غم کے روپ بہروپ

سعد اللہ جان برق  بدھ 28 اگست 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

اپنے وقت کی مشہور زمانہ دانا و بیدانہ اور دوشیزہ خوابانہ۔ ہیمامالنی نے یہ قول زریں نشرکیا تھا کہ

ہم کو بھی غم نے مارا۔ تم کو بھی غم نے مارا

اس کو بھی غم نے مارا۔ سب کو بھی غم نے مارا

اس غم کو مار ڈالو۔

لیکن سدا سدا کے کاہل الوجود، جاہل اور نااہل انسان نے اس پر عمل نہیں کیا۔ تو اب بھگتے۔ کیونکہ یہ مسمی غم ولد زندگی ساکن کھوپڑی جہاں۔ اتنا بے مروت اور بے مہار ہے کہ اپنی بہن ’’خوشی‘‘کے ہاں نہ صرف وقت بے وقت نازل ہوکر سب کچھ کرکرا کردیتا ہے بلکہ اس پر ذرا بھی شرماتا نہیں لیکن یہ بے حس اپنی بہن یعنی خوشی کو ہی نگل لیتا ہے۔

دنیا جہان کے شعراء، علماء حکماء یہاں تک کہ جہلا وحقماء نے بھی اس کم بخت غم کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے اور خوشی پر اس کے ’’اتیاچار‘‘کے واقعات سنائے ہیں،ہمارے دوست ڈاکٹر اسرار نے تو یہ تمنا بھی کی ہے کہ کیا اچھا ہوتا کہ خوشی کا بدبخت بھائی غم بچپن ہی میں کسی دایہ یا ڈاکٹر کے ہاتھوں کیفر کردار کو پہنچ جاتا۔ قلندر مومند نے کہا ہے کہ ’’میں غم کو کھا رہا ہوں، غم مجھے کھا رہا ہے کہ یہ کم بخت ہر لحاظ سے خوراکی ہے‘‘۔

لیکن یہ سب کچھ تو عام سی باتیں ہیں جو سب کو معلوم ہیں کیونکہ ایسا کوئی جہاں میں اب تک پیدا ہی نہیں ہوا بلکہ لاہور اور اسلام آباد تک میں ’’اجے جمیا‘‘ نہیں ہے جو اس کا شکار نہ بنا ہو، بمطابق ایک پشتو کہاوت۔ کہ ایسا کوئی پیڑ نہیں جسے ہوا نے ہلایا نہ ہو۔ لیکن ہم تو محقق ہیں، اس لیے غم کے ان عام پہلوؤں سے ہمارا کوئی سروکار نہیں بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ اس کی اس ہمہ جہت یلغار اور مار کی وجہ کیا ہے، آخر خوشی بھی اس کی ماں جائی یعنی ’’بہن‘‘ ہے لیکن یوں بن بلائے بلکہ بڑی منتیں کروائے بغیر کسی کے ہاں ’’پدھارتی‘‘ نہیں۔ اور اگر پدھار بھی لیتی ہے تو کھڑے کھڑے صرف ایک جھلک دکھاکر بجلی کی طرح، غائب ہوجاتی ہے۔

ہماری سادگی تھی التفات ناز پر مرنا

ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی

بلکہ اس کا یہ ناہنجار ناپکار سراسر مردار بھائی اس کے پیچھے ہی لگاہوتا ہے اور بہن کو کھینچ کر بٹھا دیتا ہے اور اس کی جگہ خود کھڑے ہوکر اپنا یہ منحوس چہرہ دکھانے لگتا ہے۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا ہے کہ اس کی بہن بڑی سادہ مزاج سی خاتون ہے، اندر باہر سے ایک۔ شکلیں بدلتی ہیں نہ روپ دھارن کرتی ہے نہ اپنی پہچان چھپاتی ہے لیکن بھائی۔ وہی عقل وعشق والی بات ہے کہ:

عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے

عشق  بچارا  نہ  زاہد  ہے  نہ  ملا  نہ  حکیم

بظاہر کچھ اور دکھائی دیتا ہے لیکن جب پردہ اٹھتا ہے تو اس کے پیچھے یہی کم بخت غم ہی چھپا ہوا ہوتا ہے لیکن محقق ہونے کی وجہ سے ہم نے ان کی تمام عیاریوں، بھیسوں، شکلوں اور ناموں کا پتہ چلا لیا ہے۔ اب مثلاً اس مہنگائی کو لے لیجیے لوگ اسے طرح طرح کی گالیاں کوسنے دے رہے ہیں جیسے یہ کوئی اور چیز ہو۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ محض پردہ اور نام کی تبدیلی ہے کیونکہ اپنے ہاں چونکہ تبدیلی کا موسم ہے، تبدیلی کی ہوا چل رہی ہے، تبدیلی کے آندھی طوفان اٹھ رہے ہیں، تبدیلی کے سیلاب اور زلزلے آ رہے ہیں، اس لیے اس کم بخت نے اپنے نام اور روپ کی تبدیلی کر کے خود کو مہنگائی مشہور کیا ہوا ہے لیکن

بہر رنگے کہ خواہی جامہ پوش

من انداز قدت را می شناسم

یہ تو کچھ بھی نہیں آپ یہ سن کر حیران ہو جائیں گے کہ یہ کم بخت بعض اوقات انسانی روپ بھی اختیار کر لیتا ہے۔ لوگ جسے لیڈر، افسر، وزیر باتدبیر سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ یہی کم بخت ہوتاہے۔ بلکہ اپنے ہاں تو یہ ایک طرح کا ’’عالم ارواح‘‘ ہو چلا ہے کہ یہ جب بھی آتا ہے یعنی انسانی روپ میں آتا ہے۔ سارے لوگ ایک طبعی مدت تک اسے ’’لیڈر‘‘ وغیرہ سمجھ رہے ہوتے ہیں لیکن وہ اصل میں ’’غم‘‘ ہوتے ہیں:

کچھ بھی دشوار نہیں کام کا آسان ہونا

لیڈروں کو بھی میسر ہوا انسان ہونا

بات صرف انسان کی ہوتی تو کوئی بات نہیں تھی، بہت سارے ایسے پھر رہے ہیں جو انسان نظر آتے ہیں لیکن ہوتے نہیں۔ بلکہ ہمارے ہاں جو یہ کیٹگریز کے لوگ پائے جاتے ہیں، ایک قرض لے کر ڈکارنے والے اور دوسرے بغیر لیے قرض اتارنے والے۔ پہلی کیٹگری والوں کو یکسر منحوس اور دوسری کو اکثر مقروض بھی کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ انسان نہ ہوتے بھی انسان کا روپ دھارن کیے ہوئے ہیں تو ہمیں کیا۔

اور یہی اس کم بخت غم کا اصل پرابلم ہے کہ روپ دھارے میں اسے مہارت حاصل ہے، لوگ جب تک اسے پہچانیں تب تک یہ کوئی اور روپ دھارن کر چکا ہوتا۔ اب اگر انسان اسے مارنا چاہے بھی تو کس روپ میں؟ اور کیا واقعی یہ مر بھی جائے گا؟ ہرگز نہیں کہ اس کے پاس بڑا ’’مایاوی جاں‘‘ ہے ،کسی بھی وقت کچھ بھی بن سکتا ہے۔ اس ملک میں کون ہے یا کیا ہے جو اپنے روپ میں ہے یا غم نے ان کا روپ دھارا ہوا نہیں ہے کیونکہ اس کم بخت نے اصلی نقلی روپ کو بھی گڈمڈ کیا ہوا ہے۔

مثلاً۔ لوگ ایوب خان کے پیچھے ڈنڈا لے کر دوڑے لیکن یحییٰ خان نے ان کو روک کر تسلی دی کہ  اسے میں نے مار ڈالا ہے، کسی کو پتہ نہیں چلا کہ یہ بھی اس کا روپ ہے اور پھر جب وہ روپ پہچان لیا گیا۔ دوسرا روپ۔ پھر تیسرا چوتھا روپ پانچواں کتنے چلے ، کتنے چلے جائیں گے ۔ آپ ختم ہو جائیں گے لیکن اس کے روپ ختم نہیں ہوں گے۔ بہرحال ہمارا کام یہیں ختم ہو گیا۔

ہم نے یہ تحقیق مکمل کر لی ہے کہ اسے مارنا ممکن نہیں کہ اس کے روپ ہزار ہیں، آپ آخر کتنے روپ ماریں گے؟ ہاں یہ ممکن ہے اور یہ ہو بھی رہا ہے کہ لوگ اس کے ’’روپوں‘‘ کو مارتے مارتے ایک دن خود ہی اس کے ایک اور روپ موت کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن اس کا کچھ بھی نہیں بگڑتا۔ مثلاً اگر مہنگائی کو مار ڈالنے کی سعی کی گئی تو کیا پتہ یہ تبدیلی کا روپ دھارن کر لے یا کسی ڈیم کی شکل اختیار کر لے۔ یا۔ یا۔ یا۔

ادھر نکلا ادھر ڈوبا ادھر ڈوبا ادھر نکلا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔