنگ کے عالمی اقتصادیات پر مضر اثرات مرتب ہونگے، ان کا فی الوقت درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس کے نتیجے میں صرف عالمی معیشت ہی تباہ برباد نہیں ہو گی بلکہ عالمی امن و امان بھی خواب و خیال بن جائے گا۔
امریکا کی طرف سے ایران کے بارے میں جو بیانات جاری کیے جا رہے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ مبہم اور غیر واضح ہیں بلکہ ان کا غلط مطلب بھی لیا جا سکتا ہے حالانکہ صورتحال کی نزاکت اس امر کی متقاضی ہے کہ ہر قدم خوب سوچ بچار کے ساتھ اٹھایا جائے تا کہ حالات خراب سے خراب تر نہ ہوں۔ بہرحال جی سیون اجلاس میں جاکر ایران نے اچھا کارڈ کھیلا ہے جس کے نتائج بھی اچھے ہوسکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔