خداکے لیے

مقتدا منصور  بدھ 25 ستمبر 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

میری سمجھ میں نہیں آرہاکہ ہماری حکومت، سیاسی جماعتیں اور اسٹبلشمنٹ کن لوگوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی خواہش مند ہیں؟وہ جو انسان کے روپ میں درندے ہیں جن کی نظر میں انسان اور انسانیت کی کوئی قدروقیمت نہیں۔وہ جومعصوم وبے گناہ انسانوں کے بلاجواز چیتھڑے اڑا دیتے ہیں۔ وہ جو فوج اور فوجی تنصیبات پرحملہ آورہوتے ہیںاور سفاکی کے ساتھ گلے کاٹتے ہیں۔وہ جن کی نظر میں عبادت گاہوں کا تقدس بے معنی ہے۔ وہ جوکبھی چرچوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، توکبھی مندروں پر۔ کوئی امام بارگاہ ان کے نشانے پر ہوتی ہے تو کبھی کوئی مسجد اور اس میں سربہ سجود سیکڑوں مسلمان۔

جو سیاسی ومذہبی جماعتیں ان عناصر سے مذاکرات کی حمایت کررہی ہیں، ان کا مذاکرات کے حق میںکوئی ٹھوس استدلال اور ایجنڈا سامنے نہیںآیا۔کیا ان جماعتوں کی خواہش ہے کہ پاکستان کی حکومت ان کے اس دعوے کو تسلیم کرلے کہ جمہوریت غیر شرعی ہے؟ کیا یہ مان لیا جائے کہ پاکستان کا متفقہ آئین غیر اسلامی ہے؟کیا ایک ایسے ملک میں جس کے قیام میں برصغیر کے مسلمانوں کے تمام فرقوں اور مسالک نے یکساں اپنا حصہ ڈالاتھا، کسی ایک مسلک کی برتری قبول کرلی جائے؟کیا اس ملک کی مسیحی کمیونٹی جس نے پاکستان کے وجودکو تسلیم کرتے ہوئے اس کا شہری بننے کو ترجیح دی تھی،انھیں تمام بنیادی انسانی حقوق سے محروم کردیا جائے؟ کیا سندھ کی ہندوکمیونٹی جو اپنی دھرتی سے بے لوث محبت کرتی ہے اور تمامتر مشکلات اور مسائل کے باوجود اس دھرتی کو چھوڑنے پر آمادہ نہیںہے،اسے زبردستی یہ ملک چھوڑنے پر مجبورکردیا جائے؟ کیا دہشت گردی کے واقعات واقعی ڈرون حملوں کا ردعمل ہیں یا پھریہ مظہر 1980 کے عشرے کے نام نہاد جہاد کا تحفہ ہے؟ شدت پسندوں سے مذاکرات کی حامی سیاسی ومذہبی جماعتیں کیااس بات کی ضمانت دیں گی کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد دہشت گردی ختم ہوجائے گی اور شدت پسند اپنا اسلحہ پھینک کر پاکستانی ریاست کی رٹ کو تسلیم کرلیں گے؟

یہ تمام سوالات غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔اس لیے ہر سوال پر انتہائی سنجیدگی اور متانت کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عجلت پسندی میںجذباتی فیصلے اور ان پر اصرار ملک کومزید پیچیدہ مسائل میں دھکیلنے کا موجب بن سکتاہے ۔ بانیِ پاکستان نے 11اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں اپنے خطاب میں بعض تجاویز بہت سوچ سمجھ کردی تھیں۔ اگر آئین سازی میں ان کی تجاویز پرعمل کرلیا جاتا ،تو پاکستان اپنے قیام کی دوسری اور تیسری دہائی کے دوران ترقی یافتہ ملک بن چکا ہوتا۔ یہ دعویٰ کسی خوش فہمی کی بنیاد پر نہیں کیا جا رہا، بلکہ عالمی اداروں کی رپورٹس کی بنیاد پرکیا جارہا ہے،جن کے مطابق 1965 تک پاکستان میں معاشی نمو کی شرح تیسری دنیا کے دیگر تمام ممالک سے کہیں زیادہ تھی۔ ڈاکٹر عشرت حسین کی تحقیق کے مطابق 1960 کے عشرے میں پاکستان کی برآمدات کا حجم ملائیشیا، انڈونیشیاء فلپائن اورکوریا کی مجموعی برآمدات سے زیادہ تھا۔ہمیں اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ1965کی جنگ نے مجموعی طورپر کیا فائدہ اور کیا نقصان پہنچایا۔

اب اس بات میں دو رائے نہیں ہیں کہ اگر پاکستان میںابتدائی برسوں کے دوران آئین سازی ہوجاتی اور جمہوریت تسلسل کے ساتھ جاری رہتی تو پاکستان بھارت سے زیادہ خوشحال اور ترقی یافتہ ملک ہوتا۔ اس کی منطقی وجہ یہ ہے کہ آج بھی پاکستان کو درپیش مسائل بھارت کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ پاکستان میں نہ اتنے زیادہ مذاہب وعقائد ہیں، نہ اتنی ثقافتی ہماہمی ہے اور نہ ہی اتنے شدید لسانی تفاوت ہیں، جتنے بھارت کو درپیش رہے ہیں۔بھارت نے خود کو جمہوریت اور جمہوری اقدار کی وجہ سے جوڑے رکھا ہے۔لہٰذا بعض دانشور لاکھ اغیار پر الزام عائد کریں، مگراب اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ پاکستان جن مسائل ومصائب میں گھرا ہے، وہ خود اس کی حکمران اشرافیہ کے پیدا کردہ ہیں۔ جمہوریت اور وفاقیت سے انحراف نے مختلف قومیتوں کے درمیان عدم اعتماد کو جنم دیا۔ قراردادِ مقاصد نے دیگر مذاہب اور مسلمانوں کے مختلف مسالک کے درمیان آویزش کو بڑھاوا دیا اور تسلسل کے ساتھ غیر نمایندہ نظم حکمرانی نے فکری انتشار کو بام عروج تک پہنچایا۔

سقوط ڈھاکا کے بعد جو سب سے اہم کام سرانجام پایا، وہ مدتوں بعد ایک متفقہ آئین کی تشکیل تھی۔اس آئین میں جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے بعض ضمانتیں بھی فراہم کی گئی تھیں۔مگر کچھ سیاسی جماعتوں کی کوتاہ بینی،کچھ اسٹبلشمنٹ کا رویہ اور کچھ بیرونی عوامل کے باعث، پاکستان میں جمہوریت تسلسل کے ساتھ نہ چل سکی۔ سیاسی جماعتوں پر الزام اس لیے آتا ہے کہ انھوں نے بھٹو مرحوم کی مخالفت میں جنرل ضیاء کی آمریت کی حمایت کرکے جمہوریت کے تسلسل کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ دوسرے جب آئین میں اسلام کے حوالے سے تمام امور متفقہ طور پر  طے کرلیے گئے تھے، تو پھر اسلام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے جنرل ضیاء الحق کو روکنے کی جرأت کرنے کے بجائے بعض سیاسی ومذہبی جماعتوں نے کہیں کھل کر اور کہیں درپردہ ان کی حوصلہ افزائی کی۔ یہی کچھ معاملہ 1999میںپیش آیا، جب جنرل پرویز مشرف نے آئین سے انحراف کرتے ہوئے منتخب حکومت کا خاتمہ کیا تو بیشتر سیاسی جماعتوں نے انھیں اپنی حمایت کا یقین دلایا۔

اب حالات میں کثیر الجہتی تبدیلیاں رونماء ہوچکی ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں تحمل کے ساتھ ایک دوسرے کو قبول کرنے کا جذبہ پیدا ہوا ہے۔ذرایع ابلاغ نے مسائل کی بھرپورانداز میں نشاندہی کے ساتھ جمہوری اقدار کو مستحکم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان کاوشوں کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہر سطح پر پرامن انتقالِ اقتدار ہوا ہے۔ اگر پرامن انتقالِ اقتدار کا یہ عمل تسلسل کے ساتھ اگلی دو انتخابی مدتوں تک جاری رہتاہے، تو جمہوریت کے استحکام کے بارے میں کوئی مثبت رائے دی جاسکتی ہے۔اس لیے ایک ایسے مرحلہ پر جب وطنِ عزیز میں جمہوریت اور جمہوری عمل ابھی زدپذیری کا شکار ہو،ان عناصر سے گفت وشنید معاملات میں بہتری کے بجائے ابتری کی طرف بڑھ سکتے ہیں اور جمہوری عمل کے ایک بار پھر پٹری سے اترجانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔بعض حلقوں کی اس رائے میں وزن معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو آئے دن رونماء ہونے والے پرتشدد واقعات کے باوجود شدت پسند عناصر سے مذاکرات اور گفت وشنید کی حامی ہیں،ان میں سے کچھ میں سیاسی بلوغت کی کمی ہے، مگر دیگر کچھ جماعتیںدانستہ طورپر جمہوری عمل کو نقصان پہنچاناچاہتی ہیں۔اس دعویٰ میں کس حد تک صداقت ہے، یہ آنے والا وقت ثابت کرے گا۔ لیکن حالات کی معروضیت یہ بتارہی ہے کہ شدت پسند عناصر سے مذاکرات بہر حال بے معنی ہی ثابت ہوں گے۔

اب جہاں تک اس بحث کا تعلق ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ہماری ہے یا اغیارکی؟ تو ہر وہ لڑائی اس قوم اور معاشرے کی لڑائی ہوجاتی ہے، جس سے وہ ملک ومعاشرہ اور اس کے شہری متاثر ہورہے ہوں، خواہ اس کی ابتداء کسی بھی حالات میں ہوئی ہو۔اس کے علاوہ پاکستان میں شدت پسندی کے رجحانات میں اضافے کو صرف9/11کے بعد کے تناظر میں دیکھنا تاریخی حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔پاکستان میں غیر ریاستی عناصر کو ریاستی معاملات میں الجھانے کا عمل گو 1947 میں کشمیر جنگ سے شروع ہوا۔ لیکن جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں ،تو ریاستی اقتدار اعلیٰ کی رضامندی سے بڑے پیمانے پرغیر ریاستی جہاد کا مظہر پروان چڑھا۔

اس وقت اس عمل کے مضمرات پر توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی یہ سوچا گیا کہ وہ عناصر جنھیں عسکری تربیت اور جدید آتشیں اسلحہ دے کر افغانستان میں نبردآزماء کیا جارہا ہے، اس جنگ کے خاتمے کے بعد ان عناصر کا کیا مصرف ہوگا؟ اور کیا ہزاروں کی تعداد میں قبائلی علاقوں میں جمع ہونے والے یہ مسلح عناصر کسی بھی وقت خود پاکستان کے لیے نئے مسائل پیدا کرنے کا سبب تو نہیں بن جائیں گے؟اگر غیر جانبداری کے ساتھ اس وقت کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو امریکا نے وہی کچھ کیا جو بڑی عالمی قوتیں اپنے اہداف کے حصول کے بعد کیا کرتی ہیں۔ اس لیے امریکا کو ہدف تنقید بنانے کے بجائے اپنی پالیسیوں میں موجود سقم کا تنقیدی جائزہ لیا جانا چاہیے،جس کی وجہ سے ہم اغیار کی آگ کو اپنے گھر کے صحن تک لے آئے اور اب اس آگ نے ہمارے پورے گھر کو جلاکر خاکسترکردیا ہے۔اس لیے اس تناظر میں شدت پسند عناصر سے مذاکرات پر بعض سیاسی قوتوں کا اصرار ایک بار پھر 1980 کے عشرے کی ان غلطیوں کا اعادہ ہوگا، جن کی وجہ سے آج ہم اس عفریت کا شکار ہیں اور اس سے نکل نہیں پا رہے۔

عقل و دانش کا تقاضہ یہ ہے کہ ان عناصر پر واضح کیا جائے کہ پاکستان کی ریاست اپنے آئین اور جمہوری نظم حکمرانی میں کسی قسم کی تبدیلی کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ آئین میںاسلام کے حوالے سے جو شقیں موجود ہیں،ان میں غیر جمہوری طریقے سے کوئی اضافہ یا کمی نہیںکی جائے گی۔ غیر مسلموں اور مسلمانوں کے مختلف مسالک کوآئین میں دی گئی ضمانتوں پر کسی قسم کی سودے بازی نہیںکی جائے گی۔ فکری کثرتیت اور آزادیِ اظہار پر کسی قسم کا قدغن قبول نہیں کیا جائے گا۔اگر ان شرائط پر شدت پسند عناصر اپنے ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور آئین میںکسی قسم کی تبدیلی کے لیے جمہوری طریقہ اختیارکرنے پر آمادہ ہیں،تو پاکستانی ریاست انھیں خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہے اورضمانت دیتی ہے کہ ان کے ساتھ کسی قسم کا معاندانہ رویہ روا نہیں رکھا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔