وزیر اعلیٰ سے اختلافات، وزیر محنت و افرادی قوت مستعفی ہو گئے

رضا الرحمٰن  بدھ 28 اگست 2019
سیاسی حلقوں کے مطابق آئندہ چند روز میں اس ملاقات کے حوالے سے بعض طے شدہ چیزیں سامنے آنے کی توقع ہے۔

سیاسی حلقوں کے مطابق آئندہ چند روز میں اس ملاقات کے حوالے سے بعض طے شدہ چیزیں سامنے آنے کی توقع ہے۔

کوئٹہ: برسراقتدار جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی سردار سرفراز ڈومکی وزارت کے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں اور ان کا استعفیٰ منظور بھی کرلیا گیا ہے۔

سردار سرفراز ڈومکی جو کہ وزیراعلیٰ جام کمال کی کابینہ میں وزیر محنت و افرادی قوت تھے نے گذشتہ دنوں وزیراعلیٰ جام کمال سے اختلاف کی بنیاد پر مستعفی ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ گورنر بلوچستان کو بھیج دیا تھا۔

رکن صوبائی اسمبلی سرفراز ڈومکی کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ اُن کی وزارت اور حلقہ انتخاب میں مداخلت کر رہے ہیں اور اُن کے مخالفین کو سپورٹ کر رہے ہیں جس سے بارہا وہ وزیراعلیٰ کو آگاہ کرتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود وزیراعلیٰ کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا جس پر اُنہوں نے وزارت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ اُنہوں نے الزام عائد کیا کہ موجودہ صوبائی حکومت کے دور میں بھی اقرباء پروری اور کرپشن عروج پر ہے جس پر عنقریب وہ وائٹ پیپر جاری کریں گے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق سردار سرفراز ڈومکی کے وزارت سے مستعفی ہونے کی خبریں کافی عرصے سے سیاسی حلقوں میں گشت کر رہی تھیں اور یہ کہا جا رہا تھا کہ برسر اقتدار جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی گروپ میں ایک دھڑا وزیراعلیٰ جام کمال سے اختلاف رائے رکھتا ہے اور وہ اُن کے خلاف کسی بھی موومنٹ کا حصہ بن سکتا ہے؟

اس دوران چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد آگئی جس کے بعد ان سیاسی حلقوں میں اس بات کو زیادہ تقویت ملی کہ میر صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا اگلا ہدف جام حکومت ہوگی اور اس دوران بلوچستان کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی اس حوالے سے بیانات آنا شروع ہوگئے لیکن چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی نے بلوچستان میں جام حکومت کو بھی مضبوط بنادیا جس کے بعد جام حکومت کے خلاف کسی قسم کی کوئی موو(Move) فوری طور پر آنے کے چانسز نہ ہونے کی وجہ سے اپوزیشن کی جانب سے بھی خاموشی ہوگئی تاہم سیاسی حلقوں میں سردار سرفراز ڈومکی کے استعفے سے تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

سیاسی مبصرین کے مطابق سردار سرفراز ڈومکی کے استعفے کو وزیراعلیٰ جام کمال نے جس طرح’’ایزی‘‘ لیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اندرونی طور پر مضبوط ہوگئے ہیں لیکن بعض سیاسی مبصرین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اُن کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال کی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی گروپ میں اُن سے اختلاف رائے رکھنے والا دھڑا اب بھی موجود ہے اور سردار سرفراز ڈومکی کا استعفیٰ بارش کا پہلا قطرہ ہے۔

اندرون خانہ رابطوں کا آغاز ہوچکا ہے اور اس حوالے سے بعض سیاسی بیٹھکوں کی بھی اطلاعات ہیں۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال سے اتحادی جماعتیں بھی کچھ خفا خفا سی دکھائی دے رہی ہیں اور بعض سیاسی محفلوں میں ان اتحادیوں نے بھی اُن سے اپنی خفگی کا اظہار کیا ہے ان سیاسی مبصرین کے مطابق اگلے ایک دو ماہ میں موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی بلوچستان میں ایک بار پھر سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہونے کا قوی امکان ہے جس کیلئے سیاسی کھلاڑی اُسی طرح وارم اپ ہو رہے ہیں۔

جس طرح سے نواب ثناء اﷲ زہری کی حکومت کے خلاف ہوئے تھے۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق نواب ثناء اﷲ زہری کے خلاف کھیلنے والے سیاسی کھلاڑی بھی یہی تھے اور گراونڈ بھی وہی ہے لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ اگر یہ میچ پڑ جاتا ہے تو اس بار کامیابی کسے ملتی ہے؟

بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس تمام صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال اپنی جماعت اور اس کے پارلیمانی گروپ کو مضبوط بنائیں اور انکے جو تحفظات اور خدشات ہیں انہیں دور کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی اتحادی جماعتوں کو بھی آن بورڈ لیں اس کے علاوہ وزیراعلیٰ جام کمال اپنے اردگرد خوشامدیوں سے بھی جان چھڑائیںجو انہیں اپنے لوگوں سے دور کر رہے ہیں جن کے حوالے سے اُن کی جماعت اور پارلیمانی گروپ کے بعض لوگوں کو سخت گلہ ہے۔

دوسری جانب سیاسی حلقے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کو بہت اہمیت دے رہے ہیں ان سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال جلد ہی اپنی کابینہ میں کچھ تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس ملاقات میں اُنہوں نے جہاں اپنی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی سے وزیراعظم کو آگاہ کیا ہے وہاں انہوں نے اپنی اتحادی جماعت تحریک انصاف کے حوالے سے بھی وزیراعظم عمران خان کو اعتماد میں لیا ہے اس کے علاوہ وفاقی کابینہ میں بلوچستان عوامی پارٹی سے ایک اور وزیر لینے کے معاملے پر بھی بات کی گئی ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق آئندہ چند روز میں اس ملاقات کے حوالے سے بعض طے شدہ چیزیں سامنے آنے کی توقع ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔