مسیحی برادری کا ملکی ترقی میں کردار

نصرت جاوید  بدھ 25 ستمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

پشاور کے ایک چرچ پرخود کش حملے کے بعد اپنا ریموٹ پکڑیں یا میری طرح قومی اسمبلی چلے جائیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستانیوں کو اچانک یاد آگیا ہے کہ ان کے ملک میں صرف مسلمان ہی نہیں رہتے یہاں دوسرے مذاہب اور مسالک کے لوگ بھی موجود ہیں۔ ہمیں ان کے عقائد اور طرزحیات کا احترام کرنا چاہیے۔ مسیحی برادری کا ذکر کرتے ہوئے بہت سارے لوگ ایک حوالے سے یہ ’’دریافت‘‘ کرتے بھی پائے جارہے ہیں کہ اس برادری کے لوگوں نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہت کام کیا ہے۔ بات صرف ان ہی شعبوں تک محدود نہیں رہی۔ مسیحی برادری نے ہمیں نیلو جیسے فن کار اور سہیل چوہدری جیسے بہادر فوجی بھی دیے۔ سلیم رضا کی میٹھی آواز اور بینجمن سسٹرز کی معصومیت بھی ہم یاد کرتے چلے جا رہے ہیں۔

مسیحی برادری کی دادوتحسین میں حصہ لینا میرا فرض یوں بھی بنتا ہے کہ میں نے پورے دس سال لاہور کے مشن ہائی اسکول رنگ محل میں پڑھا ہے۔ میں ماں کا ایک بگاڑا ہوا بیٹا تھا جس میں ’’بگڑجانے‘‘ کے ہزارہا امکانات تھے۔ ہمارے اسکول کے جونیئر شعبے کی مسیحی اُستانیاں نہ ہوتیں تو شاید پرائمری سے آگے نہ پڑھ پاتا۔ مارے ادب کے نام لے لے کر آپ کو نہیں بتاسکتا کہ کیسے اور کس طرح انھوں نے نہ صرف مجھے کتابیں پڑھنے کی لت لگائی بلکہ اس بات کا بھی عادی بنایا کہ روزانہ غسل کرنا ہوتا ہے۔ ناخن بڑھ جائیں تو انھیں کاٹنا ضروری ہے اور ان میں میل کا ذرہ تک نظر نہیں آنا چاہیے۔ میری ایک ٹیچر تو اتنی سخت گیر تھیں کہ کلاس میں اس وقت تک داخل نہ ہونے دیتیں جب تک ہمارے جوتے اترواکر یہ اطمینان نہ کرلیتیں کہ ہماری جرابیں صاف ہیں ان میں سے بو نہیں آ رہی۔ یہی سخت گیر ٹیچر اس دن بڑی فکر مند تھیں جس دن میں نے پہلا روزہ رکھا تھا۔ افطار تک میرے ساتھ رہیں اور جب میں اپنی کلاس میں بے تحاشہ نمبر لے کر پاس ہونے کے بعد اس سیکشن میں جا رہا تھا جہاں صرف مرد اساتذہ ہوا کرتے تھے تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ انھوں نے الوداع کہتے ہوئے مجھے گلے بھی لگایا تھا۔

قیامِ پاکستان کے کئی برس بعد بھی لاہور کے پرانے محلوں میں رہنے والے چند قدامت پرست گھرانوں کو یقین کی حد تک شبہ تھا کہ میرے اسکول جانے والا وہاں سے عیسائی بن کر نہ سہی مسیحیت کی طرف راغب ہوکر ضرور نکلتا ہے۔ وہاں مگر تین سال تک ہمیں فارسی لازمی مضمون کی صورت پڑھائی جاتی تھی۔ فارسی پڑھانے والے ماسٹر نصیر سے زیادہ شفیق اور محنتی استاد میں نے آج تک نہیں دیکھا جو میری اُردو کے لہجے اور تلفظ پر بھی کڑی نگاہ رکھتے تھے۔ اسلامیات کو ان دنوں دینیات کہا جاتا تھا۔ یہ لازمی مضمون بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود ہمیں پانچ سال تک متواتر ماسٹر اسلم قرآن وحدیث کے سبق دیتے رہے۔ ہمیں جو آیات پڑھائی اور سمجھائی جاتیں ان کے بارے میں وہ بڑی تفصیل سے بتاتے کہ ان کا پسِ منظر کیا ہے اور ان میں جو پیغامات چھپے ہیں انھیں کون کون سی احادیث کے ذریعے مزید اُجاگر کیا گیا ہے۔ ان کی لگن کے سبب میرے سمیت بہت سارے بچوں میں یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ وہ بعدازاں مختلف لوگوں کی لکھی تفاسیر کے ذریعے قرآن کا زیادہ سے زیادہ فہم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ عمر کے آخری برسوں میں داخل ہوجانے کے بعد میں پورے خلوص سے سوچتا ہوں کہ میں نے جو بھی سیکھا صرف اپنے اسکول کے دنوں میں سیکھا۔ اس کے بعد سے بس آوارہ گردی کی یا چند فضول اور فرسودہ خیالات کی جگالی۔

جذباتی تقریریں کرنے یا ایک مسیحی اسکول میں گزارے دنوں کی خوش گوار یادوں کو اداس دل کے ساتھ دہرا دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ تلخ حقیقت ہے تو بس اتنی کہ گزشتہ کئی برسوں سے ہماری اکثریت پارسائی کے خبط میں مبتلا ہوچکی ہے۔ ہمیں بس اپنا مذہب اور مسلک ہی سب سے بہتر اور پیارا لگتا ہے۔ کوئی اس سے ہٹ کر زندہ رہتا نظر آئے تو ہمیں اچھا نہیں لگتا۔ ہمیں اسے گوارا کرنے میں بھی بڑی دقت محسوس ہوتی ہے۔

میرے میں تھوڑی سی بھی جرأت باقی رہی ہوتی تو کھول کر بیان کردیتا کہ ہم ایسے تنگ نظر کیوں بن گئے ہیں۔ وجوہات میرے علاوہ بھی اس ملک کے لاکھوں لوگ پوری طرح جانتے ہیں۔ سب کو مگر اپنی زندگی اور اس سے جڑی راحتیں پیاری ہیں۔ کوئی بھی بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال کر اپنی اور اپنے پورے خاندان کی زندگی کو عذاب کی صورت نہیں دینا چاہتا۔ سانحہ پشاور جیسے واقعات ہوتے ہیں تو وقتی طور پر باسی کڑی میں کچھ اُبال آتے ہیں۔ پھر وہ اپنی موت مرجاتے ہیں اور اس معاشرے پر حاوی تنگ نظری اور شدت پسندی پوری وحشت کے ساتھ واپس آجاتی ہے۔

آج کل مسیحی برادری کے لیے جو محبت بھرا اُبال آیا ہوا ہے اس کا فائدہ بھی بالآخر ان لوگوں کو ہو رہا ہے جن کا ہمیشہ سے یہ اصرار رہا ہے کہ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان تو کیا کسی غیر مسلمان سے نفرت کر ہی نہیں سکتا۔ وہ تو امن وسلامتی کا پیروکار ہے۔ مساجد، امام بارگاہوں اور گرجا گھروں پر حملے دراصل اسرائیل، بھارت یا سی آئی اے کے وہ ایجنٹ کررہے ہوتے ہیں جنھیں طالبان میں ’’گھسا‘‘ دیا گیا ہے۔ وہ ’’طالبان‘‘ کا روپ دھار کر اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے والی کارروائیاں کرتے ہیں۔ نواز شریف صاحب کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن جانے کے بعد جو کل جماعتی کانفرنس ہوئی اس نے ’’اچھے‘‘ اور ’’برے‘‘ طالبان میں فرق بالآخر دریافت کر ہی لیا۔ فیصلہ ہوگیا کہ ’’اچھے‘‘ طالبان کے ساتھ جو خدا کے فضل سے کثیر تعداد میں بھی ہیں صلح کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔

مذاکرات کے اس فیصلے نے اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کی صفوں میں کھلبلی مچادی۔ پہلے انھوں نے ایک میجر جنرل کو شہید کیا پھر عین اس روز جب وزیر اعظم غیر ملکی دورے کے لیے ہوائی جہاز میں بیٹھے تھے پشاور والا واقعہ ’’کروا‘‘دیا گیا۔ یہ واقعہ ’’کروانے‘‘ والے کون ہیں، کہاں رہتے ہیں۔ تعلق ان کا کس ملک سے ہے؟ ان سوالوں کا جواب ہمارے وزیر داخلہ کے پاس بھی نہیں۔ ویسے انھیں ہر موقعہ کی غزل منہ زبانی یاد ہوا کرتی ہے۔ میرے اور آپ کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا کہ ابھی تک ’’نامعلوم‘‘ دشمنانِ اسلام اور پاکستان کی پھیلائی وحشتوں پر سوائے ماتم کنائی کے علاوہ کچھ کرسکیں۔ مسیحی برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے میں نے بھی اس کالم کے ذریعے اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کردی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔