کراچی کا سیاسی کھیل

مزمل سہروردی  بدھ 28 اگست 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

کراچی کے کچرے اور گند کو اٹھانے کا انتظام کرنے کے بجائے سیاست ہو رہی ہے۔ پہلے وفاقی وزیر علی زیدی نے سیاست کی ، شاید انھیں معاملے کی سنگینی کا ادارک ہی نہیں تھا۔ اگر وہ کراچی کو صاف کرنا چاہتے تھے تو انھیں وفاقی حکومت سے ایک مربوط پیکیج اور مکمل وسائل کے ساتھ میدان میں آنا چاہیے تھا۔ خالی ہاتھ کراچی کی صفائی ایک خواب تو ہوسکتا لیکن حقیقت نہیں۔ وہ اپنی ناکامی کا اعتراف کر چکے ہیں اور امید ہے واپس اسلام آباد جا چکے ہیں۔

سندھ حکومت سے کسی کو کوئی گلہ نہیں ہونا چاہیے ۔ نہ وہ پہلے کبھی کراچی کے مسائل میں سنجیدہ تھی نہ وہ اب سنجیدہ ہیں۔ ان سے کسی بھی قسم کی توقع نہیں ہونی چاہیے تھی۔ مجھے امید ہے کہ علی زیدی کو بھی اندازہ تھا کہ سندھ حکومت سے انھیں کوئی وسائل نہیں ملیں گے بلکہ وہ سندھ حکومت کو چیلنج کر کے کراچی کی صفائی کے لیے آرہے تھے۔

اگر سندھ حکومت نے انھیں ناکام کیا ہے، تو یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے، سب کو اس کا اندازہ تھا۔ اس سے پہلے پی پی پی کی سندھ حکومت نواز شریف کے کے فور اور گرین لائن منصوبوں کو بھی ناکام کر چکی ہے۔ ن لیگ تو وسائل دیکر بھی کراچی میں ناکام ہو گئی تھی کیونکہ ان کے پاس کراچی میں سیاسی نمایندگی نہیں تھی تا ہم تحریک انصاف کی صورتحال مختلف ہے۔ تحریک انصاف نے کراچی سے کامیابی حاصل کی ہے لیکن اس کامیابی پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف پر اس وقت کراچی  کے انتخابی حلقہ 247کی حکمرانی ہے۔ دلچسپ حقائق کے مطابق صدر پاکستان عارف علوی کا تعلق بھی 247سے ہے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل کا تعلق بھی اسی حلقہ سے ہے۔ علی زیدی کا تعلق بھی اسی حلقہ سے ہے۔ فیصل واوڈا کا تعلق بھی اسی حلقہ سے ہے۔

کراچی پیکیج کے سربراہ ثمر علی خان کا تعلق بھی اسی حلقہ سے ہے۔ خواتین نشست سے ارکان قومی اسمبلی نصرت واحد اور غزالہ سیفی کا تعلق بھی 247سے ہی ہے۔ خواتین ارکان سندھ اسمبلی سدرہ عمران، ادیبہ، سیمہ ضیا،اور رابعہ کا تعلق بھی 247سے ہی ہے۔اقلیتی رکن ڈاکٹر سنجے بھی وہیں سے ہیں۔ تحریک انصاف کراچی کے صدر خرم شیر زمان کا تعلق بھی 247سے ہی ہے۔ اس طرح تحریک ا نصاف کراچی  پرکراچی انھی شخصیات کا کنٹرول ہے۔ اس لیے علی زیدی کی ناکامی میں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس باقی کراچی میں کوئی ٹیم ہے ہی نہیں۔ اور ڈیفنس کے علاقے  کا ان مسائل سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔

کراچی کے مئیر وسیم اختر بھی ناکامی سے بچنے کے لیے جتن کررہے ہیں۔ حالیہ واقعات ظاہر کر رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کے لیے بھی ان کی حمایت مشکل ہورہی ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال نے جب ان پر الزامات لگائے تو ایم کیو ایم ان کے دفاع میں نہیں آئی۔ عامر خان، خالد مقبول صدیقی اور دیگر قائدین کی خاموشی معنی خیز ہے۔

وسیم اخترخود ہی اپنا دفاع کر رہے ہیں لیکن وہ بھی کوئی زیادہ موثر ثابت نہیں ہوا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مصطفی کمال کے بارے میں یہ رائے بھی موجود ہے کہ وہ ایسے ہی کسی پر  چڑھائی نہیں کرتے۔ اس سے پہلے انھوں نے سابق گورنر عشرت العباد پر بھی چڑھائی کی تھی۔ عشرت العباد نے بھی اس وقت ایسے ہی جواب دینے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس کوشش میں ان کی سیاسی تنہا ئی کھل کر سامنے آگئی تھی اور انھیں جانا پڑا۔ وسیم اختر نے بھی اپنے دفاع کی جو کوشش کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں، شاید پہلا راؤنڈ مصطفی کمال جیت گئے ہیں۔

وسیم اختر نے ہاری ہوئی بازی جیتنے کے لیے مصطفی  کمال کو کراچی کا کوڑا اٹھانے کا ٹاسک دے دیا۔ شاید ان کا خیال ہو گا کہ مصطفی کمال خود ایک پارٹی کے سربراہ ہیں،کراچی کے مضبوط مئیر رہے ہیں۔ وہ ان کے کیے ہوئے ایک نوٹیفیکشن پر کام کرنے کو توہین سمجھیں گے۔ لیکن مصطفی کمال نے اس آفر کو قبول کرلیا۔ انھوں نے وسیم اختر کے ماتحت کام کرنے کا اعلان کر دیا۔ وہ رات گئے کام پر پہنچ گئے۔ کراچی بلدیہ کے افسران کو بلا لیا۔ بلدیہ کا ریکارڈ منگوانا شروع کر دیا۔

اس صورتحال پر یار لوگوں نے پریشان تو ہونا ہی تھا۔ عجلت میں کیے گئے نوٹیفکشن کو عجلت میں ہی واپس لے لیا گیا۔ یوں میرے خیال میں مصطفی کمال دوسرے روانڈ میں بھی کامیاب رہے ہیں، انھوں نے اچھا سیاسی کارڈ کھیلا۔

یہ سوال اہم ہے کہ کیا اگر مصطفی کمال کو موقع مل جاتا تو وہ کراچی کا کچرا اٹھا لیتے۔ میری رائے میں وسائل کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ بھی وسائل کی کمی کی وجہ سے ناکام ہو جاتے۔ یہ الگ بات ہے کہ انھیں کہیں سے مدد مل جاتی اور وہ وسائل پیدا کر لیتے۔ انھیں کراچی کے مسائل کا علم بھی ہے اور انھیں حل کرنے کا طریقہ بھی معلوم ہے۔

وسیم اختر شاید جلدی کرگئے ، اگر وہ ٹوٹیفیکشن منسوخ نہ کرتے اور تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو کے اصول کو اپناتے تو شاید  وہ کامیاب رہتے لیکن وہ اپنی سیاسی چال کا خود ہی شکا رہو گئے ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر پی پی پی کی سندھ حکومت کے خلاف پریس کانفرنس کرنے والے وفاقی وزیر علی زیدی بھی اس لڑائی میں خاموش نظر آئے ہیں۔

کراچی کی صفائی کے لیے  وسائل کی کمی کا رونا  رویا جاتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی اب کھل کر سامنے آتے جا رہی ہے کہ موجودہ وسائل کو بھی ٹھیک طریقہ سے استعمال  نہیں کیا گیا ہے۔ اب سیاسی لڑائی میں موجودہ نظام بھی غیر فعال کردیا گیا ہے۔ وسیم اختر کا تعلق کراچی کی سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم سے ہے۔

ایم کیو ایم اس وقت کراچی میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ تحریک انصاف نے ان سے جگہ چھینی ہے۔ مصطفی کمال پہلے مرحلہ میں وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں جس کی امید تھی لیکن وہ میدان سے بھاگے نہیں ہیں۔ وہ انتخابی ہار کے بعد بھی میدان میں موجود ہیں۔ کراچی میں سیاست کر رہے ہیں اور کراچی کے عوام کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ صرف وہی کراچی کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ اس لیے ایسا نہیں ہے کہ مصطفی کمال ایم کیو ایم کے لیے سیاسی خطرہ نہیں ہیں۔وہ اس وقت بھی دونوں جماعتوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔

یہ ضروری نہیں کہ تحریک انصاف کی جیت سے  مصطفی کمال سے جو زیادتی کی گئی ہے وہ آگے بھی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آیندہ کراچی کے عوام اس زیادتی کا بھی ازالہ کر دیں۔ اس لیے کراچی کا بحران مصطفی کمال کو سیاسی زندگی دے رہا ہے ۔

وہ سیاست میں زندہ ہورہے ہیں۔ کراچی کا کچرااٹھانے کے بحران سے چند دن پہلے تک مصطفی کمال کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کراچی کی سیاست پر چھائے ہوئے تھے۔ لیکن آج سارے کراچی کی سیاست کا محور مصطفی کمال ہو گئے ہیں۔ سب آنکھیں ان کی طرف ہیں۔ رائے بن گئی ہے کہ اگر انھیں موقع دیا جائے تو وہ ان وسائل میں بھی بہتری  لا سکتے ہیں اور اگر وسائل دیے جائیں تو وہ مسائل کو حل بھی کر سکتے ہیں۔ ویسے کھیل تو ابھی شروع ہوا ہے، اس کو ابھی چلنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔