اسمبلی اراکین کی تعداد میں اضافے سے کیا سیاسی اثرات ہونگے؟

شاہد حمید  بدھ 28 اگست 2019
اسمبلی کی حد تک حکومت اوراپوزیشن میدان میں بھرپور طریقے سے کھیل رہی ہیں۔

اسمبلی کی حد تک حکومت اوراپوزیشن میدان میں بھرپور طریقے سے کھیل رہی ہیں۔

پشاور:  قبائلی علاقہ جات میں الیکشن تو ہوگئے مگر انتخابات کے انعقاد کو ایک ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود قبائلی ارکان کے حلف کے لیے صوبائی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلایا جا رہا تھا جس کی وجہ سے مختلف چہ میگوئیاں جاری تھیں اور الزام صوبائی حکومت پر عائد کیا جا رہا تھا کہ صوبائی حکومت بوجوہ اسمبلی اجلاس نہیں بلارہی، تاہم یہ مسلہ اپوزیشن نے حل کر دیا ہے کیونکہ اپوزیشن نے اسمبلی اجلاس کے انعقاد کے لیے ریکوزیشن جمع کرا دی ہے۔

اپوزیشن کی جمع کردہ ریکوزیشن پر ان سطور کی اشاعت تک صوبائی اسمبلی کا اجلاس شروع اور قبائلی ارکان اسمبلی رکنیت کا حلف اٹھاچکے ہونگے جس سے یقینی طور پر ایک نئے دور کا آغاز ہوگا کیونکہ پہلی مرتبہ قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان صوبائی اسمبلی کا حصہ بنیں گے۔

جنھیں بعد میں صوبائی کابینہ اور حکومتی ٹیم کا حصہ بھی بنایا جائے گا، قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان کی خیبرپختونخوا اسمبلی آمد سے اسمبلی ارکان کی تعداد بڑھ کر145ہوگئی ہے جو اس سے پہلے124تھی، مجموعی طور پر ارکان کی تعداد میں اضافہ ہونے کے ساتھ اسمبلی میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد بھی 22 سے بڑھ کر26 ہوگئی ہے جبکہ اقلیتی ارکان بھی تین سے بڑھ کرچار ہوگئے ہیں۔

سترہ سالوں کے دوران یہ دوسری مرتبہ ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہواہے، جس سے ارکان کی تعداد بڑھ کر 145 تک جا پہنچی ہے جس سے یقینی طور پر2021ء میں منعقد ہونے والے سینٹ انتخابات کے لیے سینیٹرزکی کامیابی کے لیے درکار ووٹوں کا تناسب بھی تبدیل ہو جائے گا جبکہ صدر پاکستان کے انتخابی عمل میں بھی فارمولا تبدیل ہوگا، صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تعداد چونکہ بڑھ کر145ہوگئی ہے اس لیے ایوان میں کورم پورا کرنے کے لیے بھی ارکان کی تعداد میں اب اضافہ ہوگیا ہے جو اس سے پہلے 31 تھا لیکن اب یہ تعداد بڑھ کر36 سے37 ہوجائے گی۔

اسی لیے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اسمبلی اجلاس بلانے کے لیے جو ریکوزیشن جمع کرائی گئی اس پر بھی31 کی بجائے 36 ارکان کے دستخط ہیں جس کے ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں نے 16 نکاتی ایجنڈا بھی دیا ہے جو ایوان میں زیر بحث لایاجائے گا، اپوزیشن نے یقینی طور پر تگڑا ایجنڈا دیا ہے جس پر اگر جامع انداز میں بحث کی جائے اور اپوزیشن ارکان اس پر تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں تو اس کے نتیجے میں انھیں حکومت کی جانب سے بھی بھرپور انداز میں رسپانس ملے گا جس سے معاملات کافی حد تک واضح ہوجائیں گے۔

اسمبلی کی حد تک حکومت اوراپوزیشن میدان میں بھرپور طریقے سے کھیل رہی ہیں جبکہ ایوان کے باہر کی صورت حال یہ ہے کہ ایک جانب تو جماعت اسلامی نے پشاور میں کشمیری عوام سے یکجہتی کے لیے اپنا شو کیا جس کے بعد یہ سلسلہ صوبہ کے دیگر اضلاع تک پھیلایا جائے گا تو دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام (ف) ماہ اکتوبر میں اسلام آباد میں ڈیرہ ڈالنے کی تیاریاں کر رہی ہے، جے یوآئی کی قیادت کو مذکورہ اجتماع کے لیے دیگر اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ بھی حاصل ہوگا۔

تاہم وہ اپنے طور پر اکیلے اس کی بھرپور انداز میں تیاری کر رہی ہے جس کیلیے پارٹی کی صوبائی قیادت میدان میں ہے اور اس نے صوبہ بھر کے اضلاع کے دوروں کا شیڈول ترتیب دے دیا ہے جس کا مقصد اضلاع کی سطح پر نہ صرف اپنی پارٹی اور پارٹی ورکروں کو متحرک کرنا ہے بلکہ ساتھ ہی ماہ اکتوبر کے مارچ جسے جے یوآئی آزادی مارچ کا نام دے رہی ہے کی بھرپور انداز میں تیاری کرنا بھی ہے کیونکہ جے یوآئی کے قائدین طویل عرصے کی تیاریوں کے چکر میں ہیں اور وہ اسلام آباد میں ڈیرے ڈالتے ہوئے وہاں احتجاج کرنے کے ساتھ معمول کے مطابق مدارس کی کلاسیں لگاتے ہوئے درس وتدریس کا سلسلہ بھی منعقد کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

اگرچہ اپوزیشن جماعتوں کا سربراہی اجلاس کل مولانا فضل الرحمٰن کی زیر صدارت منعقد ہورہا ہے جس میں اپوزیشن جماعتیں آزادی مارچ سمیت دیگر امور کے بارے میں اپنی حکمت عملی وضع کریںگی اور اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بھی بھرپور انداز میں مذکورہ احتجاج اور مارچ میں شرکت کااعلان کردیتی ہیں تو اس سے یقینی طور پر حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ابھی ماہ اکتوبرکی طرف دو ماہ پڑے ہوئے ہیں اور ملکی حالات جس نہج پر چل رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی کہ اپوزیشن جماعتیں آزادی مارچ کر پائیں گی یا نہیں ؟کیونکہ ایک جانب بھارت کے ساتھ کشیدگی کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے خطرات درپیش ہیں تو دوسری جانب اندرونی طور پر اپوزیشن جماعتوں کو رگڑا لگ رہا ہے اور نیب کا ڈنڈا اپوزیشن رہنماؤں کے سر پر جس طریقے سے بج رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اپوزیشن کس حد تک اور کس طریقے سے آزادی مارچ کی تیاری کر پائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔